کھربوں ڈالر کی تجارت اور بحیرہ احمر کا بحران: دنیا کے بڑے تجارتی بحری جہازوں کا رُخ موڑنا کتنا مہنگا ثابت ہوتا ہے؟،تصویر کا ذریعہAlamy
،تصویر کا کیپشندنیا کا 12 فیصد تجارتی سامان نہر سویز سے گزرتا ہے

  • مصنف, کرس بارانیوک
  • عہدہ, بی بی سی فیوچر
  • ایک گھنٹہ قبل

بحیرہ احمر میں حوثیوں کے حملوں سے بچنے کے لیے سینکڑوں مال بردار بحری جہاز اور آئل ٹینکرز افریقہ کے جنوبی سرے ’کیپ آف گڈ ہوپ‘ کا متبادل بحری راستہ اختیار کرنے پر مجبور ہو رہے ہیں۔ لیکن کیا دنیا کے بڑے بڑے تجارتی مال بردار بحری جہازوں کا رُخ موڑنا کوئی آسان کام ہے؟رواں ماہ 17 جنوری کو امریکہ کے بڑے مال بردار بحری جہاز ’ایم وی جنکو پیکارڈی‘ کو بحیرہ احمر میں حوثی جنگجوؤں نے خودکش ڈرون کے ذریعے نشانہ بنایا تھا۔یہ بحیرہ احمر سے گزرنے والے تجارتی بحری جہازوں پر حوثی جنگجوؤں کے حملوں کے تازہ ترین مثال ہے۔ بحیرہ احمر دنیا کی مصروف ترین آبی گزرگاہوں میں سے ایک ہے لیکن اب یہ گزرگار حوثیوں کے حملے کی وجہ سے یقیناً بہت خطرناک بن چکی ہے۔گذشتہ سال نومبر کے مہینے سے یمن کے حوثی جنگجو آبنائے باب المندب سے گزرنے والے تجارتی جہازوں کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ یہ بحری گزرگاہ 20 میل (32 کلومیٹر) پر محیط ہے جو یمن کو شمال مشرقی افریقہ سے علیحدہ کرتی ہے۔

حوثیوں کا دعویٰ ہے کہ وہ غزہ کی پٹی میں جنگ کے آغاز کے بعد اسرائیل سے تعلق رکھنے والے بحری جہازوں کو نشانہ بنا رہے ہیں۔انھوں نے ان حملوں کے لیے بھاری ہتھیاروں سے لیس ہائی جیکرز سمیت میزائلوں اور ڈرونز تک سب کچھ استعمال کیا ہے۔ یہ صورتحال سمندری راستے سے ہونی والی تجارت کے لیے کسی ڈراؤنے خواب سے کم نہیں۔ مثال کے طور پر ایک ایم وی کارگو جہاز پر تقریباً دس لاکھ بیرل انتہائی آتش گیر تیل کی نقل و حمل کی جا سکتی ہے۔ جس امریکی جہاز کو 17 جنوری کو نشانہ بنایا گیا اس پر فاسفیٹ کی چٹانیں لدی ہوئی تھیں۔ جب اس جہاز کو نشانہ بنایا گیا تو زیادہ نقصان نہیں ہوا کیونکہ عملہ بروقت جہاز پر لگنے والی آگ پر قابو پانے میں کامیاب رہا تھا۔،تصویر کا ذریعہUPI/Alamy

،تصویر کا کیپشنجنکو پیکارڈی پر ڈرون حملے کے بعد جلنے کے واضح سیاہ نشان نظر آ رہے ہیں
عالمی سمندری راستوں پر نظر رکھنے والے ادارے ’لائیڈز لسٹ انٹیلیجنس‘ کی پرنسپل تجزیہ کار مشیل ویزے بوکمین کہتی ہیں کہ یہ کوئی ایسی صورتحال نہیں ہے جس سے کوئی حسد کرے۔ اس سلسلے میں وہ گذشتہ ہفتے کے شروع میں بحیرہ احمر کے خطرناک ترین حصے میں داخل ہونے والے کم از کم 300 بحری جہازوں کے بارے میں بتاتی ہیں۔تجزیہ کار مشیل ویزے کا کہنا ہے کہ ‘ان 300 بحری جہازوں میں سے ہر ایک پر 15 سے 25 کے درمیان لوگ (جہاز کا عملہ) سوار تھے۔ یہ ایک بس کی مانند ہے جو مسافروں کو لے کر سیدھا اس طرف جا رہی ہو جو ان کے لیے کسی جنگی علاقے سے کم نہیں ہے۔ ان کا اس پر کوئی زور نہیں کہ وہاں ان کے ساتھ کیا ہو سکتا ہے۔‘ایک اندازے کے مطابق عالمی تجارت کا 12 فیصد مال ہر سال بحیرہ احمر سے گزرتا ہے، جس کی مالیت ایک کھرب ڈالر سے زیادہ ہے۔ لیکن اب بہت سی شپنگ کمپنی نے اس علاقے سے مکمل طور پر گریز کرنا شروع کر دیا ہے۔ سینکڑوں بڑے کنٹینر بحری جہاز، جن میں سے کچھ 300 میٹر سے زیادہ لمبے ہیں، اب بحیرہ احمر اور نہر سویز سے گزرنے کے بجائے یورپ کے سفر پر جانے کے لیے براعظم افریقہ کے گرد سے گزرنے والے ایک طویل راستے کا انتخاب کر رہے ہیں۔ لیکن اس طرح کے بڑے جہازوں کے لیے متبادل اور طویل راستہ اختیار کرنا کوئی آسان کام نہیں ہے کیونکہ اس پر آنے والے اخراجات کے ساتھ ساتھ بہت زیادہ وقت بھی صرف ہوتا ہے۔دوسری طرف نہر پاناما کو متاثر کرنے والی شدید خشک سالی اور یوکرین کی جنگ نے بحیرہ اسود کے راستے اناج کی ترسیل کو بھی متاثر کر رکھا ہے اور اس کی وجہ سے بھی تجارتی سامان کی ترسیل متاثر ہوئی ہے۔ ان تمام وجوہات کی بنا پر حالات سے سمجھوتہ کرنا اور راستہ بدلنا کمپنیوں کی فوری ضرورت بن گیا ہے حالانکہ اس کے سنگین مالی اور ماحولیاتی نتائج سامنے آئيں گے۔،تصویر کا ذریعہAlamy
،تصویر کا کیپشنکھربوں ڈالر کا تجارتی سامان ہر سال بحری جہازوں سے ترسیل کیا جاتا ہے
گذشتہ سال نومبر میں حوثیوں نے ایک کار بردار جہاز کو ہائی جیک کر لیا تھا اور اس واقعے کی ویڈیوز جاری کی گئی تھیں۔ اُن کے دھماکہ خیز ہتھیاروں نے کنٹینروں سے لدے بحری جہازوں کو بھی نشانہ بنایا ہے۔ ان کے حملوں سے ایک روسی تیل بردار ٹینکر بال بال بچا لیکن بظاہر ایسا لگتا ہے کہ انھوں نے غلطی سے اسے نشانہ بنایا تھا۔ اس طرح کے حملوں سے نمٹنے، بحری جہازوں کی حفاظت اور حوثیوں کو روکنے کے لیے امریکہ اور برطانیہ نے فوجی کارروائیاں بھی شروع کر دی ہیں۔جان و مال کو لاحق خطرات کے علاوہ اس طرح کے بحری جہاز میں سوار ہونے کا مطلب زیادہ انشورنس پریمیم، ممکنہ قانونی مسائل اور غیر متوقع تاخیر بھی ہے۔ ان جہازوں کے ذریعے لے جانے والے سامان کی مالیت لاکھوں کروڑوں ڈالر تک ہو سکتی ہے۔ اس لیے اس میں کوئی تعجب کی بات نہیں ہے کہ شپنگ کمپنیوں نے بہت سے معاملات میں اپنے جہازوں کو کسی دوسرے راستے سے بھیجنے کا فیصلہ کیا ہے۔ بحیرہ احمر کے راستے کو چھوڑ کر جنوبی افریقہ کے ساحل کیپ آف گڈ ہوپ کے گرد لمبا چکر لگانے سے نہ صرف سفر کی طوالت میں تقریباً 3,500 سمندری میل (4,000 میل/6,500 کلومیٹر) اور دس سے بارہ دن کا اضافی سفری وقت شامل ہے بلکہ اس کے لیے اضافی ایندھن کی ضرورت بھی ہوتی ہے۔ بعض تخمینوں کے تحت ان پر اضافی دس لاکھ ڈالر کا خرچ اٹھتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ممکنہ طور پر متبادل بندرگاہیں تلاش کرنا، ڈیلیوری ٹائم ٹیبل میں ایڈجسٹمنٹ، اور بڑھتے ہوئے اخراجات بھی ایک مسئلہ ہیں۔ ان اضافی اخراجات کے باوجود بہت سی کمپنیاں میزائلوں اور ہائی جیکروں کے حملوں کا خطرہ مول لینے کے بجائے اس نئے راستے کا انتخاب کر رہی ہیں۔کنٹینرز بھیجنے والوں کو اب بحیرہ احمر سے بچنے کے لیے ایسے جہازوں کو کرائے پر لینا پڑ رہا ہے جو لمبے راستے سے جا رہے ہیں۔ اس انتخاب سے اس بات کا خدشہ بڑھ گیا ہے کہ اس کے بڑے پیمانے پر معاشی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں، جس سے اشیا کی قیمتوں میں اضافہ ہو سکتا ہے اور سامان کی ترسیل میں ہفتوں یا مہینوں کی تاخیر ہو سکتی ہے۔لائڈز لسٹ انٹلیجنس کی ویزے بوکمین کا کہنا ہے کہ حوثی اب اندھا دھند حملے کر رہے ہیں اور ان کی باتوں کی بازگشت امریکی قومی سلامتی کونسل کے حکام کے تبصروں میں بھی سنائی دے رہی ہے۔

یونیورسٹی آف میساچوسٹس کی ماہر معاشیات انا ناگورنی بھی اس بحران کو پھیلتے ہوئے دیکھ رہی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ عالمی تجارت میں پہلے سے ہی اہم رکاوٹیں موجود ہیں جن میں بحرالکاہل کو بحر اوقیانوس سے ملانے والی پاناما کینال شامل ہے جہاں خشک سالی کی وجہ سے جہازوں کی آمدو رفت متاثر ہوئی ہے۔وہ کہتی ہیں کہ ’بہت سے (چینی) جہازوں نے اپنا راستہ بدل دیا تھا اور پاناما کینال کے استعمال کے بجائے سویز نہر کا استعمال شروع کر دیا تھا اور اس لیے اب وہاں سب الٹ پلٹ ہو گيا ہے۔‘کیپ آف گڈ ہوپ کے گرد چکر لگا کر ایشیا سے یورپ جانا انتہائی مشکل معلوم ہوتا ہے لیکن مختلف وجوہات کی بنا پر شپنگ فرموں نے پہلے بھی ایسا کیا ہے۔ ناگورنی کا کہنا ہے کہ موجودہ صورت حال میں کارگو کی بڑی مقدار کو دیکھتے ہوئے اس کے علاوہ واقعی کوئی متبادل نہیں ہے۔ دنیا کی سب سے بڑی شپنگ کمپنیوں میں سے ایک میئرسک کے ترجمان کا اصرار ہے کہ ریل اور ہوائی جہاز سے آخر کتنے کارگو منتقل کیا جا سکتے ہیں اس لیے بحری جہاز ناگزیر ہے کیونکہ اس میں سامان کے نقل و حمل کی بے پناہ صلاحیت موجود ہے۔تاہم ناگورنی کا کہنا ہے کہ بعض اوقات افریقہ کے جنوبی سرے سے گزرنے والے جہازوں کو سخت موسمی حالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ آپشن اپنے آپ میں خطرے سے خالی نہیں ہے۔جبکہ ویزے بوکمین کا کہنا ہے کہ جہاز رانی اور لاجسٹکس میں شامل کمپنیاں کارگو کو کسی نہ کسی طریقے سے وہاں تک پہنچانے کا بہت تجربہ رکھتی ہیں جہاں اسے جانا ہے اور یہ کہ عالمی سپلائی چینز دراصل انتہائی لچکدار ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ بحیرہ احمر کے موجودہ بحران کو جہاز رانی کی صنعت کے لیے ’آرماگیڈن‘ (انجیل میں پیش گوئی کی جانے والی بڑی جنگ) کے طور پر نہیں دیکھا جانا چاہیے۔اس معاملے میں یہ بات مثال کے طور پر پیش کی جا سکتی ہے یوکرین کے باشندوں نے بحیرہ اسود میں روسی بحریہ کی طرف سے اپنے اناج کے جہازوں کو لاحق خطرے کے مطابق خود کو کیسے ڈھال لیا ہے۔ ناگورنی اور اس کے ساتھیوں نے اس مسئلے پر غیر معمولی ردعمل کا مطالعہ کیا ہے اور انھوں نے پایا ہے کہ یوکرین نے لاکھوں ٹن اناج کو متبادل راہداریوں کے ذریعے منتقل کیا ہے۔ اس کے تحت انھوں نے دریائے دانوب کے اوپر یا زمینی راستے سے رومانیہ کی سمندری بندرگاہوں تک پہنچایا ہے جو اس وقت یوکرین کے بندرگاہوں کے مقابلے میں روانہ ہونے والے جہازوں کے لیے زیادہ محفوظ ہیں۔اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ بڑے کارگو بحری جہازوں کے اس سارے راستے کو تبدیل کرنے کے سنگین نتائج نہیں ہیں۔ پہلے سے ہی بڑھتی ہوئی قیمتوں کی اطلاعات ہیں جو ممکنہ طور پر صارفین کو متاثر کریں گی۔ امپیریل کالج لندن میں سپلائی چین مینجمنٹ کے پروفیسر ایڈی اینڈرسن کا کہنا ہے کہ پہلی بات تو یہ ہے کہ کنٹینرز کی ترسیل کی قیمت کا اس غیر معمولی سطح تک پہنچنے کا امکان نہیں ہے جیسا کہ کووڈ 19 کی بدترین وبا کے دوران دیکھا تھا۔ زیادہ کرایہ یقینی طور پر مینوفیکچررز کے لیے کوئی مسئلہ نہیں ہے کیونکہ تاخیر کے خطرے سے نمٹنے کے لیے وہ مبینہ طور پر فی الوقت اپنی مصنوعات اور سامان کو ایئر فریٹ کے ذریعے بھیجنے کا انتخاب کر رہے ہیں۔،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشنپانامہ نہر دنیا میں تجارت کے لیے اہمیت کی حامل ہے
ایک اہم سوال یہ ہے کہ بحیرہ احمر کا بحران کب تک جاری رہے گا۔ شپنگ فرموں اور ماہرین نے پہلے ہی یہ عندیہ ظاہر کیا ہے کہ یہ مہینوں تک چل سکتا ہے۔ اینڈرسن اس بات سے متفق ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’آپ یقینی طور پر کئی مہینوں تک اس بحران کے جاری رہنے کا سوچ سکتے ہیں لیکن میں یہ خیال نہیں کرتا کہ یہ سالوں جاری رہ سکتا ہے۔ لیکن اس کے متعلق قطعی طور پر کون کچھ کہہ سکتا ہے؟‘متبادل راستہ اختیار کرنے کے ماحولیاتی اثرات بھی ہیں۔ شپنگ ٹریفک میں اچانک اضافہ پانی کے اندر شور میں ڈرامائی تبدیلیوں کا باعث بن سکتا ہے جو مقامی مچھلیوں کے ذخیرے اور سمندری ممالیہ کی زندگیوں کو متاثر کر سکتا ہے۔اس کے علاوہ، ہزاروں میل زیادہ سفر کرنے والے بحری جہاز دوسری صورت میں کہیں زیادہ ایندھن استعمال کریں گے اور اسی کارگو کو پہنچانے کے لیے فضا میں زیادہ کاربن خارج کریں گے۔ سنہ 2023 میں بین الاقوامی میری ٹائم آرگنائزیشن نے 2050 تک خالص صفر گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج تک پہنچنے اور 2030 تک کم از کم 20 فیصد تک اخراج کو کم کرنے کے اہداف مقرر کیے ہیں۔بینکنگ اور مالیاتی خدمات کی فرم آئی این جی کے ٹرانسپورٹ اکانومسٹ ریکو لومن کہتے ہیں: ’اگر یہی صورت حال جاری رہی تو شپنگ رواں سال کے دوران کاربن کے اخراج میں (مقررہ) کمی تک نہیں پہنچ سکے گی۔‘وہ بتاتے ہیں کہ آئل ٹینکرز یوکرین کی جنگ سے پہلے کے مقابلے میں نمایاں طور پر زیادہ میلوں کا فاصلہ طے کر رہے ہیں کیونکہ روس کو نشانہ بنانے والی پابندیوں نے بہت سے جہاز رانی کے راستوں کی تشکیل نو کی ہے۔ لہذا بعض قسم کے بحری جہاز کارگو کے فی یونٹ پر پہلے سے زیادہ اخراج کر رہے ہیں۔تاہم جو بات واضح ہے وہ یہ ہے کہ عالمی تجارت پر حوثی حملہ سپلائی چین کو ختم نہیں کرے گا۔ تاہم، یہ ایک شدید خطرہ ہے کیونکہ یہ مال و اسباب سے بھی بڑھ کر سمندری مسافروں کی زندگیوں کے لیے بھی خطرہ ہیں۔
BBCUrdu.com بشکریہ

body a {display:none;}