کابل میں ڈرون ہونے والا حملہ: کیا امریکی ڈرون حملے کا نشانہ بننے والی کار میں بم تھا؟
- رییلٹی چیک ٹیم
- بی بی سی نیوز
امریکی میزائل حملے میں تباہ ہونے والی کار کی فضائی تصویر
29 اگست کو کابل کے شمالی حصے میں ایک ڈرون حملہ ہوا جس میں ایک ہی خاندان سے تعلق رکھنے والے سات افراد مارے گئے، جس نے کئی سوالات کو جنم دیا ہے۔
امریکی فوج کا کہنا ہے کہ اس نے انٹیلیجنس اطلاعات کی بنیاد پر یہ حملہ کیا۔ ان اطلاعات میں اسے مقامی نام نہاد دولت اسلامیہ کی طرف سے ایک بہت خـاص خطرہ قرار دیا گیا تھا۔ امریکہ کا کہنا ہے کہ اب وہ اس سارے معاملے کی تحقیقات کر رہا ہے۔
اس حملے کے بارے میں مقامی افراد نے جو کچھ صحافیوں کو بتایا وہ امریکی دعوؤں کی نفی کرتا ہے۔
امریکہ اس حملے کے بارے میں کیا کہتا ہے؟
امریکہ کا کہنا ہے کہ اس نے افغانستان سے تعلق رکھنے والے دولت اسلامیہ کی ایک کار پر حملہ کیا۔ اس حملے کا مقصد کابل کے بین الاقوامی ایئرپورٹ کو لاحق ایک بڑے خطرے کا قلع قمع کرنا تھا۔ امریکی دعوے کے مطابق کار پھر ابتدائی حملے کے بعد دھماکے بھی ہوئے جس سے پتا چلتا ہے ڈرون حملے کا ہدف کہ ہدف درست تھا۔
کابل ایئرپورٹ کے قریب جہاں امریکہ نے ڈرون حملہ کیا
29 اگست کو۔۔ حملے والے دن۔۔ امریکہ کی سینٹرل کمانڈ نے ایک بیان میں کہا کہ بڑے پیمانے پر زوردار دھماکوں کی بات کی گئی تھی۔۔ جس سے نشاندہی ہوتی تھی کہ (کار میں) دھماکہ خیز مواد موجود ہے۔ اگلے دن وزارت دفاع کے ترجمان جان کربی نے کہا کہ حملے کے بعد دھماکے ہوئے تھے۔
تاہم ان کے پاس اس سوال کا کوئی جواب نہیں تھا کہ انھیں اس بارے میں کیسے معلوم ہوا۔
اسی بریفنگ میں جنرل ہانک ٹیلر نے صحافیوں کو بتایا کہ انھیں اس بات پر پورا اعتماد ہے کہ اس کے بعد والا دھماکہ یا دھماکے اس مواد کی وجہ سے ہوئے جسے حملے کے لیے استعمال کیا جانا تھا۔۔ بجائے اس کے کہ یہ محض ایک سلینڈر یا کسی اور چیز کے پھٹنے کی وجہ سے دھماکہ ہوا۔
تین دن قبل 26 اگست کو 100سے زیادہ عام شہری اور 13 امریکی فوجی کابل ایئرپورٹ کے باہر ہونے والے ایک خود کش بم حملے میں مارے گئے تھے۔ اس حملے کی ذمہ داری افغانستان میں موجود نام نہاد دولت اسلامیہ نے قبول کی۔
مقامی افراد کا اس حملے کے بارے میں کیا کہنا ہے؟
یہ حملہ کابل ایئرپورٹ کے قریب ایک پرہجوم خاج بغرا کے علاقے میں کیا گیا۔ اس حملے میں مرنے والوں کے لواحقین اور علاقے کے لوگ اس حملے کیا توجیہ پر سوالات اٹھا رہے ہیں۔ انھوں نے صحافیوں کو بتایا کہ اس حوالے سے امریکی اطلاعات سراسر غلط تھیں اور اس علاقے میں کوئی داعش کی موجودگی نہیں تھی۔
ان کا کہنا ہے کہ حملے میں مرنے والوں میں چھ بچے بھی شامل تھے۔ یہ حملہ اس وقت کیا گیا جب احمدی کیمونٹی سے تعلق رکھنے والے ایک فرد اپنے گھر کے سامنے اپنی گاڑی کھڑی کر رہا تھا۔
بی بی سی سے منسلک صحافیوں نے بعد اس علاقے کا رخ کیا اور ان میں سے ایک ملک مدثر بھی شامل تھے، جنھوں نے ہمیں بتایا کہ مقامی افراد نے واضح طور پر کہا ہے کہ انھوں نے کار پر حملے کے بعد کسی بھی قسم کے دھماکوں کی آواز نہیں سنی ہے۔
دوسرے ذرائع ابلاغ کے صحافیوں کو، جنھوں نے اس جگہ کا دورہ کیا اور احمدی خاندان سے بات کی، بھی بتایا گیا کہ میزائل کار کے اندر سے ہوتا ہوا زمین کے اندر جا کر پھٹا۔ انھیں یہ بھی بتایا گیا کہ صرف ایک ہی دھماکہ ہوا تھا، اور یہ کہ قریب کھڑی ایک کار بھی جزوی طور پر جل گئی تھی۔
گھروالوں نے آنگن میں رکھے گیس سلینڈروں کی طرف اشارہ کر کے کہا کہ اگر نشانہ بنائی گئی کار کے اندر بم پھٹا تھا تو یہ سلینڈر کیوں نہیں پھٹے۔
شواہد کیا بتاتے ہیں؟
قریب سے بنائی گئی ویڈیو فلم میں اس مقام سے پہلے دھماکے کے بعد دھواں اٹھتا نظر آتا ہے جن سے لگتا ہے کہ کئی دھماکے ہوئے تھے۔
تباہ شدہ کار اور اطراف میں ہونے والا نقصان
ایمنسٹی انٹرنیشنل کے ایک ماہر، برائن کاسٹنر، کا کہنا ہے کہ دیکھنے سے ایسا لگتا ہے کہ ایک ہی وار تھا جس کے بعد کار میں آگ لگ گئی، اور ممکنہ طور پر قریب کھڑی گاڑی کے فیول ٹینک میں دھماکا ہوا۔
ان کا کہنا تھا، ‘مجھے دوسرے دھماکے کی کوئی شہادت نہیں ملی۔ اگر وہاں کوئی دوسرا بڑا دھماکا ہوتا تو اس محدود سے جگہ پر نقصان کہیں زیادہ ہوتا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ قریبی کھڑی گاڑی اور عمارتوں کی دیواروں پر ٹکڑے لگنے سے ہونے والے نقصان کے آثار نظر آئے۔ ان کا کہنا تھا کہ قریب سے بنی ویڈیو میں جو دھواں اٹھتا نظر آ رہا ہے وہ آگ لگی گاڑی کے پیٹرول سے اٹھنے والے دھویں کی طرح ہے۔
بی بی سی کے سکیورٹی نامہ نگار فرینک گارڈنر کا کہنا ہے کہ افغانستان میں دولت اسلامیہ بم دھماکے کرنے کے لیے امونیم نائٹریٹ، جو دراصل کھاد ہے، استعمال کرنے کے لیے جانی جاتی ہے۔
یہ بھی پڑھیے
ان کے مطابق پلاسٹک ایکسپلوسیوز (پلاسٹکی دھماکہ خیز مواد) والے زیادہ طاقتور بم فوجی ذرائع سے ہی حاصل کیے جا سکتے ہیں۔ امونیم نائٹریٹ مخصوص حالات ہی میں پھٹتا ہے، مثلاً آگ کے ساتھ براہ راست رابطے میں آنے سے، چنگاری سے یا پھر درجۂ حرارت بہت زیادہ ہو جانے سے۔
گھروالے ڈرون حملے سے پہنچنے والا نقصان دیکھ رہے ہیں
پلاسٹک ایکسپلوسیوز بھی کسی دوسرے دھماکے کی زد میں آنے پھٹ سکتے ہیں، البتہ شعلے کی زد میں آنے سے ان کے پھٹنے کا زیادہ خطرہ نہیں ہوتا۔
ہم نے امریکی محکمۂ دفاع سے بھی وضاحت چاہی کہ ان کے خیال میں کار کے اندر کونسا دھماکہ خیز مواد تھا اور اس کا نشانہ کون تھا، مگر اب تک جواب نہیں ملا ہے۔
یکم ستمبر کو جؤنٹ چیفس آف سٹاف چیئرمین جنرل مارک مِیلی نے صحافیوں کو بتایا کہ تحقیقات جاری ہیں، اور یہ نتیجہ نکالنا ’معقول‘ ہے کہ اس کے بعد مزید دھماکے ہوئے تھے کیونکہ گاڑی کے اندر دھماکہ خیز مواد موجود تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ ہلاک ہونے والوں میں سے ’کم سے کم ایک‘ کا تعلق دولت اسلامیہ سے تھا۔
’اس حملے میں اور لوگ بھی ہلاک ہوئے۔ وہ کون تھے؟ ہم نہیں جانتے۔ ہم اس کی گہرائی میں جانے کی کوشش کریں گے ۔۔۔ مگر اس مرحلے پر ہم سمجھتے ہیں کہ تمام ضابطوں کی پابندی کی گئی ہے۔‘
Comments are closed.