ایک تیزی سے بڑھتی ہوئی معیشت
،تصویر کا ذریعہGetty Imagesنریندر مودی نے اگست 2023 میں جنوبی افریقہ کے دورے کے دوران اعلان کیا تھا کہ ’انڈیا دنیا کی ترقی کا انجن‘ ہو گا۔ اور اس کے بعد سنہ 2023 کے آخر تک انڈیا نے دنیا کی سب سے تیزی سے ترقی کرنے والی بڑی معیشت کے طور پر اپنا اعزاز حاصل کیا۔ یاد رہے کہ گذشتہ سال کے آخری تین مہینوں میں اس کی معیشت کے حجم میں 8.4 فیصد اضافہ ہوا تھا۔عالمی معیشتوں کی درجہ بندی جی ڈی پی (مجموعی ملکی پیداوار) کے ذریعے کی جا سکتی ہے۔ جی ڈی پی کسی ملک میں کمپنیوں، حکومتوں اور افراد کی معاشی سرگرمی کی پیمائش کرتی ہے۔امریکی سرمایہ کاری بینک ’مورگن سٹینلے‘ سمیت متعدد مالیاتی اداروں کے مطابق انڈیا سنہ 2027 تک جرمنی اور جاپان کو پیچھے چھوڑ کر دنیا کی تیسری سب سے بڑی معیشت بننے کی راہ پر گامزن ہو گا۔اس سے بھی زیادہ قابل ذکر بات یہ ہے کہ سنہ 1947 میں اپنی آزادی کے وقت انڈیا دنیا کے غریب ترین ممالک میں سے ایک تھا۔دہائیوں کے برطانوی راج نے ملک کے لیے ناکافی بنیادی ڈھانچا اور زرعی صنعت چھوڑی اور یہ ملک اپنی بڑھتی ہوئی آبادی کا پیٹ بھرنے سے بھی قاصر تھا۔ اس وقت کے اندازوں کے مطابق انڈیا میں لوگوں کی متوقع عمر 35 سال تھی تاہم ورلڈ بینک کے مطابق آج یہ تقریبا دگنا ہو کر 67 سال ہو گئی ہے جبکہ عالمی اوسط 71 برس ہے۔ورلڈ بینک کے مطابق انڈیا دنیا کا دسواں بڑا برآمدات کرنے والے ملک ہے۔ اس کی بڑی برآمدات میں تیل، ہیرے، اور ادویات شامل ہیں۔انڈیا کی معیشت اُس وقت تیزی سے پھلی پھولی جب ملک میں سروس انڈسٹری، ٹیلی مواصلات اور سافٹ ویئر کے شعبوں میں ترقی ہوئی۔ لیکن ماہرین اقتصادیات کے مطابق روزگار کے مواقع یکساں رفتار سے پیدا نہیں ہو سکے۔’ایچ ایس بی سی‘ کی ایک بریفنگ میں اندازہ لگایا گیا ہے کہ انڈیا کو اپنی آبادی میں اضافے کی شرح کے پیش نظر اگلی دہائی میں مزید سات کروڑ ملازمتیں پیدا کرنے کی ضرورت ہے، لیکن حقیقت میں اور اندازوں کے مطابق اس کی ایک تہائی سے زیادہ ملازمتوں کے مواقع پیدا ہونے کا امکان نہیں ہے۔،تصویر کا ذریعہGetty Images
آبادی کا پھٹتا غبارہ
بہت سے دیگر ترقی یافتہ ممالک کے برعکس انڈیا کی آبادی کا بڑا حصہ نوجوانوں پر مشتمل ہے۔اس وقت انڈیا کی کُل آبادی 1.4 ارب افراد پر مشتمل ہے اور انڈین ماہرین اقتصادیات بشار چکرورتی اور گورو ڈالمیا نے پیش گوئی کی ہے کہ سنہ 2030 تک ملک میں کام کرنے کی عمر کے اہل افراد کی تعداد ایک ارب سے تجاوز کر جائے گی۔انھوں نے ’ہارورڈ بزنس ریویو‘ کو حال ہی میں بتایا کہ جاپان اور چین سمیت دیگر ایشیائی معیشتوں کی معاشی چھلانگ کا انحصار اُن ’کام کرنے کی عمر کی آبادی میں اضافے‘ پر ہے۔ لیکن ان تمام نوجوانوں کو ملک میں رکھنا مشکل ہو سکتا ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق دنیا میں بیرون ملک رہنے والے افراد میں سب سے زیادہ تعداد انڈیا کے شہریوں کی ہے۔یہاں سے ہر سال تقریباً 25 لاکھ افراد بیرونِ ملک چلے جاتے ہیں جن میں کچھ اعلیٰ تعلیم یافتہ اور ہنر مند افراد بھی ہوتے ہیں۔انڈین وزارت خارجہ کے اعداد و شمار کے مطابق زیادہ سے زیادہ انڈین غیر معینہ مدت کے لیے بیرون ملک رہنے کا انتخاب کر رہے ہیں، جس میں انڈین شہریت چھوڑنے والوں کی بھی ایک بڑی تعداد ہے۔انڈیا میں دوہری شہریت کی اجازت نہیں ہے۔ سنہ 2022 میں 225,000 سے زیادہ لوگوں نے اپنی انڈین شہریت منسوخ کرتے ہوئے دیگر ممالک کی شہریت اختیار کی۔جبکہ جو نوجوان ملک میں ہیں انھیں ملازمتوں کے حصول میں پریشانی کا سامنا ہے۔حکومتی اعداد و شمار کے مطابق انڈیا میں بے روزگاری کی شرح آٹھ فیصد ہے جبکہ امریکہ میں یہ شرح 3.8 فیصد ہے۔مارچ میں انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن نے کہا تھا کہ 15 سے 29 سال کی عمر کے لوگ انڈیا کے بے روزگاروں کا 83 فیصد ہیں، جن میں سے اکثریت نے کم از کم ثانوی تعلیم حاصل کر رکھی ہے۔انڈین صحافی اور مصنف سدھارتھ دیب کہتے ہیں کہ ’میں اکثر انڈیا بھر میں سفر کرتا ہوں اور نوجوانوں سے بات کرتا ہوں۔ وہ افسردہ ہیں۔‘وہ کہتے ہیں ’اقتصادی ترقی نے شاہراہوں اور ہوائی اڈوں جیسے نئے بنیادی ڈھانچوں کو تشکیل دیا اور ارب پتیوں کی تعداد میں اضافہ ہوا لیکن انڈیا میں عام لوگ مشکلات کا شکار ہیں۔‘،تصویر کا ذریعہGetty Images
ملازمت پیشہ خواتین کہاں ہیں؟
حکومت کے مطابق ملک میں کام کرنے والی خواتین کا تناسب 33 فیصد ہے یعنی ہر 100 میں سے 33 خواتین کام کرتی ہیں۔ عالمی بینک کا کہنا ہے کہ امریکہ میں یہ شرح 56.5 فیصد، چین میں 60.5 فیصد جبکہ خواتین کے کام کرنے کی عالمی اوسط 49 فیصد ہے۔ا گرچہ ماضی کے مقابلے میں زیادہ انڈین خواتین تعلیم حاصل کر رہی ہیں لیکن ملک میں شادی کے بعد خواتین کے گھر بیٹھ جانے کی روایت قائم و دائم ہے۔ بنگلور کی آزم پریم جی یونیورسٹی میں ماہر معاشیات پروفیسر اشونی دیش پانڈے کہتی ہیں کہ بہت سی کام کرنے والی خواتین اپنا کام کر رہی ہیں یعنی سیلف ایمپلائڈ ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ’ملازمت کے معاہدوں اور سماجی تحفظ کے فوائد کے ساتھ باقاعدگی سے تنخواہ دیے جانے والے کاموں میں خواتین کی شرکت بڑھانے کی اشد ضرورت ہے۔‘،تصویر کا ذریعہGetty Images
عدم مساوات
انڈیا اب بھی دنیا کے ایسے ممالک میں شامل ہے جہاں بہت زیادہ عدم مساوات ہے۔فوربز کے مطابق اس کی نصف آبادی 3.10 ڈالر یومیہ سے بھی کم آمدن پر گزارہ کرتی ہے جو عالمی بینک کی اوسط غربت کی لکیر ہے جبکہ انڈین ارب پتی افراد کی تعداد سنہ 1991 میں ایک شخص سے بڑھ کر سنہ 2022 میں 162 ہو گئی۔امریکہ کی پرنسٹن یونیورسٹی میں بین الاقوامی معیشت کی پالیسی کے پروفیسر ڈاکٹر اشوک مودی کے مطابق جہاں متوسط طبقہ پھل پھول رہا ہے وہیں انڈیا میں بڑے پیمانے پر عدم مساوات بھی ہے۔ اور یہی ایک بڑی وجہ ہے کہ یہ فرض کرنا بے وقوفی ہے کہ انڈیا بڑے پیمانے پر اصلاحات کے بغیر سپر پاور بن جائے گا۔ڈاکٹر مودی کا کہنا ہے کہ جن تبدیلیوں کی ضرورت ہے ان میں سے ایک سماجی اصلاحات ہیں جو اس عدم مساوات کو ختم کرتی ہیں۔ ان اصلاحات میں انڈیا کا صحت عامہ کے نظام کو مضبوط بنانا بھی شامل ہے۔’کروڑوں انڈین شہریوں کے لیے روزگار اور تعلیم حاصل کرنا مشکل ہے اور صحت عامہ کی صورتحال خراب ہے۔‘،تصویر کا ذریعہGetty Images
شدت اختیار کرتی سیاسی تقسیم
انڈیا میں سیاسی تقسیم نئی چیز نہیں ہے۔ انیسویں صدی سے ہی یہ بحث جاری ہے کہ یہ ایک سیکولر ملک ہے یا ہندو قوم ہے، یہاں کی 90 فیصد آبادی ہندو ہے۔یہ بحث اس وقت شدت اختیار کر گئی جب نریندر مودی کی ہندو قوم پرست جماعت بی جے پی نے سنہ 2014 میں بڑی کامیابی حاصل کی۔اس جماعت کے برسراقتدار آنے کے بعد مسلمانوں کے خلاف نفرت پر مبنی جرائم کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے اور مارچ میں اقوام متحدہ اور امریکی حکومت دونوں نے ایک ایسے قانون کی منظوری پر تشویش کا اظہار کیا تھا جس کے تحت پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان سے غیر مسلم مذہبی اقلیتوں کے لیے انڈین شہریت حاصل کرنا آسان ہو جائے گا۔مصنفہ دیویکا ریگے، جنھوں نے حال ہی میں 2014 کے انتخابات کے تناظر میں انڈیا کے بارے میں ایک متنازع ناول کوارٹر لائف شائع کیا ہے، کا خیال ہے کہ ان کا ملک ’فرقہ وارانہ بدامنی‘ کی لہر کا سامنا کر رہا ہے۔وہ کہتی ہیں کہ ’شناخت کی سیاست کچھ لوگوں کے لیے ووٹ دینے کی ایک وجہ رہی ہے لیکن 2014 کے الیکشن نے لوگوں کو دوستوں اور خاندان کی سطح پر بھی تقسیم کر دیا ہے۔‘’انڈیا کی شرح نمو کو جھٹلانا مشکل ہے، لیکن شہری آزادیوں پر سمجھوتہ کیا گیا ہے اور فرقہ وارانہ بدامنی میں اضافہ ہوا ہے۔ اس طرح کی آگ اگر بے قابو ہو جائے تو ہر چیز کو اپنی لپیٹ میں لے لے گی۔‘
انڈیا ہمیشہ مغرب کے ساتھ تعاون نہیں کرتا
کئی سالوں سے مغربی ممالک یہ امید کر رہے ہیں کہ انڈیا ایشیا میں چین کے اثر و رسوخ کو متوازن کرنے والی قوت بن جائے گا۔جوہری ہتھیاروں سے لیس ریاست ہونے کے ساتھ ساتھ اس کے پاس دنیا کی دوسری سب سے بڑی فوج بھی ہے جس کے اہلکاروں کی تعداد ساڑھے 14 لاکھ ہے۔ لیکن انڈیا ہمیشہ ایسا برتاؤ نہیں کرتا جیسا مغرب چاہتا ہے۔گذشتہ دو برسوں کے دوران روس یوکرین جنگ میں غیر جانبدارانہ موقف اختیار کرنے اور ماسکو کے خلاف مغربی پابندیوں کے باوجود رعایتی قیمتوں پر روسی تیل خریدنے پر اسے تنقید کا سامنا کرنا پڑا ہے۔لندن سکول آف اکنامکس اینڈ پولیٹیکل سائنس میں بین الاقوامی تعلقات کی ماہر ثانیہ کلکرنی کہتی ہیں کہ مغرب یہ توقع کر سکتا ہے کہ انڈیا چین کے مقابلے میں ’کم مشکل‘ ہو گا۔وہ کہتی ہیں کہ ’یہ توقع کرنا غلط ہو گا کہ انڈیا مغرب کے سفیر کے طور پر خِطے میں کام کرے گا۔‘
BBCUrdu.com بشکریہ
body a {display:none;}
Comments are closed.