دوسری جانب حماس نے ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ ’اسرائیلی کارروائیوں کے خاتمے کا مطالبہ صرف رفح کے لیے ہی نہیں بلکہ پورے غزہ کے لیے ہونا چاہیے۔‘،تصویر کا ذریعہGetty Images
عالمی عدالتِ انصاف کے موجودہ صدر جج نواف سلام نے اسرائیل کے خلاف جنوبی افریقہ کی جانب سے جمع کروائی جانے والی درخواست پر سماعت کی۔عالمی عدالتِ انصاف میں دورانِ سماعت جج سلام نے غزہ میں حماس کے زیرِ حراست اسرائیلی یرغمالیوں کی صورتحال کے بارے میں بھی بات کی۔ اُن کا کہنا تھا کہ ’عدالت کو اسرائیلی یرغمالیوں کی رہائی اور اُن کی حفاظت پر گہری تشویش ہے اور عدالت ان کی فوری اور غیر مشروط رہائی کا مطالبہ کرتی ہے۔‘عالمی عدالتِ انصاف کے جج کا کہنا تھا کہ ’ہمیں یہ بہت پریشان کن لگتا ہے کہ بہت سے لوگ اب بھی قید میں ہیں۔‘
رفح کی سٹریٹجک اہمیت کیا ہے؟
یہ غزہ کی جنگ کا آخری محاذ ہے۔ اسرائیلی فوج کی جانب سے رفح میں ابھی تک ایک بہت ہی محدود اور محتاط آپریشن ہے اور تاحال رفح کراسنگ پر انتہائی بڑے پیمانے پر ہونے والا وہ زمینی حملہ نہیں جس کے بارے میں عالمی طاقتوں نے متنبہ کیا ہوا ہے۔فلسطینی شہر رفح اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ کے آغاز سے ہی شہری آبادی کے لیے ایک پناہ گاہ اور انسانی امداد کے لیے داخلے کا مرکز رہا ہے۔غزہ کی پٹی کے جنوبی حصے میں واقع تقریباً 55 مربع کلومیٹر کے رقبے پر محیط یہ علاقہ غزہ تک آخری رسائی کی نمائندگی سمجھا جاتا ہے اور اسرائیل کا کنٹرول نہ ہونے کے باعث یہ کئی دہائیوں سے بیمار افراد تک امداد اور مسافروں کی آمدورفت کے لیے ایک راستہ رہا ہے۔رفح موجودہ جنگ کے آغاز کے بعد 10 لاکھ سے زائد ان فلسطینیوں کی آخری پناہ گاہ بن گیا تھا جو اسرائیلی فوج کی بمباری اور زمینی حملے کی وجہ سے بے گھر ہوئے ہیں۔موجودہ جنگ کا آغاز سات اکتوبر کو حماس کی طرف سے اسرائیل کے خلاف شروع کیے گئے اچانک حملے سے ہوا جس میں اسرائیل کے دعوے کے مطابق تقریبا 1,200 اسرائیلی شہری ہلاک اور تقریباً 240 یرغمال بنا لیے گئے۔غزہ کی پٹی پر اسرائیل کے جوابی حملے کے باعث بڑے پیمانے پر نقل مکانی نے رفح کی آبادی دو لاکھ 80 ہزار سے بڑھا کر تقریباً 14 لاکھ افراد تک پہنچا دی اور یہی وجہ ہے کہ اسے ناروے کی پناہ گزینوں کی کونسل کے سربراہ، جان ایجلینڈ نے ’بے گھر ہونے والوں کا دنیا کا سب سے بڑا کیمپ‘ قرار دیا ہے۔تاہم جنگ سے پناہ لینے والوں کے لیے اس قصبے کی حیثیت پر اس وقت سوال اٹھنا شروع ہو گئے جب اسرائیل نے یہاں ایک آپریشن شروع کر دیا جس میں حماس کی جانب سے بنائے گئے دو اسرائیلی یرغمالیوں کو بازیاب کروا لیا گیا جبکہ ان حملوں میں درجنوں فلسطینی مارے گئے۔اس وقت اسرائیلی وزیر اعظم نتن یاہو نے اسرائیلی فوج کو حکم دیا تھا کہ وہ رفح سے شہریوں کے انخلا کے لیے تیار رہیں، تاکہ وہاں ایک بڑا آپریشن شروع کیا جا سکے۔اس اعلان نے خطرے کی گھنٹی بجا دی اور اسرائیل کے منصوبے کے خلاف تنقید اور مخالفت کی آوازیں بلند ہونا شروع ہوا۔ اس بات کا خدشہ موجود تھا کہ اسرائیل کی کوئی کارروائی ’انسانی بحران اور تباہی‘ کا باعث بنے گی۔یہ خدشات اس وقت مزید جڑ پکڑ گئے جب آئی ڈی ایف نے رفح میں تقریباً ایک لاکھ افراد کو شہر کے مشرق میں ایک علاقہ خالی کرنے اور خان یونس اور المواسی کی طرف جانے کی ہدایات کے ساتھ کتابچے بھی تقسیم کرنا شروع کر دیے۔اس کے کچھ گھنٹوں بعد اسرائیلی فوج نے اس شہر کے ایک علاقے پر حملوں کا سلسلہ شروع کر دیا جسے اس نے ’محدود آپریشن‘ کے طور پر پیش کیا اور اگلے ہی روز رفح اور مصر کے درمیان کراسنگ کا کنٹرول سنبھال لیا۔
BBCUrdu.com بشکریہ
body a {display:none;}
Comments are closed.