کھاؤ چھے: گرمی کا مقابلہ کرنے کے لیے پھولوں سے سجے خوشبودار مخصوص تھائی پکوان،تصویر کا ذریعہMax Wittawat

  • مصنف, کیٹ تھومپسن
  • عہدہ, بی بی سی ٹریول
  • 20 منٹ قبل

کیا آپ نے کھاؤ چھے کے بارے میں سنا ہے؟ بدھ مت کے نئے سال کے دوران تھائی لینڈ کی شدید گرمی میں یہ پکوان تازگی اور ٹھنڈک کا احساس دیتا ہے۔ تھائی لینڈ میں بدھ مت کے کیلنڈر کے تحت نیا سال سونگ کرن منایا جاتا ہے۔ اس وقت اپریل کا مہینہ ہوتا ہے اور جنوب مشرقی ایشیائی ملک میں درجہ حرارت روز بروز بڑھ رہا ہوتا ہے۔آسمان عام طور پر نیلا اور بے داغ ہوتا ہ۔ے ایسے میں تیرتے ہوئے بادل کے سائے کے نیچے آرام کرنے جیسی کوئی چیز نہیں ہوتی اور اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ فضا میں رطوبت بہت زیادہ ہوتی ہے۔ایسے میں نئے سال کے موقع پر ٹھنڈک کا احساس حاصل کرنے کا ایک طریقہ ملک بھر میں سالانہ پانی کی لڑائیوں پر مبنی تقریب ہوتی ہے۔ اس تقریب میں واٹر گن اور بالٹیوں سے پانی کے ساتھ جنگ ہوتی ہے۔ جشن منانے اور ٹھنڈک کے احساس کے لیے ایک اور طریقہ ہے اور وہ ہے کھاؤ چھے کھانا۔

کھاؤ چھے (بھیگے ہوئے چاول) ایک ٹھنڈا موسمی علاج ہے جو تھائی لینڈ میں موسم گرما کے آغاز کی نشاندہی کرتا ہے۔ اس ڈش کی تاریخ سینکڑوں سال پرانے مون لوگوں سے ملتی ہے۔ مون ایک نسلی گروہ ہے جو پورے میانمار اور تھائی لینڈ میں پیدا ہوا اور 16ویں صدی میں اس وقت کے سیامی معاشرے میں ضم ہو گیا۔تھائی اسکالر اور سنہ 2017 میں شائع ہونے والی کک بک ‘بنکاک’ کی مصنفہ لیلا پنیارتا بندھو کہتی ہیں: ‘کھاؤ چھے کی جس شکل کو ہم ابھی دیکھ رہے ہیں، خاص طور پر بنکاک میں، وہ مون کھاؤ چھے سے بہت کم مماثلت رکھتی ہے۔’ ان کی کتاب میں اس پکوان کے متعلق تفصیلات درج ہیں جس کے مطابق کھاؤ چھے کو 16 ویں صدی میں بھیگے ہوئے چاولوں کو ٹھنڈا رکھنے کے لیے مٹی کے برتنوں میں پیش کیا جاتا تھا کیونکہ برف آسانی سے دستیاب نہیں تھی۔ اس کے ساتھ پیش کیے جانے والے سائیڈ ڈشز بھی اتنے پیچیدہ نہیں تھے جتنے کے وہ بعد میں بن گئے۔بہر حال 19 میں صدی مین سیام کے شاہی خاندان کے بادشاہ رام چہارم کے دورِ حکومت میں یہ پکوان بہت پیچیدہ شکل اختیار کر گيا۔ ابتدا میں تو یہ بہت آسان اور سیدھا سادا پکوان تھا لیکن اس کی کایا پلٹ ہو گئی۔ کھاؤ چھے دیکھنے میں بھی خوبصور اور پرکشش نظر آئے اس بات کو یقینی بنانے کے لیے بہت کوشش کی گئی۔ اور اس طرح اس کے ساتھ پیش کیے جانے والے ضمنی پکوان میں پھولوں کی شکل میں نازک تراشی ہوئی سبزیاں شامل کی گئیں۔ اس کے علاوہ اس میں برف کو شامل کیا گيا جس کا اس قت عام لوگوں کے لیے حاصل کرنا ناممکن تھا اور اس طرح کھاو چاے بطور خاص شاہی پکوان کے طور پر سامنے آیا۔اب جو نسخہ وجود میں آیا اسے شاہی باورچیوں اور اشرافیہ خاندانوں میں نسل در نسل منتقل ہوتا رہا۔ اسے تیار کرنے کی ابتدا چاول دھونے سے ہوتی ہے۔ ،تصویر کا ذریعہCalvste/Getty Imagesنیویارک سٹی کے بنکاک سپر کلب کے ایگزیکٹو شیف میکس وٹا واٹ بتاتے ہیں کہ ’آپ کو اس چاول کو دوسرے چاولوں سے زیادہ دھونا ہوتا تاکہ پکانے پر یہ آپس میں چپکے نہ رہیں۔‘ وٹاوت بنکاک میں پلے بڑھے اور انھیں ماہر طباخ استاد جنترارت ہیم ویج نے کھاؤ چھے بنانا سکھایا ہے وہ بنکاک میں کھاؤ چھے کو کمال عطا کرنے کے لیے جانے جاتے ہیں۔چونکہ چاولوں کو لمبے عرصے تک بھیگنے دیا جاتا ہے لیکن اتنا نہیں کہ وہ دھونے کے دوران ٹوٹنے لگے۔ اس کے بھیگنے کی وجہ سے یہ بادل کی طرح کا گدلا ہو جاتا ہے اس لیے اس کا دھونا خاص طور پر اہم ہے۔ اسے ابالنے کے بعد چاول کو برف کے پانی میں ڈوبویا جاتا جو پھولوں کی خوشبو سے معطر ہوتا ہے۔ اس میں یاسمین، یلنگ یلنگ، دماسک گلاب اور بریڈ فلاور شامل ہوتے ہیں۔ وٹاوٹ کہتے ہیں کہ ’یہ موسم گرما کی ابتدا کی ایک علامت جب پھول کھل اٹھتے ہیں۔‘پنیاراتابندھو کے پاس اپنے دادا کی بچپن کی یادیں ہیں جب وہ سپریڈ شیٹ کا استعمال کرتے ہوئے مخصوص اوقات کا پتہ لگاتے تھے کہ کب کون سے پھول کھلتے ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ’سب بہت منظم تھا۔‘ مناسب وقت پر پھولوں کو چنا جاتا تھا، خاص طور پر کھاؤ چھے کی تیاری سے پہلے شام کو تاکہ پھولوں سے زیادہ سے زیادہ خوشبو حاصل کی جا سکے۔ اس کے بعد پھولوں کو کم از کم دو گھنٹے تک پانی میں ڈبو کر ان کی خوشبو حاصل کی جاتی تھی۔یہاں تک کہ پھولوں کو بھی بہت احتیاط کے ساتھ بھگویا جاتا تھا۔ اگر پھولوں کو پانی میں زیادہ دیر تک چھوڑ دیا جائے تو وہ جھلس کر خراب ہو جائیں گے، جس سے پانی میں ایک تیز اور ناسائشتہ ذائقہ رہ جائے گا۔ اگر انھیں کافی دیر تک کھڑا نہیں کیا جاسکتاتو گلدستہ کھاؤ چھے کے ساتھ پیش کی جانے والی سائیڈ ڈشز کے سامنے کھڑا نہیں ہو سکے۔ اس پکوان کی خوشبو کو مزید بڑھانے کے لیے تھائی کُلنری کینڈل جسے تیان اوپ کہا جاتا ہے اسے پھولوں کے پانی میں دھونی دینے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔اور یہ صرف اس ڈش کو تیار کرنے کی بنیاد ہے۔ کھاؤ چھے ایک ایسا تجربہ ہے جس میں بہت ہی مفصل تراکیب شامل ہیں۔

پنیاراتابندھو کہتی ہیں: ’نہ صرف اس کا بنانا مشکل ہے، بلکہ اسے کھانا بھی مشکل ہے۔‘ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس میں بہت سے تیز، نمکین اور مچھلی والا ذائقہ آتا ہے جو کچھ لوگوں کے لیے مناسب نہ ہو سکتا ہے۔ اس کے ساتھ کیکڑے کے پیسٹ سے بنے پیڑوں کو مچھلی کے ساتھ ملایا جاتا ہے اور پھر انڈے میں ڈبو کر تلا جاتا ہے۔ یہ پیڈ سی ایو (نوڈلز کی ڈش) سے بہت مختلف ہوتا ہے۔جب پنیاراتابندھو نے اپنی طباخی کی کتاب لکھنا شروع کیا تھا تو وہ اس معاملے میں شش و پنج کا شکار تھیں کہ آیا کتاب میں انھیں کھاؤ چھے کی ترکیب شامل کرنی چاہیے یا نہیں کیونکہ انھیں یہ معلوم تھا کہ اس کا گھر پر تیار کرنا ان دنوں کتنا مشکل امر ہے۔ انھوں نے کہا کہ ’میں جانتی تھی کہ یہ ایک مشکل چیز ہے، لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ یہ بنکاک کا ایک حصہ بھی ہے۔۔۔ میرا کام بنکاک میں جو کچھ بھی ہو رہا ہے اس کے ساتھ وفادار رہنا تھا۔‘یہاں تک کہ وٹاوٹ نے بھی اعتراف کیا کہ کھاؤ چھے بنکاک کی اشرافیہ کے معاشرے سے باہر بہت رواج میں نہیں تھا لیکن گذشتہ 10 سالوں میں جب بہت سے باورچیوں نے اپنے تھائی ورثے پر غور کرنا اور ثقافتی طور پر اہم اور تاریخی پکوانوں کی تلاش شروع کی تو اس کا رواج عام ہونے لگا۔وہ کہتے ہیں کہ ’اس سے پہلے یہ بہت پرانے طرز کے کھانوں میں شامل تھا اور ریستورانوں میں عام نہیں تھا۔ لیکن آج کل ٹیکنالوجی کے ساتھ پھول سال بھر کھل سکتے ہیں جس کے سبب اس کی مقبولیت میں بہت اضافہ ہوا ہے۔‘حال ہی میں کھاؤ چھے اپنی بے شمار سائیڈ ڈشز جیسے جھینگے کے پیسٹ کے پکوڑے، پھول کی شکل میں تراشی ہوئی سبزیوں، بھرے ہوئے چھلکے اور کالی مرچ، میٹھے بیف اور خنزیر کے گوشت اور انڈوں کے نازک چھلکوں کی وجہ سے سوشل میڈیا کا پسندیدہ بن گیا ہے۔ یہ بصری طور پر شاندار نظر آتا ہے خاص طور پر جب روایتی تھائی برتنوں یا ٹفن میں انھیں پیش کیا جاتا ہے۔ وٹاوٹ کہتے ہیں کہ ’بعض اوقات یہ اتنا خوبصورت نظر آتا ہے کہ اسے کھانے کا دل نہ کرے۔‘صاف شفاف پھولوں کی خوشبو والے پانی کو گدلا کرنے سے بچنے کے لیے ڈش سے لطف اندوز ہونے کا ایک خاص طریقہ ہے۔ وٹاوٹ کہتے ہیں: ’آپ کو چاولوں کے ساتھ تمام مصالحہ جات نہیں ڈالنے چاہییں۔ اس کے بجائے آپ کو چاول اور سائیڈ ڈشز کو باری باری کھانا چاہیے۔ سبزیاں اور اچار میٹھے گائے کے گوشت اور نمکین کیکڑے کے پیسٹ کے بھاری ذائقوں کو کاٹ سکتے ہیں۔‘انھوں نے کہا کہ ‘کھاؤ چھے کے بارے میں یہ ایک مزے کی بات یہ ہے کہ کھانے کو تازہ اور پرجوش رکھنے کے لیے مختلف ذائقے مل کر کام کرتے ہیں اور آپ زیادہ سے زیادہ کھانا کھا سکتے ہیں۔’وٹاوٹ کو اس بات کی خوشی ہے کہ جو کبھی شاہی خاندان اور تھائی معاشرے کے اعلیٰ طبقے کے لیے مخصوص تھا اب زیادہ آسانی سے دستیاب ہے اور ہر کسی کی دسترس میں ہے، خاص طور پر سونگ کرن یعنی نئے سال کے موقعے سے جب تھائی لینڈ بہت گرم ہونے لگتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ‘تھائی لوگ اپنی جڑوں کی طرف لوٹ رہے ہیں اور وہ اپنی تاریخ اور ثقافت کی از سرنو تعریف کر رہے ہیں۔’
BBCUrdu.com بشکریہ

body a {display:none;}