امریکا افغانستان سے 20 سالہ جنگ کے بعد واپس جا چکا۔ افغانستان میں نئی عبوری حکومت تشکیل پاچکی ہے، لیکن غیر یقینی صورتحال سے خطے میں بالخصوص اور پوری دنیا میں بالعموم تشویش پائی جاتی ہے۔
کیا امریکا افغانستان میں 20 سال میں کھربوں ڈالر خرچ کرنے اور ہزاروں افراد کی جان ضائع کرنے سے بچ سکتا تھا؟۔ اب اس سوال کا جواب سامنے آنے لگا ہے۔
نائن الیون کے بعد امریکا کے پاس افغانستان پر حملہ کرنے کے علاوہ بھی کوئی راستہ تھا؟۔ کیا امریکا اس لاحاصل جنگ سے بچ سکتا تھا؟، یہ وہ سوالات ہیں جن کا جواب اب سامنے آنے لگا ہے۔
سابق ڈی جی آئی ایس آئی اور چیئرمین جوائنٹس چیفس آف اسٹاف کمیٹی جنرل احسان الحق نے ایک عرب اخبار سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ امریکا پاکستان اور سعودی عرب کی بات سن لیتا تو 20 سال میں اتنے برے نقصان اور ہزیمت سے بچ سکتا تھا۔
جنرل احسان نے عرب اخبار کو بتایا کہ افغانستان پر امریکی حملے کے کچھ عرصے بعد وہ ایک خفیہ مشن پر امریکا گئے اور اعلیٰ امریکی حکام کو افغان مسئلے کو مذاکرات سے حل کرنے کا مشورہ دیا اور کہا ان طالبان کے ساتھ تعاون کیا جائے جو نائن الیون کے حملوں کے ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کے لیے تیار ہوں۔
جنرل احسان نے کہا کہ یہ پاکستان اور سعودی عرب کی مشترکہ کاوش تھی، برطانیہ کے وزیر اعظم ٹونی بلیئر نے بھی اس تجویز کی حمایت کی، لیکن ٹونی بلیئر نے بعد میں بتایا کہ امریکی بضد ہیں کہ طالبان غیر مشروط ہتھیار ڈالیں یا انہیں مکمل طور پر تباہ کر دیا جائے گا۔
جنرل احسان نے کہا کہ یہ ایک بہتر حل نکالنے کا موقع تھا جسے ضائع کر دیا گیا۔ پاکستان نے تجویز کیا تھا کہ افغانستان میں اقوام متحدہ کے تحت ایک وسیع الخیال حکومت بنائی جائے جو مسائل کو حل کرے، لیکن ایسا نہ ہو پایا۔
امریکا میں پاکستان کی سابق سفیر اور اقوام متحدہ میں پاکستان کی سابق مستقل مندوب ملیحہ لودھی نے دی اکانومسٹ میں لکھے گئے مضمون میں کہا ہے کہ پاکستان نے نائن الیون کے بعد امریکا کو افغانستان پر حملے سے باز رہنے کا مشورہ دیا تھا اور کہا تھا کہ نائن الیون کے ذمہ داروں کے خلاف ٹارگیٹڈ کارروائیاں کی جائیں۔
ملیحہ لودھی نے لکھا کہ پاکستان نے متنبہ کیا تھا کہ ملٹری آپریشن کا فائدہ نہیں ہوگا۔ امریکا کو القائدہ اور طالبان میں فرق کرنا چاہیے۔ طالبان کے ساتھ مذاکرات کی ضرورت ہے۔ 20 سال بعد امریکا افغانستان سے نکل گیا ہے اور امریکا نے یہ سبق بہت مشکلات کاٹ کر سیکھا ہے۔ اب بھی امریکا کو طالبان کے ساتھ مذاکرات ہی کرنا پڑے ہیں۔
ملیحہ لودھی نے کہا کہ افغانستان میں امریکا کی دائمی جنگ کے پاکستان کے ساتھ تعلقات پر بھی منفی اثرات پڑے ہیں، امریکا پاکستان پر ڈو مور کے لیے زور ڈالتا رہا اور بھول گیا کہ افغانستان میں حالات کا اثر پاکستان پر بھی پڑتا ہے۔ اوباما کے دور میں جب امریکا نے مذاکرات اور جنگ کی پالیسی اپنائی اس وقت بھی پاکستان نے مذاکرات سے جنگ ختم کرنے کا مشورہ دیا لیکن امریکا نے تب بھی پاکستان کی بات نہیں مانی اور پاکستان پر الزام تراشیاں جاری رکھیں۔ لیکن پاکستان کے پاس طالبان کے ساتھ روابط کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں تھا۔ انہی تعلقات کی وجہ سے پاکستان طالبان کو امریکا کے ساتھ مذاکرات کی میز پر لایا اور 20 سال بعد امریکا افغانستان سے نکل گیا۔
Comments are closed.