کیا امریکی وزیرِ خزانہ کے بیجنگ کے دورے سے چین-امریکہ تعلقات میں بہتری آئی ہے؟
بیجنگ میں ملاقات کے دوران چین کے اقتاصادی امور کے انچارج مسٹر ہی لائفنگ امریکی وزیرِ خزانہ جینیٹ ییلن کا خیرمقدم کر رہے ہیں۔
- مصنف, روپرٹ ونگ فیلڈ-ہیز
- عہدہ, بی بی سی ایشیا کے نامہ نگار
امریکی وزیر خزانہ جینٹ ییلن نے حال ہی میں چین کا چار روزہ دورہ مکمل کیا ہے جس کا مقصد دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کو از سرِ نو استوار کرنا ہے۔
کیا ان کا بیجنگ کا یہ دورہ کامیاب رہا؟ ایک بہت ہی سادہ انداز میں کہا جا سکتا ہے کہ اس کا فائدہ ہوا ہے۔
امریکہ اور چین نے ایک بار پھر ایک دوسرے سے بالمشافہ ، شائستگی اور احترام سے بات کرنا شروع کردی ہے، اگرچہ اس میں گرمجوشی نظر نہیں آئی ہے۔
یہ ڈونالڈ ٹرمپ انتظامیہ کے دوران ٹرانس پیسیفک کمیونیکیشن کے بالکل برعکس ہے، جو بڑے پیمانے پر سوشل میڈیا کے پلیٹ فارمز پر ہوتی تھی جس میں حقیقی پیش رفت کی نسبت شور زیادہ سنائی دیتا تھا۔
اس مرتبہ دونوں طرف سے لہجہ اور بات چیت کا مواد زیادہ مثبت اور زیادہ جچا تُلا نظر آیا ہے۔
مِس ییلن کا دورہ امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن کے جون میں اعلیٰ سطح کے دورے کے بعد ہوا ہے، جس میں دونوں ممالک نے تعلقات کو مستحکم کرنے کا عہد کیا تھا۔
اتوار کو اپنے سفر کے اختتام پر مِس ییلن نے کہا کہ اس سے چین کی نئی اقتصادی ٹیم کے ساتھ رابطے کا ایک مضبوط اور نتیجہ خیز چینل بنانے میں مدد ملے گی۔ اور اِس کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا ہے۔
اس سال مارچ میں چین کی حکومت کے زیادہ تر اعلیٰ عہدے پر ایسے افراد کا تقرر کردیا گیا ہے جن کی بنیادی اہلیت اُن کی چینی صدر شی جن پنگ کے ساتھ وفاداری ہے۔
ان میں کلیدی عہدے یعنی اقتصادی امور کے انچارج، مسٹر ہی لائفنگ ہیں۔
ہفتہ کو جینیٹ ییلن نے دن کا زیادہ حصہ مسٹر ہی کے ساتھ گزارا۔ انہوں نے کہا کہ ان کی بات چیت ’براہ راست، ٹھوس اور نتیجہ خیز‘ رہی ہے، تاہم انھوں نے یہ تسلیم کیا کہ دونوں فریقین میں ’اہم اختلافات‘ تھے۔
اپنے پورے دورے کے دوران مِس ییلن نے اپنے چینی میزبانوں کو اس بات پر قائل کرنے کی کوشش کی کہ صدر جو بائیڈن کی حکومت میں امریکہ بنیادی طور پر چین کا مخالف نہیں سمجھا جاتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’ہم اپنے تعلقات کو زبردست طاقت کے تصادم کے لحاظ سے نہیں دیکھتے ہیں‘، اور ’ہم اپنی معیشتوں کو ایک دوسرے سے الگ کرنے کی کوشش نہیں کر رہے ہیں۔‘
اسے بھی پڑھیے:
ایسا لگتا ہے کہ بائیڈن انتظامیہ یہ ظاہر کرنے کی کوشش کر رہی ہے کہ اس کی چین پالیسی محض ٹرمپ انتظامیہ کی بیجنگ کے ساتھ کھلی دشمنی کا تسلسل نہیں ہے۔ لیکن کیا وہ اس مقصد کے حصول میں کامیاب ہوئی ہیں؟ ہم اس بارے میں اب بھی چین کا موقف جاننے کی کوشش کر رہے ہیں۔
لیکن جیسا کہ کہاوت ہے کسی کے اعمال کو سمجھنے کے لیے اُس کے بلند دعوؤں سے زیادہ اس کے عملی اقدامات کو دیکھنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اور بیجنگ کے نقطہ نظر سے بائیڈن انتظامیہ کے کچھ حالیہ اقدامات دوستانہ ہونے کے علاوہ کچھ اور ہیں۔
ان میں اہم امریکی مائیکرو چپس پر برآمدی کنٹرول کا نفاذ ہے جو آرٹیفیشل انٹیلیجنس کی صنعت میں استعمال ہوتے ہیں۔
جینیٹ ییلن نے بیجنگ میں امریکی سفارت خانے میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کیا تھا۔
ایسا لگ رہا ہے کہ حالات بہتر ہونا تو کُجا امریکہ اب چین پر دیگر ہائی ٹیک برآمدات پر پابندیوں کا دائرہ بڑھا رہا ہے، اور اس کے لیے وہ جاپان سے لے کر جرمنی، نیدرلینڈز تک اپنے اتحادیوں پر سخت دباؤ ڈال رہا ہے کہ وہ چین کو فائدہ اٹھانے کے ذرائع فراہم نہ کریں۔
امریکہ کا مقصد واضح اور سادہ ہے: وہ نہیں چاہتا کہ چین کو امریکی ٹیکنالوجیز تک آسان رسائی حاصل ہو جو اسے آرٹیفیشل انٹیلیجنس جیسی چیزوں میں برتری دے سکے، اور ایسی فوجی ٹیکنالوجیز میں چین کو فائدہ ہو جو ایک دن مستقبل کے تنازعہ میں امریکہ کے خلاف استعمال ہو سکتی ہیں، مثلاً تائیوان کے مسئلے پر کسی جنگ کی صورت میں۔
ان سب باتوں کا مطلب یہ ہے کہ جب بات چیت دوبارہ شروع ہوئی ہے، اور آنے والے مہینوں میں اس میں تیزی آتی نظر آرہی ہے، لیکن یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ ایسی سفارت کاری ایک نازک عمل ہے۔
پچھلے کچھ دنوں میں ہونے والی پیش رفت کو ایک اور ’جاسوس غبارے‘ جیسے واقعے، یا امریکی اور چینی بحری جہازوں یا ہوائی جہازوں کے درمیان تقریباً ٹکراؤ جیسے حادثات اِس پرامیدی کو دھندلا سکتے ہیں۔
یہاں تک کہ وہ ماہرین جو ہمیشہ انتہائی پرامید نظر آتے ہیں اُن کا بھی خیال ہے کہ یہ اب ایک بہت مشکل تعلق ہے جس کو برقرار رکھنے کے لیے دونوں طرف سے محتاط اور طویل مدتی انتظامات کرنے کی ضرورت ہوگی۔
Comments are closed.