کیا اسرائیلی حملے میں رفح کے ’سیف زون‘ کو نشانہ بنایا گیا؟،تصویر کا ذریعہGetty Images
،تصویر کا کیپشنغزہ کے علاقے دیر البلاح میں فلسطینی پناہ گزین تباہ شدہ عمارتوں کے ملبے کے درمیان زندگی گزارنے پر مجبور ہیں

  • مصنف, احمد نور، عبدالرحیم سعید، شیرین شریف
  • عہدہ, بی بی سی نیوز عربی
  • 2 گھنٹے قبل

غزہ میں حماس کے زیرانتظام وزارت صحت کا کہنا ہے کہ 26 مئی کو جنوبی غزہ کے شہر رفح میں بے گھر فلسطینیوں کے کیمپ پر اسرائیلی فضائی حملے میں کم از کم 45 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ ہلاک ہونے والوں میں بیشتر خواتین اور بچے تھے۔فلسطینیوں اور کئی امدادی تنظیموں کا کہنا ہے کہ جس علاقے کو نشانہ بنایا گیا، اسے ’سیف زون‘ تصور کیا جاتا تھا تاہم اسرائیل ڈیفنس فورسز (آئی ڈی ایف) اس بات کی تردید کرتی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کی جانب سے حماس کے دو سینیئر رہنماؤں کو نشانہ بنانے کے لیے ایک ایسے مقام کا انتخاب کیا گیا تھا جو عام شہریوں کے لیے قائم ’انسانی ہمدردی کے زون‘ سے باہر واقع ہے۔بین الاقوامی برادری کی جانب سے بڑھتی مذمت کے بعد اسرائیلی وزیر اعظم بنیامن نتن یاہو نے حملے میں شہریوں کی ہلاکتوں کو ’افسوسناک حادثہ‘ قرار دیا۔

26 مئی کے حملے میں کیا ہوا تھا؟

بی بی سی نے ویڈیو فوٹیج، تصاویر اور دیگر شواہد بشمول عینی شاہدین کے بیانات کو استعمال کرتے ہوئے یہ جاننے کی کوشش کی کہ اس جان لیوا دھماکے میں ہوا کیا تھا۔رفح میں کیمپ پر آئی ڈی ایف کے حملے کی کچھ ویڈیوز پہلی بار 26 مئی کو مقامی وقت کے مطابق رات دس بجے (19:00 GMT) سوشل میڈیا پر شیئر ہوئیں۔ابتدائی فوٹیج میں دیکھا جا سکتا ہے کہ حملے کے بعد عارضی کیمپ میں آگ بھرک اٹھی جبکہ سائرن اور چیخ و پکار کی آوازیں بھی سنی جاسکتی ہیں۔ان خوفناک ویڈیوز میں لوگوں کو جلی ہوئی لاشیں اور ایک چھوٹے بچے کے بنا سر کے دھڑ کو نکالتے ہوئے بھی دیکھا جا سکتا ہے۔

،تصویر کا کیپشنکیمپ فلسطینی پناہ گزینوں کے لیے اقوام متحدہ کی ایجنسی کے تل السلطان کے علاقے میں واقع لاجسٹک سینٹر کے قریب موجود تھا
شیئر کی گئی ویڈیوز میں ایک سائن بورڈ واضح ہے جس پر ’کویتی سلام (پیس) کیمپ 1‘ لکھا نظر آرہا ہے جس سے اس کے محل وقوع کی تصدیق ہوتی ہے۔سوشل میڈیا پر شیئر کی جانے والی پوسٹز کے مطابق کیمپ تل السلطان کے علاقے میں واقع فلسطینی پناہ گزینوں کے لیے اقوام متحدہ کی ایجنسی (UNRWA) کے لاجسٹک سینٹر کے قریب موجود تھا۔سٹلائیٹ تصاویر سے ظاہر ہوتا ہے کہ کیمپ اور لاجسٹک سینٹر کے درمیان فاصلہ محض 200 میٹر تھا۔

کیمپ کا محلِ وقوع

28 مئی کو آئی ڈی ایف نے ایک نقشہ جاری کیا، جس میں حملے کے مقام کی تصدیق کی گئی۔ یہ وہی مقام ہے جس کی ابتدائی طور پر بی بی سی نے تصدیق کی تھی۔27 مئی کی سیٹلائٹ تصویر میں اس ہی مقام پر پانچ عمارتوں کو پہنچنے والے نقصان کو دیکھا جا سکتا ہے۔آئی ڈی ایف حکام کا کہنا ہے کہ انھوں نے ’صحیح جنگی سازوسامان‘ کا استعمال کرتے ہوئے حماس کے دو سینیئر کمانڈروں کو نشانہ بنایا۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ اس حملے میں عام شہریوں کی ہلاکت کی تحقیقات کر رہے ہیں۔اسرائیل کا کہنا ہے کہ ان کے خیال میں خیموں میں آگ نزدیک موجود حماس کے ہتھیاروں کے ذخیرے میں ہونے والے دھماکوں کی وجہ سے لگی۔بی بی سی اس دعوے کی آزادانہ طور پر تصدیق نہیں کر سکا۔

یہ بھی پڑھیے

،تصویر کا کیپشنسٹیلائیٹ تصاویرمیں تباہ شدہ کیمپ دیکھا جا سکتا ہے

’سیف زون‘

اس حملے کے بعد کیمپ جہاں واقع ہے اس علاقے کی حیثیت کے بارے میں ایک تنازعہ سامنے آیا۔فلسطینیوں اور متعدد بین الاقوامی امدادی اداروں کا اصرار ہے کہ اس علاقے کو اسرائیلی فوج نے ’سیف زون‘ قرار دیا ہوا ہے تاہم آئی ڈی ایف اس سے انکاری ہے۔یہاں بظاہر ’سیف زون‘ سے مراد جنوبی غزہ میں آئی ڈی ایف کی جانب سے نامزد کردہ ’انسانی ہمدردی کا زون‘ ہے۔یہ زون بحیرہ روم کے ساحل کے ساتھ شمال کی جانب زرعی زمین کی ایک تنگ پٹی المواسی سے خان یونس شہر اور دیر البلاح کے مرکزی قصبے تک پھیلا ہوا ہے۔آئی ڈی ایف گزشتہ اکتوبر سے شہریوں کو اس علاقے کی جانب نقل مکانی کی ہدایت کرتا آیا ہے۔مئی کے اوائل میں رفح میں زمینی آپریشن کے آغاز سے پہلے بھی آئی ڈی ایف نے مشرقی رفح کے لوگوں کو اس ’انسانی ہمدردی کے زون‘ کی جانب نقل مکانی کی ہدایت کی تھی۔آئی ڈی ایف انخلا کے انتباہی پیغامات اور انسانی ہمدردی کے زون کے اعلانات کے لیے غزہ کا ایک نقشہ استعمال کر رہا ہے جس میں علاقوں کو نمبر دے کر مختلف بلاکس میں تقسیم کیا گیا ہے۔22 مئی کو آئی ڈی ایف کے ایک ترجمان نے ایکس پر ایک پوسٹ میں کہا تھا کہ نامزد ’انسانی ہمدردی کے زون‘ کو پھیلا کر خان ​​یونس کے جنوب میں واقع بلاکس 2360، 2371 اور 2373 کو شامل کر دیا گیا۔بی بی سی کی جانب سے اسرائیلی حملے میں نشانہ بننے والے کیمپوں کا جغرافیائی محل وقوع پتا لگانے پر معلوم ہوا کہ وہ بلاک 2372 میں واقع تھے۔ یہ جگہ آئی ڈی ایف کی جانب سے نامزد کردہ سیف زون سے باہر لیکن اس کے نزدیک واقع ہے۔

’غزہ کی پٹی میں کوئی جگہ سیف زون نہیں‘

میڈیا سے بات کرتے ہوئے کچھ فلسطینیوں کا کہنا تھا کہ ان کا خیال میں جس علاقے میں خیمے لگے تھے وہ ’سیف زون‘ میں آتے تھے۔حملے کے ایک عینی شاہد جمال العطار نے بی بی سی کو بتایا کہ اسرائیلی فورسز نے ہمیں بتایا تھا کہ یہ علاقہ محفوظ ہے اور ہم یہاں رہ سکتے ہیں کیونکہ یہ سیف زون میں آتا ہے لیکن غزہ کی پٹی میں کوئی جگہ سیف زون نہیں۔‘ان کا مزید کہنا تھا کہ ’انھوں نے ہمارے بچوں کو قتل کیا اور ہماری خواتین اور بزرگوں کو اس نام نہاد ’سیف زون‘ کے اندر جلا دیا۔‘بی بی سی کے ایک حالیہ تجزیے سے معلوم ہوا تھا کہ آئی ڈی ایف کی طرف سے جاری کردہ انخلا کے سابقہ اعلانات میں غلطیاں تھیں۔اسرائیلی فوج اس دعوے کو مسترد کرتی ہے کہ ان کے سابقہ ​​انتباہات مبہم تھے یا ان میں تضاد تھا۔کیمپ کا علاقہ آئی ڈی ایف کی جانب کے اعلان کردہ ’انسانی ہمدردی کے زون‘ کے نزدیک واقع تھا۔سیٹلائٹ سے لی گئی تصاویرسے بھی ظاہر ہوتا ہے کہ اس علاقے میں بڑی تعداد میں خیمے اور مہاجرین آباد تھے۔اسرائیلی فوج کی جانب سے انخلا کی وارننگ جاری کیے جانے کے بعد رفح کے مشرقی علاقوں سے بہت سے فلسطینی نقل مکانی کر گئے ہیں۔فلسطینی پناہ گزینوں کے لیے اقوام متحدہ کی ایجنسی (UNRWA) سے تعلق رکھنے والے ایک میڈیا اہلکار عدنان ابو حسنہ نے بی بی سی عربی کو بتایا کہ لوگ ان مقامات کے قریب خود کو محفوظ محسوس کرتے ہیں جہاں اقوام متحدہ کام کر رہی ہے۔کیمپ میں موجود عام شہری اکثر علاقے کو اس لیے بھی محفوظ تصور کر لیتے ہیں کیونکہ انھیں آئی ڈی ایف کی جانب سے انخلا کی کوئی ہدایات موصول نہیں ہوئی ہوتی۔6 مئی کو جب اسرائیل نے رفح کے مشرقی علاقوں میں ’ٹارگٹڈ‘ زمینی آپریشن شروع کیا تو اس سے قبل تقریباً 15 لاکھ پناہ گزین رفح میں موجود تھے۔آئی ڈی ایف کا کہنا ہے کہ انھیں لڑائی کے دوران غیر متعلقہ شہریوں کو پہنچنے والے نقصان پر افسوس ہے۔اسرائیلی حملے سے چند گھنٹے قبل حماس نے رفح سے تل ابیب کی طرف آٹھ راکٹ فائر کیے تھے۔ یہ جنوری کے بعد پہلا موقع تھا کہ اسرائیلی شہر پر طویل فاصلے تک مار کرنے والے میزائلوں سے حملہ کیا گیا تھا۔اقوام متحدہ کا تخمینہ ہے کہ تین ہفتے قبل اسرائیلی زمینی آپریشن کے آغاز سے اب تک آٹھ لاکھ سے زائد فلسطینی آئی ڈی ایف کی جانب سے انخلا کے احکامات کے جواب میں سیف زون کی جانب نقل مکانی کر چکے ہیں۔ایڈیشنل رپورٹنگ: پال کیوسیاک، لمیس الطالبی
BBCUrdu.com بشکریہ

body a {display:none;}