بدھ14؍شوال المکرم 1442ھ26؍مئی 2021ء

کیا امریکہ اور چین، تائیوان تنازعے پر جنگ کی جانب بڑھ رہے ہیں؟

کیا امریکہ اور چین، تائیوان تنازعے پر جنگ کی جانب بڑھ رہے ہیں؟

  • ٹیسا وونگ
  • بی بی سی نیوز، ایشیا ڈیجیٹل رپورٹر

چینی وزیر دفاع نے تائیوان کے معاملے پر امریکہ کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے

،تصویر کا ذریعہReuters

،تصویر کا کیپشن

چینی وزیر دفاع نے تائیوان کے معاملے پر امریکہ کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے

امریکی صدر جو بائیڈن کی جانب سے تائیوان کے معاملے پر چین کو خبردار کرنے کے ہفتوں بعد، بیجنگ نے اب اس بارے میں سخت اور شدید ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ وہ تائیوان کی آزادی سے متعلق ’کسی بھی کوشش کو مکمل طور پر کچل دے گا۔‘

اتوار کو چین کے وزیر دفاع جنرل وئی فنگھے نے امریکہ پر تائیوان کی آزادی کی حمایت کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ ’وہ تائیوان کے معاملے میں اپنے وعدے کی خلاف ورزی‘ اور چین کے اندورنی معاملات میں ’مداخلت‘ کر رہا ہے۔

سنگاپور میں ہونے والے ایک دفاعی اجلاس شنگریلا ڈائیلاگ میں بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’میں یہ واضح کر دوں کہ اگر کسی نے تائیوان کو چین سے الگ کرنے کی کوشش کی تو ہم اس کے خلاف لڑائی سے نہیں ہچکچائے گے۔ ہم ہر قیمت پر اور آخری حد تک اس کے خلاف جنگ کریں گے اور چین کے پاس اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں۔‘

ان کا یہ بیان امریکی صدر جو بائیڈن کے حالیہ بیان کے بعد سامنے آیا ہے جس میں انھوں نے چین کو یہ پیغام دیا تھا کہ چین تائیوان کی سرحدی حدود کے قریب اپنے جنگی جہاز اڑا کر ’خطرے سے کھیل رہا ہے۔‘ انھوں نے اس عزم کو دہرایا تھا کہ اگر تائیوان پر حملہ کیا گیا تو وہ اس عسکری طور پر اس کا دفاع کریں گے۔

تائیوان جو خود کو ایک خودمختار اور آزاد ملک قرار دیتا ہے، پر چین بہت عرصے سے دعویدار ہے مگر تائیوان امریکہ کو اپنا سب سے بڑا اتحادی قرار دیتا ہے اور امریکہ میں ایک قانون موجود ہے جس کے تحت وہ اس جزیرہ نما ملک کے دفاع میں مدد دینے کا پابند ہے۔

امریکہ اور چین کے درمیان تائیوان کو لے کر روائتی بیان بازی میں حالیہ شدت اس وقت آئی جب چین نے تائیوان کی فضائی حدود میں اپنے جنگی جہاز بھیجنے میں اضافہ کیا اور گذشتہ ماہ ہی چین نے اپنے جنگی جہازوں کی ایک بڑی فارمیشن تائیوان کی فضائی حدود میں بھیجی جبکہ اس کے ردعمل میں امریکہ نے تائیوان کے پانیوں میں اپنے جنگی بحری جہاز اتار دیے ہیں۔

تو کیا اس تمام تر صورتحال میں چین اور امریکہ ایک عسکری تنازعے کی جانب بڑھ رہے ہیں؟

جو بائیڈن

،تصویر کا ذریعہEPA

دونوں ممالک کا خطرے کو سمجھنا

مواد پر جائیں

پوڈکاسٹ
ڈرامہ کوئین
ڈرامہ کوئین

’ڈرامہ کوئین‘ پوڈکاسٹ میں سنیے وہ باتیں جنہیں کسی کے ساتھ بانٹنے نہیں دیا جاتا

قسطیں

مواد پر جائیں

ایک بڑا خطرہ یہ ہے اگر چین تائیوان پر حملہ کر دے تو کہ اس وقت جنگ چھڑ سکتی ہے۔ بیجنگ نے ماضی میں یہ کہا تھا کہ اگر ضروری ہوا تو وہ طاقت کے استعمال سے اس جزیرہ کو دوبارہ حاصل کر سکتا ہے لیکن بہت سے تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ اس وقت ایسا کچھ نہیں ہونے جا رہا۔

اس بات پر بحث ہوتی رہی ہے کہ آیا چین کے پاس حملے کے صورت میں کامیاب ہونے کی فوجی صلاحیت موجود ہے،جبکہ تائیوان اپنے فضائی اور سمندری دفاع کو کافی حد تک بڑھا رہا ہے۔

لیکن بہت سے ماہرین اس بات پر اتفاق کرتے ہیں کہ چین کو اس بات کا ادراک ہے کہ ایسا کوئی بھی قدم نہ صرف اس کے لیے بلکہ باقی دنیا کے لیے بھی بہت تباہ کن اور مہنگا ثابت ہو گا۔

انسٹیٹیوٹ آف ساؤتھ ایسٹ ایشین سٹیڈیز کے سنیئر فیلو ولیم چونگ کہتے ہیں کہ ’دونوں ممالک کے درمیان بیان بازی تو بہت ہے لیکن اگر چین تائیوان پر حملہ کرنا چاہتا ہے، خاص طور پر ایک ایسے وقت پر جب پہلے ہی دنیا کو یوکرین بحران کا سامنا ہے تو چینیوں کو اس فرق کو بہت اچھی طرح ذہن میں رکھنا ہو گا کہ چین کی معیشت روس کے مقابلے میں عالمی معیشت سے کہیں زیادہ جڑی ہوئی ہے۔‘

چین کا تائیوان کے متعلق ایک مستقل مؤقف رہا ہے کہ وہ تائیوان کے ساتھ ’پرامن طریقے سے دوبارہ الحاق کرنا چاہتا ہے‘ اور ایسا ہی کچھ چینی وزیر دفاع جنرل وائی نے اتوار کو اپنے بیان میں کہا تھا اور ان کے بیان کے مطابق وہ صرف اس وقت ردعمل دیں گے اگر انھیں ایسا کرنے پر مجبور کیا گیا یا اکسایا گیا۔

تائیوان کی صدر

،تصویر کا ذریعہTAIWAN PRESIDENTIAL OFFICE

،تصویر کا کیپشن

تائیوان کی صدر ٹینک شکن راکٹ لانچر کے ساتھ تصویر بنواتے ہوئے

یہ بھی پڑھیے

چین کو اکسانے کی ایک ممکنہ وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ اگر تائیوان باضابطہ طور پر اپنی آزادی کا اعلان کر دے لیکن تائیوان کی صدر تاسائی ون نے ہمیشہ اس سے اجتناب کیا ہے۔ حتیٰ کہ وہ اس بات پر زور دیتی ہیں کہ تائیوان ایک خودمختار ملک ہے لیکن انھوں نے اس کی آزادی کا باضابطہ اعلان کبھی نہیں کیا۔

بیشتر تائیوانی شہری ملک کی ’موجودہ صورتحال کو برقرار‘ رکھنے کے مؤقف کی حمایت کرتے ہیں۔ البتہ تائیوان میں تیزی سے بڑھتی ہوئی ایک چھوٹی تعداد کے شہریوں کا کہنا ہے کہ ہمیں آزادی کی جانب بڑھنا چاہیے۔

اسی طرح امریکہ بھی ایشیا میں ایک مہنگے جنگی تنازعے میں خود کو پھنسانے سے گریزاں ہو گا اور اس نے متعدد بار یہ اشارہ دیا ہے کہ وہ جنگ نہیں چاہتا۔

امریکی سیکرٹری دفاع لوآیڈ آسٹن، جنھوں نے خود بھی سنگاپور میں ہونے والے دفاعی اجلاس شنگریلا ڈائیلاگ میں شرکت کی تھی، وہاں اپنی تقریر میں کہا تھا کہ امریکہ تائیوان کی آزادی کی حمایت نہیں کرتا اور نہ ہی وہ ’ایک نئی سرد جنگ‘ چاہتا ہے۔

ایس راجارتنم سکول آف انٹرنیشنل سٹیڈیز کے سنیئر فیلو کولن کوہ کہتے ہیں کہ ’دونوں ممالک اپنے اپنے مؤقف پر قائم ہیں انھیں سخت موقف اپنائے ہوئے نظر آنے کی ضرورت ہے، وہ دنیا کے سامنے اپنے موقف سے پیچھے ہٹنا نہیں چاہتے۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’لیکن اسی وقت میں وہ ایک صریح تنازعے میں داخل ہونے کے بارے میں بہت محتاط ہیں۔ وہ کھلی آنکھوں سے ایک دوسرے کی بیان بازی کو دیکھ رہے ہیں اور دونوں فریق خطرے کو کم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘

تجزیہ کار کولن کوہ کا کہنا ہے کہ ’شنگریلا ڈائیلاگ کے دوران چینی وزیر دفاع اور امریکی سیکرٹری دفاع کی ملاقات ایک مثبت پیشرفت ہے اور اس کا مطلب ہے کہ دونوں ممالک یہ دکھانا چاہتے ہیں کہ وہ اب بھی ایک ساتھ بیٹھ کر مذاکرات کرنے اور کسی متفقہ فیصلے پر پہنچے کے لیے تیار ہیں۔‘

US Defence Secretary Lloyd Austin (left) meets China's Wei Fenghe in Singapore, 10 Jun 22

،تصویر کا ذریعہEPA

،تصویر کا کیپشن

چین اور امریکہ کے دفاعی وزرا کی پہلی ملاقات جو تقریباً ایک گھنٹہ جاری رہی

ان کا کہنا تھا کہ یہ ملاقات ممکنہ طور پر دونوں ممالک کی فوج کے درمیان مزید آپریشنل بات چیت کا باعث بنے گی، جس سے زمینی حقائق پر غلطیوں کے امکان کو کم کیا جائے گا جو تنازعے کا باعث بن سکتی ہیں اور اس سے مجموعی طور پر دونوں ممالک میں ’بات چیت کی بحالی‘ ہو گی جو ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ کے دوران غائب تھی۔

اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے چین اور امریکہ دونوں سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ مستقبل قریب میں اپنی روائتی بیان بازی جاری رکھیں گے۔

سنگاپور کی نیشنل یونیورسٹی کے ڈاکٹر ایان چونگ کا کہنا ہے کہ ’چین تائیوان کی فضائی حدود میں مزید جنگی جہاز بھیج کر یا غلط معلومات پر مبنی مہمات شروع کر کے اپنی ’گرے زون فارفیئر‘ کو بڑھا سکتا ہے جسے تائیوان کی فوج کو تھکانے اور ان کا صبر ختم کرنے کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے۔

تائیوان نے اس سے قبل بھی چین پر ملک میں ہونے والے انتخابات سے متعلق غلط معلومات پر مبنی مہم چلانے کا الزام عائد کیا تھا۔

یاد رہے کہ تائیوان میں رواں برس کے آخر میں اہم بلدیاتی انتخابات ہونے جا رہے ہیں۔

ڈاکٹر چونگ کہتے ہیں کہ ’چین اور امریکہ میں کم ازکم اس وقت میں تائیوان پر اپنا مؤقف تبدیل کرنے کی کوئی سیاسی خواہش نہیں۔ جب رواں برس نومبر میں امریکہ میں وسط مدتی انتخاب ہونے جا رہا ہے اور چین کی کمیونسٹ پارٹی کا 20واں کانگرس اجلاس ہو گا جس میں چینی صدر شی پنگ سے اپنے اقتدار کو مزید مستحکم کرنے کی توقع ہے۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’لیکن اس کا ایک مثبت پہلو بھی ہے کہ دونوں ملکوں میں سے کوئی بھی اس معاملے کو مزید ہوا دینا نہیں چاہتا لیکن اس معاملے میں شدت نہ ہونے کا یہ مطلب نہیں کہ ہمیں کوئی بہتر صورتحال نظر آئے گی۔ فی الحال ہم سب اسی میں ہی پھنسے رہیں گے۔‘

BBCUrdu.com بشکریہ
You might also like

Comments are closed.