آسٹریلیا کے سائنسدانوں کا کہکشاں میں ’پراسرار‘ شے کی دریافت کا دعویٰ: ’کبھی یہ سامنے آ جاتی ہے اور پھر غائب ہو جاتی ہے‘
زمین سے لی گئی کہکشاں کی اس تصویر میں وہ حصہ دکھایا گیا ہے جہاں اس ’پراسرار‘ شے کو دیکھا گیا تھا
آسٹریلیا کے کچھ سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ انھوں نے ہماری کہکشاں میں گھومتی ہوئی ایک ایسی شے دریافت کی ہے جس کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی۔
اس خلائی شے کو سب سے پہلے یونیورسٹی کے ایک طالب علم نے دریافت کیا تھا اور بعد میں جب سائنسدانوں نے اس کا بغور جائزہ لیا تو ان کا کہنا تھا کہ انھوں نے ہر 18 منٹ کے بعد اس سے ریڈیائی لہروں کی ایک بارش ہوتی دیکھی جو ایک منٹ تک جاری رہی۔
یوں تو خلا میں توانائی خارج کرنے والے اجسام کے بارے میں اکثر سننے میں آتا ہے لیکن آسٹریلوی سائنسدانوں کا دعویٰ ہے کہ یہ چیز بہت ہی عجیب تھی جو ایک منٹ کے لیے چالو ہو جاتی ہے اور پھر رک جاتی ہے۔
ماہرین کی ٹیم کا کہنا ہے کہ وہ اس معمے کو سمجھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
اس پراسرار شے کا سراغ سب سے پہلے کرٹن یونیورسٹی کے طالبعلم ٹائرن اوڈاہرتی نے لگایا تھا۔ اس وقت وہ مغربی آسٹریلیا کے ایک دور دراز علاقے میں تھے اور اس کے لیے انھوں نے دوربین کے علاوہ خلائی اجسام کا جائزہ لینے کے لیے ایک نئی تکنیک استعمال کی جو ان کی اپنی اختراع ہے۔
ٹائرن سائنسدانوں کی ایک ٹیم کے ساتھ کام کر رہے تھے جس کی قیادت خلائی طبیعات کی ماہر ڈاکٹر نتاشا ہرلی واکر کر رہی تھیں جو کرنٹن یونیورسٹی کے خلائی تحقیق کے شعبے سے منسلک ہیں۔
خلائی تحقیق کے اس مرکز کے مطابق ڈاکٹر نتاشا کا کہنا تھا کہ ’ان چند گھنٹوں کے دوران جب ہم آسمان میں اس کا مشاہدہ کر رہے تھے تو ایسے لگ رہا تھا جیسے کبھی یہ شے سامنے آ جاتی ہے اور پھر غائب ہو جاتی ہے۔‘
’یہ مشاہدہ بہت ہی غیر متوقع تھا۔ (ہم جیسے) ماہرین فلکیات کے لیے یہ ایک پراسرار شے تھی کیونکہ ہمارے آسمان میں ایسی کوئی شے نہیں جو یوں کرتی ہو۔‘
یہ بھی پڑھیے
ڈاکٹر نتاشا کہتی ہیں کہ ماہرین کے لیے کائنات میں ایسے اجسام کوئی نئی شے نہیں جو جلتے بجھتے رہتے ہیں، انھیں ’ٹرانزیئنٹ‘ کہا جاتا ہے لیکن ڈاکٹر جیما اینڈرسن کا کہنا تھا کہ ’ایک ایسی شے جو پورا ایک منٹ جلتی رہے اور پھر بجھ جائے یہ ’بہت ہی عجیب‘ مشاہدہ تھا۔‘
یونیورسٹی کے تحقیقی مرکز کا مزید کہنا تھا کہ گزشتہ کئی برسوں کے اعدادوشمار کا بغور جائزہ لینے کے بعد ٹیم نے نتیجہ اخذ کیا کہ ہے کہ مذکورہ خلائی شے زمین سے تقریباً چار ہزار شمسی سال دور ہے، اس سے نکلنے والی روشنی انتہائی تیز ہے اور اس شے کے ارد گرد ایک نہایت طاقتور مقناطیسی حصار پایا جاتا ہے۔ ‘
اس پراسرار شے کے بارے میں کئی نظریات ہو سکتے ہیں، شاید یہ ایک نیوٹران ستارہ ہو یا کوئی پست قد کا ستارہ۔ پست قد ستارہ کی اصطلاح ان ٹکڑوں کے لیے استعمال کی جاتی ہے جو کسی بڑے ستارے کے اپنے اندر ٹوٹنے کی صورت میں باقی بچتے ہیں تاہم ابھی تک اس نئی خلائی شے کی دریافت بڑی حد تک ایک معمہ ہی ہے۔
ڈاکٹر نتاشا ہرلی واکر کے بقول اگر مستقبل میں یہ چیز پھر دکھائی دیتی ہے تو ہمیں معلوم ہوگا کہ یہ اپنی نوعیت کا انوکھا واقعہ تھا یا آسمان میں اس قسم کے دیگر خلائی اجسام بھی پائے جاتی ہیں۔‘
’میری خواہش ہے کہ ہم اس شے کو مزید سمجھ سکیں اور پھر اس قسم کے دیگر اجسام کی تلاش جاری رکھ سکیں۔‘
Comments are closed.