جمعرات 30؍ربیع الاول 1444ھ27؍اکتوبر 2022ء

کوویڈ اور سیلاب سے نقصانات کے باوجود قرضے نہیں تجارت کےخواہشمند ہیں، نوید قمر

وزیر تجارت سید نوید قمر نے کہا ہے کہ پہلے کوویڈ اور اب سیلاب نے پاکستان کی معیشت کو بہت بڑا نقصان پہنچایا ہے۔ لیکن اس کے باوجود ہم قرضے نہیں بلکہ تجارت کے ذریعے اپنے مسائل حل کرنے کے خواہشمند ہیں۔

ان خیالات کا اظہار انہوں نے آج یورپی پارلیمنٹ میں پاکستانی میڈیا سے بات کرتے ہوئے کیا۔ اس موقع پر ان کے ہمراہ یورپی یونین، بیلجیئم اور لکسمبرگ کیلئے پاکستانی سفیر ڈاکٹر اسد مجید خان بھی موجود تھے۔

انہوں نے کہاکہ یورپی یونین ہمارا ایک بڑا تجارتی پارٹنر ہے۔ اس کی جانب سے جاری کردہ جی ایس پی پلس اسکیم دونوں فریقین کیلئے فائدہ مند ثابت ہوئی ہے۔

اسی حوالے سے پاکستان 2023 میں آنے والی اسکیم میں بھی شمولیت کا خواہشمند ہے۔ کیونکہ اس سے ہماری معیشت ہی کو نہیں بلکہ ہمارے معاشرے کو بھی مسلسل فائدہ پہنچ رہا ہے۔

سید نوید قمر نے بتایا کہ جی ایس پی پلس کے ساتھ جڑے ہوئے کنونشنز پر عملدرآمد کے دوران پاکستان میں قانون سازی کا عمل بھی جاری ہے۔ موجودہ حکومت کے دوران مسنگ پرسنز اور کسٹوڈین ٹارچر پر قوانین پاس ہوئے ہیں۔اس سے پاکستان کے متعلق ایک انسان دوست معاشرے کے تاثر کو تقویت ملتی ہے۔ یہ کام ہم اپنے لیے خود کر رہے ہیں۔ اسی لیے پاکستان چاہتا ہے کہ وہ یورپ کے ساتھ تجارتی روابط میں مزید اضافہ کرے۔

انہوں نے حالیہ آنے والے سیلاب میں یورپی یونین کی جانب سے کی گئی انسانی امداد پر ان کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ یہ پہلا خطہ ہے جس نے سب سے زیادہ اور سب سے پہلے پاکستان کی مدد کی۔

لیکن اس کے ساتھ ہی ہم دنیا کو یہ بھی باور کروا رہے ہیں کہ پاکستان دوسروں کی ترقی کے نتیجے میں ہونے والی ماحولیاتی تباہی کا شکار ہوا ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ ہماری معیشت کو درپیش مسائل کے حل کیلئے تعاون کو جاری رکھا جائے۔

وزیر تجارت نے کہا کہ جب سے موجودہ حکومت میں انہوں نے عہدہ سنبھالا ہے، یہ یورپی دارالحکومت برسلز کا ان کا دوسرا دورہ ہے۔ اس دورے میں وہ یورپی کمیشن کے چار کمشنرز کے علاوہ 2 نائب صدور سمیت یورپی پارلیمنٹ کے کئی اہم ممبران پارلیمنٹ سے ملے ہیں۔

ان ملاقاتوں میں پاکستان اپنا موقف احسن طریقے سے ان کے سامنے رکھ رہا ہے۔ ہمیں امید ہے کہ نئے جی ایس پی پلس کیلئے بھی پاکستان یورپ کا تعاون حاصل کر پائے گا۔

اس موقع پر ان کے ہمراہ دیگر آفیشلز بھی موجود تھے۔

بشکریہ جنگ
You might also like

Comments are closed.