’کپڑوں کے ساتھ شرم اتار پھینکو‘: زمانہ قدیم میں سیکس کے بارے میں خواتین کی سوچ کیا تھی،تصویر کا ذریعہGetty Images

  • مصنف, ڈیزی ڈن
  • عہدہ, بی بی سی کلچر
  • ایک گھنٹہ قبل

ساتویں صدی قبل از مسیح میں یونانی شاعر سیمونائڈس نے کہا تھا کہ خواتین کی دس اقسام ہوتی ہیں۔ایسی عورتیں جو صفائی پر کھانے کو ترجیح دیتی ہیں، لومڑی جیسی عورتیں جن کا مشاہدہ اچھا ہوتا ہے، وہ عورتیں جو جنسی طور پر طاقتور ہوتی ہیں اور ایک سے زیادہ جنسی تعلق رکھتی ہیں، نافرمانی کرنے والی عورتیں، سمندری طوفان جیسی عورتیں، لالچی عورتیں، کاہل عورتیں، کشش سے عاری عورتیں اور اچھی قسم کی عورتیں جو محنتی ہوتی ہیں۔اس فہرست میں خواتین کا تذکرہ اس زمانے میں رائج جن عورت مخالف رویوں کے تحت کیا گیا، ان میں شاید وہ خواتین سب سے پراسرار ہیں جنھیں جنسی طور پر مضبوط اور ایک سے زیادہ تعلق قائم کرنے والی قرار دیا گیا۔قدیم دنیا کے تاریخی حوالوں سے ہمیں خواتین کی زندگی کی جھلک ملتی ہے۔ یونان میں عام طور پر خواتین گھر سے باہر پردہ کرتی تھیں جبکہ روم میں خواتین کی نقل و حرکت اور جائیداد والد یا شوہر کے ہاتھ میں ہوا کرتی تھی۔

تو کیا جنسی طور پر فعال عورت کا تصور مردانہ تخیل کی پیداوار تھی؟ یا زمانہ قدیم میں خواتین سیکس میں زیادہ دلچسپی لیا کرتی تھیں؟اگر ہم واقعی یہ جاننا چاہتے ہیں کہ اس زمانے میں خواتین سیکس کے بارے میں کیا سوچتی تھیں تو جیسے میں نے اپنی کتاب ’دی مسنگ تھریڈز‘، جو زمانہ قدیم میں خواتین کی تاریخ پر مبنی ہے، کی تحقیق کے دوران جانا ہمیں محنت کرنی ہو گی۔زمانہ قدیم کے جو تحریری حوالے موجود ہیں ان کی اکثریت ایسے مردوں نے لکھی تھی جن کے بارے میں گمان پایا جاتا ہے کہ وہ خواتین کی جنسی عادات سے متعلق مبالغہ آرائی کرنے کے عادی تھے۔ چند نے کسی عورت کی ذات کے بارے میں ایسی باتیں لکھیں جن سے وہ غیر انسانی یا روحانی شخصیت لگتی ہے۔ دوسری جانب چند خواتین کو جنسی طور پر ایسے دکھایا گیا جیسے ان کی کردار کشی مقصود تھی۔اگر ہم ان کی بتائی ہوئی کہاوتوں کو سچ تسلیم کر لیں تو ہم اس نتیجے پر پہنچیں گے کہ یا تو زمانہ قدیم کی سب خواتین پاک تھیں یا جنسی طور پر پاگل تھیں۔ خوش قسمتی سے کلاسیکی زمانے کی چند خواتین کے دل میں جھانکنا ممکن ہے جن کی مدد سے ہمیں خواتین کی سیکس سے متعلق سوچ کا پتہ چلتا ہے۔

عشق کا اعتراف

اگر ہم یونانی شعرا کے زمانے کی ہی بات کر لیں تو ہم سافو تک پہنچتے ہیں جنھوں نے ساتویں صدی قبل از مسیح میں لیزبوس کے جریزے پر شاعری کی۔ سافو نے ان جسمانی احساسات کا تذکرہ کیا ہے جن کا تجربہ ان کو کسی مرد سے باتیں کرتی خاتون کو دیکھ کر ہوا۔ ’دل کے دھڑکنے، رگوں میں دوڑتی آگ، نظر کی کمزوری، کانوں میں آوازیں، ٹھنڈا پسینہ اور کپکپاہٹ‘، یہ وہ تمام کیفیات ہیں جن سے ہر وہ شخص واقف ہے جو کسی کے سحر میں مبتلا ہوا ہو۔ایک اور نظم میں سافو نے بیان کیا کہ کیسے ایک عورت کو پھولوں کا ہار پہنایا جاتا ہے اور پھر آگے جا کر کیسے ایک نرم بستر پر اس کی ’پیاس‘ بھجائی جا سکتی ہے۔ یہ ایک ایسی عورت کا اعتراف ہے جو عشق کے احساسات کو سمجھتی ہے۔،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشنسافو نے ساتویں صدی قبل از مسیح میں لیزبوس کے جریزے پر شاعری کی
لیکن سافو کی نظموں کو مکمل طور پر درست طریقے سے پڑھنا ممکن نہیں۔ تاہم محققین نے ان میں مصنوعی مردانہ عضو کا حوالہ تلاش کیا ہے جن کو قدیم یونان میں اولیسبوئی کہا جاتا تھا اور انھیں تولیدی رسومات کے ساتھ ساتھ جنسی تسکین کے لیے بھی استعمال کیا جاتا تھا۔ روم میں بھی ایسی اشیا کا استعمال کیا جاتا تھا اور ان کے ساتھ اچھی قسمت کو جوڑا جاتا تھا۔زمانہ قدیم میں چند خواتین کو ایسی ہی اشیا کے ساتھ دفن بھی کیا گیا۔ روم کی عالمی شہرت سے پہلے کے زمانے کے آرٹ کے نمونوں اور مدفنوں سے نکلنے والے آثار قدیمہ میں ایسے مناظر دکھائے گئے ہیں جن میں خواتین اور مردوں کو ایک دوسرے کے جنسی اعضا کو چھوتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔

زمانہ قدیم میں جسم فروشی

پومپی میں موجود زمانہ قدیم کے کسی بھی قحبہ خانہ کا دورہ کریں تو علم ہو گا کہ سیکس کھلے عام نظر آنے والی چیز تھی۔ چھوٹے کمروں کی دیواریں، جہاں جسم کی تجارت ہوا کرتی تھی، عبارات سے بھرپور ہیں جو زیادہ تر مرد صارفین کی تحریر کردہ ہیں جن میں عورتوں کے نام لے کر ان کی کارکردگی کو بیان کیا گیا ہے۔تاریخی حوالوں اور تقاریر میں ایسی خواتین کا ذکر بھی موجود ہے۔ تیسری صدی قابل از مسیح میں اٹلی میں رہنے والی ایک خاتون شاعرہ نے آرٹ کے ایک نمونے کی تعریف کی اور یہ بھی بتایا کہ اس کے لیے ایک سیکس ورکر نے پیسے دیے تھے۔ یہ ایفروڈائٹ کا مجسمہ تھا جو سیکس اور محبت کی دیوی مانی جاتی تھی۔ یہ کوئی انہونی بات نہیں تھی کیوں کہ ایسی اور خواتین کا تذکرہ بھی تاریخی حوالوں میں موجود ہے جنھوں نے جسم فروشی سے حاصل ہونے والا پیسہ عوامی مقاصد کے لیے استعمال کیا۔ان خواتین کے لیے سیکس نہیں بلکہ وہ نادر موقع اہمیت رکھتا تھا جس کا استعمال کرتے ہوئے وہ اس بات کو یقینی بنا سکتیں کہ ان کی موت کے بعد انھیں یاد رکھا جائے۔ ان میں سے اکثریت کو علم تھا کہ گمنامی ان کا مقدر ہے۔

مرد مصنفین کی سوچ

اپنے تمام تر تعصبات کے باوجود مرد مصنفین سے ہمیں خواتین اور سیکس کے بارے میں دلچسپ معلومات ملتی ہیں۔ چار سو گیارہ قبل از مسیح میں کامیڈیئن ارسٹوفینز نے لسسٹراٹا نامی تماشہ کیا جس میں ایتھنز کی خواتین نے سیکس ہڑتال کر دی تاکہ شوہروں کو ایک جنگ کے دوران امن مذاکرات پر قائل کر سکیں۔ یہ جنگ ایتھنز اور سپارٹا کے درمیان حقیقی تنازع تھا جسے ’پیلوپونیزیئن‘ جنگ کہا جاتا ہے اور یہ تین دہائیوں تک پھیلی۔اس تماشے میں موجود خواتین کردار اپنی جنسی تسکین کھونے پر زیادہ خوش نہیں ہوتیں لیکن ایک ایسا لمحہ ہے جس میں یہ تماشہ سنجیدہ موڑ اختیار کر لیتا ہے اور خواتین کی سوچ سامنے آتی ہے۔اس تماشے کا مرکزی کردار لسسٹراٹا، جو ہڑتال کی منتظم ہوتی ہے، بتاتی ہے کہ جنگ کے دوران عورت پر کیا گرزتی ہے۔ نہ صرف ان کو جنگ پر بحث کرنے والے اجلاس میں شمولیت اختیار نہیں کرنے دی جاتی بلکہ یہ طویل جنگ شادی شدہ خواتین کے لیے قیامت خیز ثابت ہوتی ہے۔ غیر شادی شدہ خواتین کے لیے یہ جنگ اور بھی بری ہوتی ہے کیوں کہ ان کو شادی کرنے کا موقع ہی نہیں ملتا۔،تصویر کا ذریعہGetty Imagesمرکزی کردار اس بات کی نشان دہی کرتی ہے کہ مرد جنگ کے بعد لوٹ کر سفید بالوں کے باوجود دوبارہ شادی کر سکتے ہیں، لیکن کنواری خواتین اس دوران بوڑھی ہو جاتی ہیں اور انھیں شادی کے قابل نہیں سمجھا جاتا۔ یہ تحریر مرد اور عورت کے لیے جنگ کے تجربات میں تضادات اتنے درست طریقے سے پیش کرتی ہے کہ یہ تسلیم کرنے کو دل چاہتا ہے کہ یہ اس زمانے کی خواتین کے حقیقی جذبات کی ترجمانی ہے۔یونانی تحاریر میں بھی خواتین کے سیکس سے جڑے خدشات کا اظہار ملتا ہے۔ سفوکلز، جو ’اوڈیپس ریکس‘ تحریر کی وجہ سے مشہور ہوا، کے کھو جانے والے ایک تماشے کی خاتون کردار بتاتی ہے کہ کنواری عورت کے لیے شادی کا تجربہ کیسا ہوتا ہے۔اس زمانے میں متمول طبقات میں شادی طے کی جاتی تھی اور کسی بھی عورت کے لیے سیکس کا پہلا تجربہ بہت اچھا نہیں ہوتا تھا۔

زمانہ قدیم میں سیکس کی تجاویز

اس زمانے کی خواتین نے کسی حد تک اپنی سوچ کو تحریر کی شکل دی۔ تھیانو نامی یونانی فلسفی خاتون سے منسوب ایک خط میں، جن کے بارے میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ وہ فیثاغورث کی اہلیہ تھیں، اپنی سہیلی یوریڈائس کو مشورہ دیتی ہیں کہ ’ایک عورت کو اپنی شرم کپڑوں کے ساتھ اتار پھینکنی چاہیے جب وہ شوہر کے بستر میں داخل ہو۔ جب وہ دوبارہ کھڑی ہو تو وہ دونوں کو واپس پہن سکتی ہے۔‘تھیانو کا یہ خط شاید مصدقہ نہیں ہے۔ تاہم جدید دور میں بھی خواتین ایک دوسرے سے جو باتیں کرتی ہیں، اس خط میں موجود تحریر ایسی ہی باتوں کا احاطہ کرتی ہے۔،تصویر کا ذریعہBRITISH MUSEUMیونانی شاعرہ الیفینٹس مبینہ طور پر خواتین کو سیکس کے بارے میں مشورے دینے میں اتنی دلچسپی رکھتی تھیں کہ انھوں نے اس موضوع پر کتابیں تحریر کیں۔ افسوس ناک امر یہ ہے کہ ان کی کسی کتاب کا آج نام و نشان نہیں ملتا لیکن ان کا ذکر رومی شاعر مارشل اور رومی مصنف سیٹونیئس نے کیا ہے جن کا دعوی ہے کہ جنسی بھوک کے لیے جانے جانے والے رومی شہنشاہ ٹائبیریئس الیفینٹس کی کتابیں اپنے پاس رکھتے تھے۔دیگر مرد مصنفین جب دیگر خواتین کا حوالہ دیتے ہیں تو وہ سیکس کے بجائے محبت کا اظہار کرتی ہیں۔ لیزبیا نامی کیٹیلس کی محبوبہ ان کو بتاتی ہیں کہ ’جو بات ایک عورت اپنے محبوب سے کہتی ہے انھیں ہوا اور بہتے ہوئے پانی پر لکھنا چاہیے۔‘
BBCUrdu.com بشکریہ

body a {display:none;}