کیا انڈیا روس کے ساتھ دفاعی تعلقات ختم کر سکتا ہے؟
- شرتی مینن
- بی بی سی ریلیٹی چیک
ماسکو میں پریڈ کے لیے تیاریاں جاری ہیں
یوکرین پر حملے کے بعد سے انڈیا کے روس کے ساتھ دیرینہ تعلقات دنیا بھر کی توجہ کا مرکز بنے ہوئے ہیں۔ خاص کر دفاعی تعلقات۔
انڈیا کی وزیِرِ خزانہ نرملا سیتا رمن نے اپریل میں امریکہ کے دورے کے دوران کہا تھا کہ انڈیا مغربی ممالک کا ’اچھا دوست‘ بننا چاہے گا۔
لیکن انھوں نے مزید کہا کہ انڈیا ان تعلقات کے نتیجے میں کمزور نہیں ہونا چاہتا اور اسے اپنی سلامتی کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ انڈیا کا روسی فوجی ساز و سامان پر انحصار جاری رہے گا۔
انڈیا روسی دفاعی سامان پر کتنا انحصار کرتا ہے؟
انڈیا دنیا میں سب سے زیادہ ہتھیار خریدنے والے ممالک میں سے ایک ہے اور سابقہ سوویت یونین کے ساتھ اس کے کئی سالوں سے قریبی دفاعی تعلقات قائم ہیں۔
انڈیا کی پاکستان اور چین کے ساتھ خراب تعلقات کا مطلب ہے کہ 1990 کی دہائی میں سوویت یونین کے خاتمے کے بعد بھی روس اور دلی ایک دوسرے کے اہم ساتھی رہے ہیں۔
آئی این ایس ترشول، روس میں بنایا گیا ایک جنگی جہاز ہے جسے انڈین بحریہ نے 2003 میں خریدا تھا
عالمی سطح پر اسلحے کی خریداری اور فوجی اخراجات پر نظر رکھنے والے ادارے سیپری (سٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ) کے مطابق سنہ 1992 سے انڈیا میں تقریباً دو تہائی فوجی سازوسامان روس سے آیا ہے۔
سٹیمسن سینٹر (امریکہ میں قائم ایک تحقیقی گروپ) کا اندازہ ہے کہ انڈیا نے 85 فیصد ہتھیار روس سے خریدے ہیں۔ ان ہتھیاروں میں لڑاکا طیارے، نیوکلیئر پاور سے چلنے والی آبدوزیں، طیارہ بردار بحری جہاز، ٹینک اور میزائل شامل ہیں۔
کیا انڈیا مختلف ممالک سے ہتھیار خریدنے کی کوشش کر رہا ہے؟
پچھلی دہائی میں انڈیا کا روسی ہتھیاروں پر انحصار کم ہوا ہے اور اس نے دوسرے ممالک ( فرانس، اسرائیل اور امریکہ اور برطانیہ) سے زیادہ ساز و سامان خریدا ہے۔
سیپری کے اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ سنہ 2017 کے مقابلے میں 2021 میں فرانس، امریکہ اور اسرائیل کی طرف سے انڈیا کو ہتھیاروں کی فروخت دوگنی ہو گئی تھی، تاہم روس پھر بھی ایک بڑا سپلائر رہا۔
انڈیا نے فرانس سے رافیل جیٹ، میراج لڑاکا طیارے اور سکارپین آبدوزیں خریدی ہیں۔ وزیر اعظم نریندر مودی کے ایک حالیہ دورے کے دوران دونوں ممالک نے جدید دفاعی ٹیکنالوجی میں اپنے تعاون کو مزید بڑھانے پر اتفاق کیا ہے۔
اسی طرح اپریل میں برطانیہ کے وزیر اعظم بورس جانسن کے دلی کے دورے کے دوران برطانیہ اور انڈیا نے جیٹ فائٹرز کی جدید ٹیکنالوجی میں مشترکہ تعاون کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے دفاعی اور سیکورٹی تعلقات کو مزید بڑھانے کا عہد کیا۔
انڈیا نے اپنی کچھ ہائی ٹیک دفاعی اور سیکورٹی ضروریات کے لیے اسرائیل کا رخ بھی کیا ہے، جن میں:
- ڈرون
- ائیر بورن وارننگ سسٹم
- میزائل شکن نظام
- ٹھیک جگہ پر نشانہ لگانے والا گولہ بارود
امریکہ کے ساتھ انڈیا کے فوجی تعلقات بڑھ رہے ہیں، 2018 سے 2019 تک دونوں ممالک کے درمیان دفاعی تجارت میں کافی اضافہ ہوا ہے۔
انڈیا نے امریکہ سے جو اہم جنگی سامان خریدا ہے اس میں ایک طویل رییج والا سمندری نگرانی کا طیارہ اور سی 130 ٹارنسپورٹ طیارہ شامل ہیں۔ اس کے علاوہ انڈیا نے مختلف میزائل اور ڈرون بھی خریدے ہیں اور امریکی وزارتِ دفاع پینٹاگون نے خلا میں دفاعی نظام اور سائبر سکیورٹی کے حوالے سے تعلقات بڑھانے کی بات بھی کی ہے۔
کیا انڈیا روسی ہتھیاروں پر اپنے انحصار پر نظرِثانی کر رہا ہے؟
گزشتہ چند سالوں میں بین الاقوامی تعلقات کی بدلتی صورتحال میں انڈیا کے فرانس، امریکہ اور اسرائیل جیسے ممالک کے ساتھ تعلقات بہتر ہوئے ہیں۔
اس کے باوجود انڈیا ان ممالک میں شامل نہیں تھا جنھوں نے روس کے یوکرین کے حملے کی مذمت کی جس سے واضح ہوتا ہے کہ انڈیا کسی ایک فریق کا ساتھ نہیں دینا چاہتا۔
کچھ دفاعی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ روس پر پابندیوں کے اثرات کی وجہ سے انڈیا کے پاس ماسکو پر اپنا انحصار کم کرنے کے علاوہ کوئی راستہ نہیں ہے۔
سٹمسن سینٹر کے دفاعی تجزیہ کار سمیر لالوانی کا کہنا ہے کہ انڈیا نے 2018 میں روس سے زمین سے فضا میں مار کرنے والا میزائل نطام ایس 400 خریدا تھا اس کے اہم پرزوں کے حوالے سے بھی مشکات ہو سکتی ہیں اور اب تک یہ نظام صرف جزوی طور پر انڈیا پہنچایا گیا ہے۔
لالوانی کہتے ہیں کہ اس بات پر یقین کرنے کے لیے وجوہات موجود ہیں کہ روس ایس 400 پہنچانے کے حوالے سے انڈیا سے کیے گئے وعدے پورے نہیں کر پائے گا۔
ان کا یہ بھی ماننا ہے کہ یوکرین کے ساتھ جنگ میں روس کو جو نقصانات ہوئے ہیں ان کے باعث وہ انڈیا کی ضروریات پوری کرنے کے قابل نہیں ہو گا کیونکہ اسے اضافی پرزے اپنا سازوسامان ٹھیک کرنے میں لگانا پڑیں گے۔
اور ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ان کے پالیسی ساز یوکرین میں جنگ کے دوران روسی کے جنگی سامان کو پیش آنے والے مسائل پر بھی نظر رکھے ہوئے ہوں گے۔
کیا انڈیا روسی دفاعی سامان کے بغیر گزارہ کر سکتا ہے؟
فی الحال ایسا ممکن نظر نہیں آ رہا۔
گزشتہ سال اکتوبر میں امریکی کانگریس کی ایک رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ ’انڈین فوج روس کی جانب سے فراہم کیے گئے آلات کے بغیر مؤثر طریقے سے کام نہیں کر سکتی اور اس کا روسی ہتھیاروں کے نظام پر انحصار جاری رہے گا۔‘
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ روس اپنے ہتھیار نسبتاً اچھی قیمتوں پر فراہم کرتا ہے۔
دلی میں ایوی ایشن اینڈ ڈیفنس یونیورس کی ایڈیٹر سنگیتا سکسینہ کہتی ہیں کہ انڈین فوج روس سے خریداری جاری رکھے گی۔
سکسینہ کہتی ہیں کہ اس کی وجہ صرف یہ نہیں ہے کہ انڈین فوجی روسی سازو سامان کو چلانا جانتے ہیں بلکہ اس لیے بھی کہ روس کے ساتھ تعلقات ہر اچھے برے وقت میں متاثر نہیں ہوئے۔
لیکن وہ مزید کہتی ہیں کہ انڈیا اپنی دفاعی صنعت کو ترقی دینا چاہتا ہے اور اس حوالے سے اکثر معاملوں میں کئی ممالک کے ساتھ شراکت داری شامل ہے۔
سکسینہ کہتی ہیں کہ اس میں ’میک اِن انڈیا‘ جیسے پروگراموں کے تحت ہتھیاروں کی تیاری کو بڑھانے کے لیے بیرون ملک سے جدید ترین ٹیکنالوجی کا خریدنا بھی شامل ہے۔
وہ کہتی ہیں کہ انڈیا ہر اس ملک سے سامان خریدے گا جو اسے موزوں یا بہتر قیمت پر اچھی ڈیل آفر کرے گا پھر چاہے وہ روس ہو یا کوئی اور ملک۔
Comments are closed.