best totally free hookup app burley bike hookup 4 foot by 8 foot solar panel hookup daty hookup

بدھ14؍شوال المکرم 1442ھ26؍مئی 2021ء

’کیئو کا ارب پتی شہزادہ‘: پاکستانی لڑکا جو یوکرین کا ’سٹیل کنگ‘ بنا

محمد ظہور: کراچی کا لڑکا ’کیئو کا ارب پتی شہزادہ‘ کیسے بنا؟

  • ثمرہ فاطمہ، بی بی سی اردو، لندن
  • زبیر خان، پاکستان

ظہور اور کمالیہ

،تصویر کا ذریعہM Zahoor

،تصویر کا کیپشن

ظہور کی اہلیہ کمالیہ اب یوکرین سے نکلنے میں کامیاب ہو گئی ہیں

‘مجھے اگر ایک چارپائی مل جائے، ایک روٹی مل جائے اور اس کے ساتھ کھانے کو کوئی سالن مل جائے تو میں خوش رہوں گا۔ مجھے زندہ رہنے کے لیے کسی قسم کی عیاشی کی ضرورت نہیں ہے۔۔۔ حالانکہ ہماری زندگی بہت رنگین گزری ہے اور یوکرین میں ہمارے یہاں جو محفلیں ہوتی ہیں ان کا کوئی جواب نہیں۔ سڑک پر آ کر لوگ آپ کے ساتھ سیلفیز لے رہے ہوتے ہیں۔ کئی لوگ آ کر کہتے ہیں ہم آپ سے بہت متاثر ہیں۔ لیکن میں نے اپنے آپ کو اس کا عادی نہیں بنایا ہے۔‘

یہ الفاظ پاکستانی نژاد ارب پتی شخصیت محمد ظہور کے ہیں جنھیں ’کیئو کا شہزادہ‘ بھی کہا جاتا ہے۔ دنیا انھیں ’سٹیل کنگ‘ اور یوکرین کی انٹرٹینمنٹ صنعت کی ایک بڑی ہستی کے طور پر جانتی ہے۔

ان کی اہلیہ سنہ 2008 میں مس ورلڈ کا ٹائٹل جیت چکی ہیں اور یوکرین کی مشہور گلوکارہ ہیں۔

محمد ظہور یوکرین کے صدر اور وزیراعظم جیسی ہستیوں کے ساتھ اپنے قریبی تعلقات کا ذکر کرتے ہیں۔ گذشتہ 11 برسوں سے وہ یوکرین میں میوزک ایوارڈز کا انعقاد کروا رہے ہیں جو اُن کے بقول ’گریمی‘ سے کم نہیں۔

وہ یوکرین پر روسی حملے سے دو دن قبل اپنی آٹھ سالہ جڑواں بیٹیوں کو لے کر لندن آ گئے تھے۔ جب میں نے لندن میں ان سے ملاقات کی تو اس وقت اُن کی یوکرینی اہلیہ یوکرین کی سرحد کے پاس تھیں اور ملک سے نکلنے کی کوشش کر رہی تھیں۔

بعد میں ہمیں بتایا گیا کہ اب وہ یوکرین سے نکل چکی ہیں۔

کراچی کا طالبعلم یوکرین کی امیر ترین شخصیت کیسے بنا؟

محمد ظہور

،تصویر کا ذریعہMUHAMMAD ZAHOOR

،تصویر کا کیپشن

محمد ظہور کے بچپن کی تصویر

میں پہلی بار لندن میں اتنے اعلی شان گھر میں داخل ہو رہی تھی۔ جب میں اُن کا انٹرویو کرنے پہنچی تو انھوں نے خود دروازہ کھولا اور کسی ’جینٹل مین‘ کی طرح مجھ سے میرا کوٹ لے کر ہینگر پر ٹانگ دیا۔

جیسے جیسے ہم گھر میں داخل ہو رہے تھے میرے دل میں ایک کے بعد ایک نئے سوال جنم لے رہے تھے، جن کے بارے میں میں پہلے سے سوچ کر نہیں گئی تھی۔ اگر لندن کا گھر اتنا اعلی شان ہے تو محمد ظہور کی یوکرین کی رہائش گاہ کیسی ہو گی؟ کیا واقعی یہ سچ ہے کہ خواب جتنے بھی بڑے ہوں، سچ ہو سکتے ہیں؟

’سٹیل کِنگ‘ بننے کے بعد سٹیل کی تمام ملیں انھوں نے فروخت کیوں کر دیں؟ اب تک کے برتاؤ کو اُن کی عاجزی سمجھوں یا مغربی تہذیب کا اثر؟ اور یہ تمام سوالات انٹرویو کے دوران میں نے اُن سے کر ڈالے۔

ساتھ ہی یہ بھی سمجھنے کی کوشش کی کہ کراچی کے ایک طالبعلم سے یوکرین کی امیر ترین شخصیت بننے تک کے سفر کی کہانی آخر کیسے طے ہوا؟

کراچی سے تعلق رکھنے والے محمد ظہور کو آج دنیا بھر میں سٹیل کی دنیا کا ماہر تسلیم کیا جاتا ہے۔ وہ سنہ 2008 تک براہ راست سٹیل کے کاروبار سے منسلک تھے۔ یوکرین اور برطانیہ سمیت دنیا میں ان کی کئی سٹیل ملز تھیں۔ آنے والے برسوں میں انھوں نے یوکرین اور دنیا بھر میں اپنی سٹیل ملز فروخت کر دیں۔

اس وقت وہ دنیا بھر میں سٹیل کے کاروبار پر مشاورت اور لیکچر دینے کے علاوہ سرمایہ کاری کے کاروبار سے منسلک ہیں۔ اس کے علاوہ یوکرین میں انھوں نے ’کیئو پوسٹ‘ نامی ایک اخبار کو کئی سال تک چلایا تھا۔ اُن کا دعویٰ ہے کہ اخبار اپنی غیر جانبدارانہ پالیسیوں اور حکومت پر تنقید کی وجہ سے مقبول ہوا تھا، تاہم بعد میں انھوں نے اسے فروخت کر دیا۔

ابھی ہم انٹرویو کی تیاری ہی کر رہے تھے کہ گھر کے باغیچے میں کھیل رہی چار بچیاں بار بار میرا دھیان اپنی جانب کھینچ رہی تھیں۔ مجھے تشویش ہو رہی تھی کہ تقریباً ایک ہی عمر کی چار بچیاں اس گھر میں کیا کر رہی ہیں۔ وہاں موجود محمد ظہور کے داماد نے مجھے بتایا کہ ان میں سے دو بیٹیاں اُن کی ہیں اور دو ظہور کی ہیں۔

وہ محمد ظہور کی پہلی شادی سے ہونے والی بیٹی کے شوہر ہیں۔

ظہور کی پہلی اہلیہ اب ماسکو میں رہتی ہیں اور ماسکو کے ساتھ بھی ان کا قریبی تعلق رہا ہے۔ وہ 13 برس ماسکو میں بھی رہے۔ وہاں بھی ان کے دوست رہتے ہیں۔

ظہور

،تصویر کا ذریعہM Zahoor

،تصویر کا کیپشن

ظہور سنہ 1974 میں پہلی بار سکالر شپ پر ڈونیسک گئے تھے

ظہور نے خود بتایا کہ ان کی دوسری اہلیہ کمالیہ ایسے کئی شوز میں گلوکاری کر چکی ہیں جہاں صدر پوتن بھی مہمانوں میں شامل تھے۔ کمالیہ کے والد کا تعلق ماسکو اور والدہ کا یوکرین سے ہے، تاہم کمالیہ خود کو یوکرینی ہی مانتی ہیں۔

حملوں کے تمام امکانات کے باوجود کمالیہ اپنا ملک چھوڑنا نہیں چاہتی تھیں۔ ظہور نے بتایا ’22 فروری کو جب دنیا بھر کے نیوز چینلز حملے کے امکانات ظاہر کر رہے تھے تب بھی وہ یہی کہہ رہی تھیں کہ روسی ہمارے بھائی ہیں وہ ہم پر حملہ نہیں کریں گے۔‘ اسی لیے ظہور کو انھوں نے بچیوں کے ساتھ پہلے لندن بھیج دیا تھا اور خود وہیں رہ گئی تھیں۔

ظہور نے کہا ’حکومت سمیت 100 فیصد لوگ یہ سمجھ رہے تھے کہ حملہ نہیں ہو گا۔ میرے ان سب کے ساتھ اچھے تعلقات ہیں۔ صدر زیلینسکی میرا اور میری اہلیہ کے بھی اچھے دوست ہیں۔ میں ہمیشہ اُن سے پوچھتا رہتا تھا کہ کیا کرنا چاہیے؟‘

انھوں نے کہا ’سب یہی کہتے تھے کہ ہماری بھی خفیہ معلومات ہیں اور ہمیں ایسا کچھ نظر نہیں آ رہا۔ آپ بالکل فکر نہ کریں۔ ہمیں نہیں لگتا کہ روس حملہ کرے گا، وہ صرف مذاکرات کے لیے ایسا کرنا چاہتے ہیں۔‘

کراچی سے یوکرین تک کا سفر

محمد ظہور پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد خوشحال خان کا تعلق صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع مانسہرہ کے گاؤں ’حسنینا‘ سے ہے۔ خوشحال خان قیام پاکستان سے پہلے ہی کراچی منتقل ہو گئے تھے۔

اس انٹرویو کے دوران محمد ظہور نے کئی بار اس بات پر زور دیا کہ ’میری کامیابی میں والد کی تربیت، ماں کی دعاؤں اور اللہ کی مرضی کا بہت بڑا ہاتھ ہے۔‘

انھوں نے بتایا ’ہم کراچی میں رہتے تھے اور اس وقت ہمیں یہ بات اچھی نہیں لگتی تھی کہ ہمارے والد کی سرکاری دفتر میں نوکری کے باوجود ہماری زندگی اوروں کی طرح شاہانہ اور باوقار نہیں تھی۔ میرے والد سندھ کے ڈپٹی اکاؤنٹنٹ جنرل تھے۔ یہ ایک بہت بڑا عہدہ تھا۔ لیکن اُن کے ساتھ کے لوگ گاڑیوں پر آتے تھے جب کہ میرے والد تقریباً 15 سال پرانی سائیکل پر آتے جاتے رہے۔ وہی عادتیں ہماری بھی تھیں۔ لیکن آگے چل کر اسی چیز نے میری زندگی میں ایک بہت اہم کردار ادا کیا۔‘

محمد ظہور

،تصویر کا ذریعہMUHAMMAD ZAHOOR

،تصویر کا کیپشن

محمد ظہور کے والدین

محمد ظہور کے ملک سے باہر سفر کا آغاز سنہ 1974 میں اس وقت ہوا جب اُن کا انتخاب سویت یونین میں انجینیئرنگ کی تعلیم کے لیے سکالرشپ کے لیے ہوا۔ اس وقت وہ کراچی کی این ای ڈی یونیورسٹی میں انجینیرئنگ میں پہلے سال کے طالبعلم تھے۔

سکالرشپ کے لیے منتخب 42 بچوں میں چند کو سینٹ پیٹرس برگ، کچھ کو ماسکو اور بعض کو ڈونیسک بھیجا گیا جن میں ظہور بھی شامل تھے۔

ڈونیسک میں گزارے طالب علمی کے دنوں کا ذکر کرتے ہوئے اُن کے چہرے پر مسکراہٹ آ جاتی ہے۔ وہ بتاتے ہیں ’اپنے ساتھ جانے والوں میں سب سے جلد روسی زبان میں نے سیکھی جس نے میری آگے بڑھنے میں خاصی مدد بھی کی۔ اس درمیان کچھ کامیاب اور کچھ ناکام محبتیں بھی ہوئیں اور تعلیم کے ساتھ ساتھ میں نے دوست بنانے کے علاوہ زندگی کے کئی اہم تجربات بھی حاصل کیے۔‘

زمانہ طالب علمی میں ہی انھوں نے اپنے ساتھ ہی پڑھنے والی لڑکی سے شادی کر لی تھی جو بعد میں ان کے ساتھ پاکستان جا کر رہیں بھی۔ اس سکالرشپ کی شرط تھی کہ تعلیم حاصل کرنے کے بعد انھیں واپس جا کر پانچ برس پاکستان سٹیل مل میں کام کرنا ہو گا۔

ان کے بقول جب وہ تعلیم مکمل کر کے واپس پاکستان پہنچے تو مسائل کا انبار ان کا انتظار کر رہا تھا۔

پاکستان سٹیل مل میں پہلی نوکری

انھوں نے بتایا کہ سویت یونین سے تعلیم حاصل کر کے پاکستان واپس جانے پر انھیں پہلے سٹیل مل کے شعبے سیفٹی میں تعینات کیا گیا اور بعد میں تعمیرات کے شعبے میں منتقل کر دیا گیا۔ دونوں ہی شعبوں میں کام اُن کی ڈگری کی مناسبت سے نہیں تھا۔

انھوں نے میٹلرجی میں انجینیئرنگ کی تھی۔ لیکن انھیں اُن کی تعلیم اور ہنر کے مطابق کام نہیں دیا گیا۔ ان کے بقول نامناسب حالات اور رویوں کے باوجود انھوں نے اتنی شاندار کارگردگی دکھائی کہ جب انھوں نے وہ نوکری چھوڑنے کا ارادہ کیا تو اس وقت کے سٹیل مل کے چیئرمین نے اُن کا استعفیٰ سات مرتبہ نامنظور کیا تھا۔

ظہور نے بتایا ’میرے پاس ایسے بہت سے مواقع تھے جب میں محض ایک دستخظ کر کے بہت سارے پیسے کما سکتا تھا۔ لیکن والد صاحب کی تربیت کا کچھ ایسا اثر تھا کہ وہ ہو نہیں پایا۔‘

کمالیہ

،تصویر کا ذریعہM Zahoor

،تصویر کا کیپشن

کمالیہ نے سنہ 2008 میں مسز ورلڈ کا خطاب جیتا تھا

سویت یونین واپسی

اسی درمیان ماسکو میں ایک کمپنی کو ایک ایسے شخص کی ضرورت پیش آئی جو پاکستان کے ساتھ کاروبار میں اُن کی مدد کر سکے۔ اور روسی زبان پر عبور اور قابلیت کے سبب ظہور کو اس کام کے لیے چُنا گیا۔ اور اس طرح وہ ماسکو پہنچ گئے۔

محمد ظہور نے بتایا ’80 کی دہائی کے آخر میں ماسکو پہنچ کر میں نے سپیئر پارٹس وغیرہ فراہم کرنا شروع کر دیے تھے۔ اس کے ساتھ ساتھ میں نے اپنی کمپنی والوں کو بتایا کہ یہاں سے سٹیل لے کر جانا ایک منافع بخش سودا ہو سکتا ہے۔ مجھے سٹیل ملوں کے تقریباً سارے ہی لوگ جانتے تھے۔‘

اس کاروبار میں اُن کی کمپنی نے پاکستان کو سٹیل بھجوانا شروع کر دیا لیکن اس فروخت کے بدلے پاکستان سے ادائیگی نقد کے بجائے کپڑوں کی صورت میں ہوتی تھی۔ انھوں نے بتایا کہ اس کام میں منافع بے انتہا یعنی مارکیٹ میں رائج منافع سے بھی کئی گنا زیادہ تھا۔

ظہور بتاتے ہیں ’تین برس کے اندر میری تنخواہ ایک ہزار سے بڑھ کر اور بونس ملا کر 50 ہزار ڈالر ہو گئی تھی اور مجھ پر دیگر اخراجات کی مد جس میں دفتر، آمد و رفت کا خرچہ کرایہ باقی اخراجات ملا کر سالانہ کوئی ڈیڑھ لاکھ ڈالر خرچ ہوتے تھے۔‘

پھر مختلف وجوہات کی بنا پر انھوں نے یہ سوچا کہ کیوں نہ وہ اپنا کاروبار کریں۔

انھوں نے بتایا ’اس وقت میں نے تھائی لینڈ کے ایک کاروباری شخصیت کے ساتھ مل کر ایک کمپنی کی بنیاد رکھی جس میں 51 فیصد شیئر اس کے اور 49 فیصد میرے تھے۔‘

اور اس طرح اُن کے سٹیل کی دنیا پر راج کرنے کے سفر کا آغاز ہوا۔ آہستہ آہستہ یورپ اور پھر دنیا بھر میں اُن کے دفاتر کھلنے لگے۔

سٹیل کِنگ

سنہ 1996 میں انھوں نے ڈونیسک کی اسی سٹیل مل کو خرید لیا جہاں انھوں نے تعلیم کے دوران اپنا آخری پریکٹیکل مکمل کر کے ڈگری حاصل کی تھی۔

ظہور ڈونیسک سٹیل مل کے مالک ضرور بن چکے تھے لیکن اس کی حالت انتہائی خستہ ہو چکی تھی۔ انھوں نے بتایا ’اس کو ہم نے بنانا شروع کر دیا تھا۔ ہم نے جدید ترین اور انتہائی شاندار مل بنائی۔‘

یہ بھی پڑھیے

محمد ظہور نے بتایا کہ اس کے بعد ان لوگوں نے امریکہ اور دنیا کے مختلف ممالک میں سٹیل ملیں لگائی تھیں جو کہ بڑی کامیابی سے چل رہی تھیں۔ اور یوکرین میں ان کے تعلقات بڑھ چکے تھے۔

اور اسی دوران معاشی صورتحال کی وجہ پر اخبار ’کیئو پوسٹ‘ بند ہونے جا رہا تھا جسے محمد ظہور نے خرید لیا اور میڈیا انڈسٹری میں قدم رکھ لیا۔

کیئو پوسٹ کی مقبولیت اور فروخت

محمد ظہور کے مطابق ’یوکرین کے اس وقت کے ماحول میں کیئو پوسٹ کو چلانا بہت مشکل تھا۔ مگر میں نے سرمایہ کاری کرنے کے بعد اس کا ادارتی نظام آزاد رکھا تھا۔ اپنی ادارتی ٹیم سے کہا تھا کہ غیر جانبدار رہ کر شاندار اخبار چلانا ہے۔ اس کی سرکولیشن تو ہفتہ وار 30 ہزار تھی۔ یوکرین کی اس وقت آبادی 40 ملین تھی۔‘

ظہور اور کمالیہ

،تصویر کا ذریعہM Zahoor

،تصویر کا کیپشن

محمد ظہور کی اہلیہ کمالیہ پاکستان میں خیراتی کام بھی کرتی ہیں

لیکن کئی برس اخبار کو کامیابی کے ساتھ چلانے کے بعد انھیں اسے بیچنا پڑا۔

محمد ظہور کا کہنا تھا کہ اس دوران ’ہم نے اس وقت کی حکومتوں پر بھی سخت تنقید کی۔‘ اور بعد میں انھوں نے اس شرط پر اخبار فروخت کر دیا تھا کہ یہ بند نہیں ہو گا اور اس کی آزاد پالیسی جاری رہے گی مگر کچھ عرصہ قبل کچھ وجوہات کی بنا پر یہ بند ہو گیا اور انھوں نے سُنا ہے کہ اب دوبارہ اس کا اجرا ہو گا۔

عین عروج پر سٹیل مِلز کی فروخت

محمد ظہور نے بتایا کہ چین نے سنہ 2008 کے اولپمک مقابلے منعقد کروائے تھے۔ اس کی تیاریوں کے لییے چین پورے دنیا سے سٹیل خرید رہا تھا۔ انھوں نے بھی خوب بیچا مگر اس کے ساتھ ساتھ چین کے اندر دھڑا دھڑ سٹیل کی ملیں لگنا شروع ہو گئیں۔

انھوں نے کہا ’جب میں نے یہ صورتحال دیکھی تو مجھے سمجھ آ گئی کہ چین کی سٹیل ملیں چلنے کے بعد یہ کاروبار منافع بخش نہیں رہے گا۔‘

Presentational grey line

روس کا یوکرین پر حملہ: ہماری کوریج

Presentational grey line

اس صورتحال کو سمجھتے ہوئے انھوں نے سنہ 2008 میں اپنا سٹیل کا کاروبار مکمل طور پر فروخت کر دیا۔ اب تک وہ اپنی کمپنی کے واحد مالک بن چکے تھے کیوںکہ سنہ 2004 میں انھوں نے اپنے پارٹنر سے تمام شیئر خرید لیے تھے۔

محمد ظہور کا کہنا تھا کہ وقت نے ثابت کیا کہ اُن کا فیصلہ درست تھا۔ اب وہ دنیا بھر میں سرمایہ کاری کرتے ہیں۔ انھوں نے بتایا ’میری سرمایہ کاری کا تخمینہ تقریباً ایک کروڑ ڈالر ہے۔‘

پاکستان سے اہلیہ اور بچوں کا لگاؤ

محمد ظہور

،تصویر کا ذریعہMUHAMMAD ZAHOOR

،تصویر کا کیپشن

محمد ظہور اپنی اہلیہ اور بیٹیوں کے ہمراہ

ظہور کے گھر پر سبھی روسی زبان میں بات کرتے ہیں۔ لیکن جب اُن کی بڑی بیٹی سے میری ملاقات ہوئی تو اس نے مجھ سے اُردو میں پوچھا ’آپ کافی پئیں گی؟‘ تب مجھے معلوم ہوا کہ وہ روسی ضرور دکھتی ہے لیکن پاکستان سے بھی اُن کا تعلق قائم ہے۔ اس نے بتایا کہ کورونا سے پہلے وہ لوگ ہر سال پاکستان جایا کرتے تھے اور یہ کہ اسے بالی وڈ فلمیں بہت پسند ہیں۔

ظہور کے گھر میں زیادہ تر یوکرینی پکوان بنتے ہیں لیکن پاکستانی پکوان بھی پسند کیے جاتے ہیں۔

محمد ظہور نے بتایا کہ ان کی اہلیہ کمالیہ پاکستان میں بہت سا خیراتی کام بھی کرتی ہیں۔ ان کے مطابق سنہ 2005 میں زلزلے کے دوران انھوں نے یوکرین سے ساز و سامان لے جا کر پاکستان میں ایک فیلڈ ہسپتال بنانے میں مدد کی تھی۔

ظہور نے کہا ’اس واقعے کے دو برس بعد تک کمالیہ وہاں جاتی رہیں۔ انھوں نے کشمیر میں ایک گاؤں کو اپنے پاؤں پر کھڑا کیا۔ وہاں یوکرنین فیلڈ ہسپتال کا بندوبست کیا۔ اس کے علاوہ اسلام آباد میں موجود کارڈیالوجی سینٹر میں بچوں کے دل کے امراض پر تحقیق کے لیے فنڈز فراہم کیے۔‘

محمد ظہور

،تصویر کا ذریعہMUHAMMAD ZAHOOR

ان کے مطابق کمالیہ اسی طرح کئی سرکاری اور غیر سرکاری اداروں سے رابطے میں رہتے ہوئے فلاحی کام کر رہی ہیں۔ وہ جس عاجزی سے اپنے چاہنے والوں سے ملتی ہیں وہ بھی ظہور کو بہت پسند ہے۔

کمالیہ کو پاکستانی گلوکارہ نازیہ حسن کے گانے بہت پسند ہیں اور وہ انھیں سیکھ کر کئی محفلوں میں گا بھی چکی ہیں۔ پاکستان ڈے کے موقعے پر انھوں نے ’دل دل پاکستان‘ گا کر پاکستانی سفارتخانے میں مہمانوں کا دل جیت لیا تھا۔

گھر یوکرین ہے یا پاکستان

جس شخص کے دنیا بھر میں گھر ہوں وہ کسی ایک جگہ کو مستقل ٹھکانہ بھی تو مانتا ہو گا؟

یہ ایک مشکل سوال تھا اور جواب میں مکمل یقین کے ساتھ انھوں نے مجھ سے کہا ’پاکستان میری جائے پیدائش ہے، اور میرا پاسپورٹ برطانیہ کا ہے لیکن اگر پیدائش کے بعد میں کسی جگہ کو اپنا گھر مانتا ہوں تو وہ یوکرین ہے کیوںکہ اس ملک میں میں نے تعلیم حاصل کی، اسی ملک میں میں نے دو مرتبہ شادی کی اور وہیں تمام دولت کمائی۔ میں نے وہاں لوگوں کو روزگار دیا، فلاحی کام کیے اور وہیں میرے دوست ہیں جن میں سے کچھ زندہ ہیں اور کچھ اب مر چکے ہیں۔ مجھے پاکستانی سیاست کا بھی زیادہ علم نہیں، لیکن یوکرین میں میں جتنا بھی رہا ہوں، پورے دل سے رہا ہوں۔‘

کمالیہ

،تصویر کا ذریعہM Zahoor

،تصویر کا کیپشن

کمالیہ پاکستانی گلوکارہ نازیہ حسن کی مداح ہیں اور ان کے گانے بھی گاتی ہیں

یوکرین پر روسی حملے کے سبب کاروباروں کو ہونے والے ممکنہ نقصان کے بارے میں پوچھنے پر بھی انھوں نے بہت تحمل سے جواب دیا کہ انھوں نے اپنے تمام اثاثے کسی ایک جگہ یا شعبے میں نہیں رکھ چھوڑے ہیں، اس لیے وہ زیادہ پریشان نہیں ہوتے۔

لیکن ساتھ ہی انھوں نے زور دیا کہ وہ خوش قسمت ہیں کہ اللہ نے انھیں اتنا نوازا جس کی انھوں نے کبھی توقع نہیں کی تھی۔

ایک گہری سانس لے کر مسکراتے ہوئے انھوں نے کہا ’48 برس قبل جب میں یوکرین میں اُترا تھا تو میرے والد نے مجھے 120 ڈالر دیے تھے۔ یہی اس شخص کی حیثیت تھی اور وہ اتنے ہی دے سکتا تھا۔‘

’ان 120 ڈالر کو میں 48 سال سے خرچ کر رہا ہوں اور اس کے بعد بھی میرے پاس کچھ بچ گیا ہے۔‘

BBCUrdu.com بشکریہ
You might also like

Comments are closed.