کیا آرکٹک دنیا کے طاقتور ملکوں کے لیے جنگ کا نیا محاذ بن رہا ہے؟
،تصویر کا ذریعہGetty Images
سوالبارڈ کے قریب ایک کان کے قریب غروب آفتاب کا منظر
آرکٹک کئی نسلوں سے دنیا کے لیے سائنسی تحقیق اور پر امن ماحول کا نمونہ رہا ہے۔ لیکن اب صورتحال بدل رہی ہے۔
یوکرین پر روسی حملے کی گرمی اب دنیا کے شمالی علاقے میں محسوس کی جا رہی ہے۔ تین براعظموں پر پھیلے اس وسیع علاقے میں آٹھ ممالک اور قطب شمالی شامل ہیں۔
آرکٹک میں روس کے ساتھ تعاون کو اب پس پشت ڈال دیا گیا ہے۔ یوکرین کی جنگ میں روسی صدر پوتن نئے اتحادیوں کی تلاش میں ہیں اور چین ان کے ساتھ کھڑا نظر آتا ہے۔
جنگ اور پگھلنے والی برف کی وجہ سے عالمی سیاست میں کشیدگی بڑھ رہی ہے۔ اس کی وجہ سے آرکٹک کی برف کے نیچے دبے ہوئے معدنیات اور تیل کے ذخائر پر قبضہ کرنے اور وہاں سے نئے سمندری راستے بنانے کے لیے ایک قسم کا مقابلہ شروع ہو گیا ہے۔
کیا آرکٹک تنازعات کے حصار میں ہے؟
اس کہانی کا آغاز ہم دنیا کی سب سے شمالی بستی سوالبارڈ سے کر رہے ہیں۔ اوسلو کے فرتزوف نینسنس انسٹی ٹیوٹ کے پروفیسر اور سینیئر محقق آندرے اوستھاگن کہتے ہیں کہ یہ جگہ جتنی پرکشش ہے اتنی ہی مشکل بھی ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ ’سوالبارڈ جزائر پر تقریباً ڈھائی ہزار لوگ رہتے ہیں جن کی آبادی قطبی ریچھوں سے کم ہی ہے۔ یہاں صرف ایک ہوائی اڈہ ہے۔ باہر نکلتے وقت لوگوں کو بندوقیں ساتھ لے کر چلنی پڑتی ہیں۔ موسم گرما میں درجہ حرارت چار سے پانچ ڈگری سینٹی گریڈ تک رہتا ہے اور دن بھر روشنی رہتی ہے۔ پہاڑوں پر برف اور ہموار علاقوں میں کیچڑ ہوتی ہے۔ جیسے جیسے اکتوبر قریب آتا ہے، درجہ حرارت انتہائی سرد ہو جاتا ہے اور ہر طرف برف کی چادر بچھ جاتی ہے۔‘
سوالبارڈ یورپ اور قطب شمالی کے درمیان واقع ایک اہم علاقہ ہے۔ آندرے اوستھاگن کہتے ہیں کہ لوگوں کو یہ غلط فہمی ہے کہ آرکٹک صرف پگھلتی برف والا علاقہ ہے۔ اگر آپ نقشے کو دیکھیں تو یہ واضح ہو جاتا ہے کہ آرکٹک سرکل کے شمال میں پورا علاقہ آرکٹک ہے۔ اس خطے میں امریکہ اور روس سمیت آٹھ ممالک آتے ہیں۔ اس کا ایک بڑا حصہ برف سے ڈھکا ہوا سمندر ہے۔
سوالبارڈ کو ایک خاص سیاسی حیثیت حاصل ہے۔ کئی ممالک کے شہری یہاں رہ سکتے ہیں۔ ہنگامی صورتحال کے مدنظر دنیا بھر سے کئی فصلوں کے بیج یہاں محفوظ کیے جاتے ہیں۔
ایک طویل عرصے تک کسی ایک ملک کو سوالبارڈ پر اختیار نہیں تھا۔ لیکن 1920 میں سوالبارڈ معاہدے کے تحت یہ علاقہ ناروے کے حوالے کر دیا گیا۔
،تصویر کا ذریعہGetty Images
لیکن معاہدے میں شامل تمام ممالک کو اس کے اقتصادی وسائل میں برابر کا حصہ دیا گیا ہے تاہم یہ شرط بھی رکھی گئی کہ اسے جنگ جیسی سرگرمیوں کے لیے استعمال نہیں کیا جائے گا۔ نئے ممالک اس معاہدے میں شامل ہو رہے ہیں۔ ترکی نے گذشتہ سال ہی اس معاہدے پر دستخط کیا تھا۔
آندرے اوستھاگن نے بی بی سی کو بتایا: ’اب تک 46 ممالک اس معاہدے پر دستخط کر چکے ہیں۔ ان ممالک کے شہری اس جزیرے پر کام کر سکتے ہیں۔ اس علاقے کو سیاحت اور سائنسی تحقیق کے لیے استعمال کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ لیکن سنہ 2022 میں یوکرین پر روس کے حملے کے بعد خدشہ ہے کہ روس اس علاقے پر ناروے کی خودمختاری کو چیلنج کرنے کے لیے بھی استعمال کر سکتا ہے۔ اس خوف کی وجہ سے تناؤ بڑھ گیا ہے۔‘
روسی حملے کے بعد آرکٹک ممالک کی تنظیم آرکٹک کونسل نے روس سے تعلقات ختم کر دیے ہیں۔ آٹھ ممالک کی یہ تنظیم 1946 میں قائم ہوئی اور اسے علاقائی تعاون کی ایک اچھی مثال کے طور پر دیکھا گیا۔
آندرے اوستھاگن نے کہا کہ ’یہاں رہنے والے بہت سے لوگوں کے رشتے دار سرحد پار روس میں رہتے ہیں۔ لہٰذا روس کے ساتھ تعلقات میں کشیدگی نے اس تانے بانے کو نقصان پہنچایا ہے جس سے اقتصادی سرگرمیوں اور سائنسی تحقیقی کاموں میں باہمی تعاون متاثر ہوا ہے۔ آرکٹک کا ایک حصہ روس میں ہے۔ وہاں ہونے والے کاربن کے اخراج سے متعلق ڈیٹا اور آرکٹک پر اثرات بھی ماحولیاتی تبدیلی سے متعلق تحقیق میں ضروری ہیں۔‘
باہمی تعاون کی ضرورت اب پہلے سے کہیں زیادہ ہے کیونکہ ماہرین کے خیال میں آرکٹک کے خطے میں دوسرے خطوں کے مقابلے میں آب و ہوا کی تبدیلی زیادہ تیزی سے ہو رہی ہے۔
آندرے اوستھاگن نے کہا کہ ’مثال کے طور پر، سوالبارڈ میں درجہ حرارت بہت تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ سمندر کی برف جس رفتار سے پگھل رہی ہے وہ سب کے سامنے ہے۔ ایک اندازے کے مطابق 2050 یا 2060 تک موسم گرما کی برف آرکٹک کے علاقے سے مکمل طور پر ختم ہو جائے گی۔ فی الحال روس اور دیگر ممالک کے درمیان مذاکرات نہیں ہو رہے۔ ابھی تمام تر توجہ فوجی کشیدگی پر مرکوز ہے۔‘
،تصویر کا ذریعہGetty Images
روسی صدر ولادیمیر پوتن
روس الگ تھلگ ہو گیا ہے
سوالبارڈ آرکٹک خطے کا ایک چھوٹا سا حصہ ہے اور روس آرکٹک خطے کا ایک اہم ملک ہے کیونکہ آرکٹک خطے میں تقریباً نصف ساحلی پٹی روس میں ہے۔ پہلے روس کے دیگر آرکٹک ممالک کے ساتھ تعلقات تعاون پر مبنی تھے جو اب مسابقت اور دشمنی میں بدل چکے ہیں۔
سویڈن کی اپسالا یونیورسٹی میں رشین سٹڈیز کے پروفیسر سٹیفن ہیڈلنڈ کا کہنا ہے کہ روسی اور مغربی یونیورسٹیوں کے درمیان رابطہ منقطع ہوگیا ہے۔
فروری 2022 میں یوکرین پر روس کے حملے کے بعد یورپی یونیورسٹیوں نے روسی یونیورسٹیوں کے ساتھ تمام تبادلے اور تعاون کو ختم کر دیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اب ہم روس میں اپنے سابق اتحادیوں کے ساتھ مل کر کوئی کام نہیں کر سکتے۔ اس کا طویل مدت میں روس پر بہت برا اثر پڑے گا۔‘
لیکن اس سے موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات پر نظر رکھنے کی کوششوں پر کیا اثر پڑے گا؟
سٹیفن ہیڈلنڈ کا کہنا ہے کہ اس کا ’نتیجہ یہ ہوگا کہ ہمیں روس سے ضروری معلومات اور ڈیٹا نہیں ملے گا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اب ہم یہ نہیں جان سکیں گے کہ روس کے زیر کنٹرول علاقے آرکٹک میں موسمیاتی تبدیلیوں کی کیا صورتحال ہے۔ یہ ایک بڑا مسئلہ ہے کیونکہ جب روس میں پرما فراسٹ (مستقل طور پر منجمد برف) پگھلتی ہے تو میتھین گیس کی ایک بڑی مقدار ہوا میں تحلیل ہو جاتی ہے۔ موسمیاتی تبدیلی کے نقطہ نظر سے اس کے بارے میں معلومات حاصل کرنا اور اس پر نظر رکھنا بہت ضروری ہے لیکن ایسا لگتا ہے کہ ایسا نہیں ہو پائے گا۔‘
روس نے علاقائی تعاون کے لیے بنائی گئی بیرینٹس یورو آرکٹک کونسل کو چھوڑ دیا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق دنیا کے تیل اور گیس کے کل ذخائر کا ایک چوتھائی سمندر کے نیچے ہے۔ اس کے پیش نظر یہ تنازعہ پیدا ہو سکتا ہے کہ کون سا علاقہ اس کے استحصال کے لیے کس کے کنٹرول میں ہے۔
مثال کے طور پر سنہ 2007 میں ایک روسی مہم نے برفیلے سمندر میں دو میل گہرائی میں جا کر ٹائٹینیم سے بنا روسی جھنڈا لگا دیا تھا۔ اس کے بعد ان کے اس دعوے کو چیلنج کیا گیا تھا۔ لیکن قانونی طور پر دیگر ممالک کی طرح روس بھی ساحل سے دو سو میل کے فاصلے تک سمندری وسائل کو استعمال کر سکتا ہے۔
،تصویر کا ذریعہGetty Images
شمالی سمندری راستہ روس کی معیشت اور سلامتی کے لیے اہم ہے کیونکہ یہ آرکٹک سمندر کے مشرقی اور مغربی حصوں کو ملاتا ہے۔ اس لیے روس اس راستے کو تیار کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔
لیکن سٹیفن ہیڈلنڈ کا کہنا ہے کہ اس کی ایک وجہ چین ہے کیونکہ چین کے لیے یہ بحر ہند اور نہر سوئز کے راستے یورپ پہنچنے کے مقابلے میں چھوٹا راستہ ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جہاز کے ذریعے سامان کو یورپ پہنچانے میں دو ہفتے کم لگیں گے۔
سٹیفن ہیڈلنڈ کے مطابق یہ راستہ چین کے لیے اہم ہے کیونکہ امریکہ کے ساتھ تنازعے کی صورت میں امریکہ جنوبی راستے کی ناکہ بندی کر سکتا ہے۔ ایسے میں شمالی سمندری راستہ چین کے لیے ایک اور آپشن ہو سکتا ہے۔
یہ بھی پڑھیے
لیکن روس کی طرف سے کریمیا کے الحاق اور بعد یوکرین پر حملے کے جواب میں مغربی ممالک کی طرف سے عائد پابندیوں کی وجہ سے روس کی جانب سے اس راستے کو تیار کرنے کا عمل سست پڑ گیا ہے۔
سٹیفن ہیڈلنڈ کہتے ہیں کہ ’انھوں نے اس علاقے سے ہائیڈرو کاربن نکالنے کا موقع گنوا دیا ہے کیونکہ اب اس کام کے لیے کوئی مغربی کمپنی ان کی مدد نہیں کرے گی۔ میرے خیال میں یہ سمندری راستہ ان کے ہاتھ سے نکل گیا ہے۔ مجھے نہیں لگتا کہ کوئی بھی کارگو کمپنی اپنے جہاز روسی راستے سے بھیجے گی۔‘
مغربی ممالک کی اس کارروائی کی وجہ سے روس کو نئے اتحادیوں کی ضرورت ہے اور چین اس کے لیے تیار نظر آتا ہے۔
،تصویر کا ذریعہGetty Images
چینی صدر شی جنپنگ
قطبی شاہراہ ریشم
چین کے آرکٹک خطے میں بہت سے مفادات ہیں۔ سنٹر فار سٹریٹیجک اینڈ انٹرنیشنل سٹڈیز کے سینیئر محقق میتھیو فنوئیول کا خیال ہے کہ چین قطبی خطے میں اثر و رسوخ بڑھانا چاہتا ہے اور اس کے چار مقاصد ہیں۔
’پہلا مقصد اس علاقے میں کاروباری سرگرمیوں کو فروغ دینے میں اپنی موجودگی کو قائم کرنا ہے۔ دوسرے یہ کہ اس کے سٹریٹجک مفادات بھی خطے سے جڑے ہوئے ہیں۔ چین اس خطے کو بہتر طور پر سمجھنا چاہتا ہے۔ اسی لیے وہ سائنسی تحقیق کے لیے بہت سے مشن آرکٹک بھیج رہا ہے۔ یہ آرکٹک کی انتظامیہ میں بھی اپنا کردار چاہتا ہے اور بالآخر اس خطے میں ایک بڑی طاقت بننا چاہتا ہے۔‘
2018 میں چین نے ایک عجیب کام کیا۔ اس نے خود کو آرکٹک کے قریب کا ایک ملک قرار دیا اور شمالی سمندری راستے کو ترقی دینے اور پولر سلک روٹ یعنی قطبی شاہراہ ریشم بنانے کی بات کی۔
میتھیو فنوئیول نے بی بی سی کو بتایا کہ ’سنہ 2018 میں چین نے ایک سٹریٹجک وائٹ پیپر جاری کیا جس میں اس نے آرکٹک خطے کے ساتھ اپنے مفادات پر بات کی تھی۔ خود کو آرکٹک کے قریب ملک کہنا کسی حد تک حماقت ہے کیونکہ یہ آرکٹک سرکل سے تقریباً 1500 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ لیکن اس سے چین کے ارادوں کا پتہ چلتا ہے۔‘
شمالی سمندری راستے کے کھلنے سے نہ صرف وقت اور پیسے کی بچت ہوگی بلکہ یہ سکیورٹی کے نقطہ نظر سے بھی اہم ہے۔ میتھیو کا کہنا ہے کہ چین کے فوجی مقاصد کو اس کے اقتصادی مفادات سے الگ نہیں دیکھا جا سکتا۔
میتھیو کا کہنا ہے کہ چین دنیا میں کہیں بھی فوجی کارروائی کرنے کی صلاحیت حاصل کرنا چاہتا ہے۔ تمام بڑی طاقتیں آرکٹک میں اپنا اثر و رسوخ قائم کرنا چاہتی ہیں اور چین بھی اس میں اپنی جگہ بنانا چاہتا ہے۔
شمال میں روسی بندرگاہوں میں سرمایہ کاری کے ساتھ ساتھ چین آرکٹک میں سائنسی تحقیقی کاموں میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہا ہے۔
متھیو کہتے ہیں کہ ’ہر کسی کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اگر چین آرکٹک میں فوجی کارروائی کرنا چاہتا ہے تو اسے خطے کے بارے میں معلومات کی ضرورت ہوگی۔ اس لیے چین آرکٹک میں سائنسی تحقیقی کام میں مصروف ہے اور انٹیلی جنس معلومات بھی اکٹھا کر سکتا ہے۔‘
جہاں تک قطب شمالی میں کام کرنے کا تعلق ہے تو چین اور روس دونوں وہاں الگ تھلگ ہیں۔ اپریل میں دونوں ممالک کی کوسٹ گارڈ ٹیموں نے مل کر گشت کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ وہ باہمی سٹریٹجک تعاون کو بڑھانا چاہتے ہیں۔ جیسا کہ ہم نے بحیرہ جنوبی چین میں دیکھا ہے کہ چینی کوسٹ گارڈ اپنے حریفوں پر دباؤ بڑھانے کے لیے طاقت کا استعمال کر سکتا ہے، جو خطے میں عدم استحکام کا باعث بن سکتا ہے۔
،تصویر کا ذریعہGetty Images
سوالبارڈ کے کوئلے کی کانوں کے شہر میں روسی رہنما لینن کا مجسمہ
قطبی تناؤ
امریکہ میں جرمن مارشل فنڈ کی سینیئر محقق سوفی آرٹس نے بی بی سی کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ روس چین کے ساتھ تعاون بڑھا رہا ہے۔ مستقبل میں یہ آرکٹک کے علاقے میں زمینی دعووں پر تناؤ اور تنازعے کا باعث بن سکتا ہے۔
’روس پہلے سے آرکٹک میں اپنی خودمختاری کے بارے میں فکر مند رہا ہے اور وہاں اپنے اقتصادی مفادات کے تحفظ کے لیے کوشاں رہا ہے۔ لیکن اس سے قبل وہ چین کو اس خطے میں شامل کرنے سے کتراتا تھا لیکن اب روس کمزور ہو چکا ہے اور چین اسے معاشی مدد فراہم کرنے کے لیے تیار ہے۔ ایسی صورتحال میں مستقبل میں چین بھی اس خطے میں اپنے قدم جما سکتا ہے اور تصادم کی صورتحال پیدا ہو سکتی ہے جس کے لیے ہمیں تیار رہنا چاہیے۔‘
سوفی کا کہنا ہے کہ آرکٹک میں بڑھتی ہوئی کشیدگی اور روس کی تنہائی خطرناک صورتحال پیدا کر سکتی ہے۔
سوفی آرٹس نے کہا کہ ’اس طرح کی بہت باتیں ہو رہی ہیں کہ روس یوکرین کے خلاف جنگ کی وجہ سے عسکری طور پر کمزور ہو رہا ہے۔ لیکن اس سے آرکٹک میں اس کی سرگرمیاں متاثر نہیں ہوں گی۔ یہاں مسئلہ یہ ہے کہ آرکٹک کونسل نے روس سے رابطہ منقطع کر لیا ہے۔ اگر کوئی بحران پیدا ہوتا ہے یا صورتحال حادثاتی طور پر بگڑ جاتی ہے تو فی الحال روس کے ساتھ ہم آہنگی کا کوئی ٹھوس ذریعہ نہیں ہے۔‘
آرکٹک روس کے لیے بہت زیادہ سٹریٹیجک اہمیت کا حامل ہے۔ یوکرین کی جنگ شروع ہونے سے پہلے روس آرکٹک کے علاقے میں اپنی فوجی صلاحیتوں میں اضافہ کر رہا تھا۔ سوفی کا کہنا ہے کہ آرکٹک کے دیگر ممالک نے اس طرف خاص توجہ نہیں دی۔
روس نے آرکٹک میں سرمایہ کاری میں اضافہ جاری رکھا جبکہ گذشتہ دس سالوں میں امریکہ اور یورپ کے دیگر آرکٹک ممالک نے وہاں سرمایہ کاری کو ترجیح نہیں دی۔ اس وجہ سے آرکٹک کے ہر علاقے میں روس اور ان ممالک کی صلاحیتوں میں بہت فرق تھا۔ اب آرکٹک ممالک کو اس پر توجہ دینی چاہیے۔‘
یوکرین جنگ کی وجہ سے آرکٹک ممالک نیٹو کے قریب آگئے ہیں۔ فن لینڈ نیٹو میں شامل ہو گیا ہے۔ سویڈن بھی جلد اس میں شامل ہو جائے گا۔ اس کا مطلب ہے، آرکٹک ممالک میں روس ایسا واحد ملک ہے جو نیٹو کا حصہ نہیں ہے۔
آرکٹک میں کئی تشویشناک سرگرمیاں سامنے آئی ہیں۔ جولائی میں نیٹو رہنماؤں نے روس اور چین کے درمیان تعاون کو مدنظر رکھتے ہوئے آرکٹک مشترکہ دفاعی منصوبے کا اعلان کیا۔ روس نے الزام لگایا کہ نیٹو ممالک آرکٹک کو فوجی تنازعے کے قریب لا رہے ہیں۔ یہاں روس، چین اور نیٹو کے کیمپ واضح طور پر آمنے سامنے آچکے ہیں۔
ایسے میں یہ سوال بنتا ہے کہ کیا آرکٹک تنازعات کی آگ میں جل رہا ہے؟ اس میں کوئی شک نہیں کہ یوکرین کی جنگ اور موسمیاتی تبدیلیوں کی گرمی سے آرکٹک خطے کا امن پگھل رہا ہے۔
مغربی ممالک اور روس کے درمیان عدم اعتماد اپنے عروج پر ہے۔ جہاں پہلے آرکٹک میں ان دونوں کیمپوں کے درمیان تعاون تھا، اب سخت مقابلہ ہے۔ روس کے ساتھ تعلقات اور تعاون کی بندش کی وجہ سے سب سے زیادہ نقصان موسمیاتی تبدیلیوں پر قابو پانے کی کوششوں اور سائنسی تحقیقی کاموں کو پہنچا ہے جو کہ انتہائی تشویشناک صورت حال ہے۔
Comments are closed.