بدھ14؍شوال المکرم 1442ھ26؍مئی 2021ء

کووڈ کے دور میں سرمائی اولمپکس، سٹیڈیم میں بطور تماشائی کھیل دیکھنے کا لطف کیا ہوتا ہے؟

بیجنگ اولمپکس 2022: کووڈ کے دور میں سرمائی اولمپکس، سٹیڈیم میں بطور تماشائی کھیل دیکھنے کا لطف کیا ہوتا ہے؟

  • سٹیفن میکڈونل
  • بی بی سی نیوز، بیجنگ

Spectators look on during the Men Single Skating Free Skating on day six of the Beijing 2022 Winter Olympic Games

،تصویر کا ذریعہGetty Images

سنہ 2021 کے موسمِ گرما میں کووڈ کی وبا کے دوران منعقد ہونے والے گرمائی ٹوکیو اولمپکس کے برعکس بیجنگ نے سرمائی اولمکپس کے لیے محض چند تماشائیوں کو سٹیڈیم سٹینڈ میں بٹھانے کا ایک طریقہ تلاش کیا ہے۔ لیکن وہ یہ کیسے کر رہے ہیں؟

لاًائن

،تصویر کا ذریعہNot Specified

تیز رفتاری سے سکیٹنگ کرتے ہوئے کھلاڑی ہوا میں تیرتے ہوئے محسوس ہوتے ہیں اور یہ جلد از جلد اس دوڑ کی اختتامی لائن کو ہاتھ لگانے کے لیے کوشاں ہیں۔ جیت کا سہرا ان میں سے کسی ایک کے ہی سر پر سجے گا۔

وہ دو دو کے گروپ میں مقابلہ کرتے ہوئے شائقین کے ایک چھوٹے سے گروپ کے پاس سے گزرتے ہیں۔ اس گروپ میں یونیورسٹی کی دو طلبا بھی شامل ہیں جو چینی جھنڈا اٹھائے ہوئے ہیں۔ یہ نوجوان خواتین سب کے لیے تالیاں بجاتی ہیں مگر ان میچوں میں زیادہ پرجوش ہوتی ہیں جن میں ان کے اپنے ہم وطن مقابلہ کر رہے ہوں۔

ایک نے مجھے بتایا ’ہم سکیٹنگ کے بارے میں کچھ نہیں جانتے۔ ہم یہاں صرف کھلاڑیوں کو دیکھنے اور ان کی حوصلہ افزائی کرنے کے لیے آئے ہیں۔ یہ بہت اچھا لگتا ہے۔‘

ان کے پیچھے چند قطاروں میں ایک سرکاری ادارے کے ملازمین ساتھ ساتھ بیٹھے ہیں۔ ان میں سے ایک نوجوان عورت خوشی سے جھنڈا لہرا رہی ہے جس پر اولمپکس کا نشان بنا ہوا ہے۔ وہ کہتی ہیں ’ہم سب ایک ہی کمپنی سے ہیں، مجھے خوشی ہے کہ مجھے اولمپکس میں ایک ایونٹ دیکھنے کا موقع ملا۔ یہاں آ کر بہت اچھا لگا۔‘

Spectators look on during the Men Single Skating Free Skating on day six of the Beijing 2022 Winter Olympic Games

،تصویر کا ذریعہGetty Images

یہ وہ خوش نصیب شائقین ہیں جنھیں سٹیڈیم آ کر اولمپکس دیکھنے دعوت دی گئی ہے۔ چمکتے ہوئے نئے سٹیڈیم کا کچھ حصہ ایسے گروپوں کے لیے مختص کیا گیا ہے۔

سٹیڈیم کو مختلف حصوں میں اس طرح تقسیم کیا گیا ہے کہ سٹیڈیم آ کر میچ دیکھنے والے دو ببل زونز میں موجود افراد کے ساتھ رابطے نہ آئیں۔ ان میں سے ایک ببل زون میں مقابلہ کرنے والی ٹیمیں اور دوسرے میں میڈیا ہے۔

ان اولمپک مقابلوں کے لیے بطور تماشائی منتخب کیے جانے کے لیے ضروری ہے کہ آپ چین کی کمیونسٹ پارٹی کے رکن، کسی ریاستی کمپنی کے ملازم، یا طلبہ کے گروہ سے تعلق رکھتے ہوں۔ کھیلوں کے ٹکٹ، سپانسرز اور سفارت کاروں کے ساتھ مقامی حکومت کے اہلکار بھی یہاں موجود ہیں۔

یہ افراد بس کے ذریعے آتے ہیں اور ان پر کچھ شرائط کی پابندی کرنا لازم ہے۔

اس سارے عمل کے منصوبہ سازوں نے فیصلہ کیا کہ عام عوام کی نسبت ایسے گروپوں پر بھروسہ کیا جا سکتا ہے۔ اس کے پیچھے سوچ یہ ہے کہ کووڈ وائرس کے پھیلاؤ پر قابو پاتے ہوئے کچھ تماشائیوں کو سٹیڈیم تک لایا جا سکتا ہے۔ چینی حکومت اب بھی سرکاری طور پر ’زیرو کووڈ‘ یا وائرس کے مکمل خاتمے کی حکمت عملی پر عمل پیرا ہے۔

اس کے بعد کچھ ایسے شائقین بھی ہیں جنھیں ان بہترین کھلاڑیوں کو مقابلہ کرتے ہوئے دیکھنے کی اجازت دی جا رہی ہے اور وہ ہیں غیر ملکی نامہ نگار۔ بیجنگ میں مقیم صحافیوں کو دوسرے تماشائیوں کی طرح کی شرائط کے ساتھ اندر جانے کی اجازت دی گئی ہے۔

میں ان میں سے ایک ہوں۔ ہمیں کسی بھی تقریب سے 96 گھنٹے پہلے کووڈ ٹیسٹ اور 24 گھنٹے پہلے دوسرا ٹیسٹ بھی کروانا پڑتا ہے۔ قواعد کے مطابق، اس کے تین دن بعد تیسرا ٹیسٹ اور ایک ہفتے بعد چوتھا ٹیسٹ لیا جاتا ہے۔

Stephen Mcdonell
،تصویر کا کیپشن

بی بی سی کے سٹیفن میکڈونل کووڈ کی جانچ کراتے ہوئے

سٹیڈیم کے اندر ہمیں ہر وقت این 95 یا کے این 95 ماسک پہننا ہے۔ جن افراد کو یہ مقابلے دیکھنے کی اجازت دی گئی ہے ان کے پاس ابتدائی ویکسینیشن کے علاوہ بوسٹر شاٹ کا سرٹیفکیٹ بھی ہونا چاہیے۔

یہ بھی پڑھیے

ہمیں بھی ایک بس میں بٹھا کر ایک مخصوص جگہ تک پہنچایا گیا جہاں سے ہم سب کو سٹیڈیم میں داخلے کے لیے لے جایا گیا۔ مسکراتے ہوئے رضاکاروں کی ایک چھوٹی سی فوج کی مدد سے ایک مخصوص راستے کے ذریعے ہم سٹیڈیم تک پہنچے اور مخصوص دروازوں سے داخل ہوئے جو صرف ہمیں ہمارے لیے مختص حصے کی طرف لے جاتے ہیں۔

smiling volunteers
،تصویر کا کیپشن

سٹیڈیم کے راستے میں رضاکاروں کی قطار

ان دنوں چین میں عملی طور پر کوئی بھی کسی چیز کے لیے نقد رقم استعمال نہیں کرتا ہے۔ اس کے بجائے، لوگ موبائل ادائیگی کی خدمات جیسے ٹینسینٹ کا وی چیٹ پے استعمال کرتے ہیں۔ بہر حال، جن مقامات پر اولمپکس ہو رہے ہین وہاں ادائیگی کی یہ شکل دستیاب نہیں ہے۔ میرے خیال سے یہ سپانسرشپ جیسی کوئی چیز ہے۔

میں ڈرنک خریدنے گیا تو مجھ سے پوچھا گیا کہ کیا آپ کے پاس ویزا کارڈ ہے؟ میں نے جواب دیا، ‘ارے نہیں۔’ دوسرا آپشن نقد رقم ہے۔ مجھے یاد نہیں ہے کہ میں نے آخری بار اس طرح سے یہاں کب کچھ خریدا تھا۔ یہ ایک عجیب سا احساس ہے۔ اور پھر مسئلہ یہ ہے کہ ان کے پاس کھلے پیسہ نہیں ہیں۔

لہذا کاؤنٹر کے پیچھے کام کرنے والا اپنے ویزا کارڈ سے میری ڈرنک کی ادائیگی کرتا ہے، پھر میں اسے اپنے فون سے وی چیٹ پے کے ذریعے رقم منتقل کرتا ہوں۔ اس طرح ہماری مشکل حل ہو گئی۔

سب کے لیے تالیاں

سٹیڈیم کی عمارت میں ایک حیرت انگیز ڈیزائن ہے جس میں روشنی کے ذریعے چراغاں ہے اور وہ ہر دم چکمتے اور رنگ بدلتے رہتے ہیں۔ اندر کی جانب سے یہ چمکدار اور نیا ہے۔

ایسے میں ہمیں استعمال کرنے کے لیے ڈسپوزایبل دھوپ کے چشموں کا ایک سیٹ بھی دیا جاتا ہے تاکہ اگر برف سے ٹکرا کر نکلنے والی روشنی کہیں کسی کے لیے ناقابل برداشت ہو۔ تعداد اور سماجی دوری کی پابندیوں کے ساتھ، مجموعی طور پر شائقین شاید نصف سے بھی کم نشستیں بھر رہے ہیں۔

لوگوں کا مزاج دوستانہ ہے اور شاید وہ معمول کی طرح کسی ایک ملک کے کھلاڑیوں کے لیے نہیں بلکہ وہاں پر تمام ایتھلیٹس کی ہمت افزائی کی جا رہی ہے۔

Short Track Speed Skating - Beijing 2022 Winter Olympics Day 1

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

سکیٹنگ

دو دن بعد مردوں کے فگر اسکیٹنگ مقابلوں میں بھی وہی کہانی نظر آتی ہے۔

جو بھی گرتا ہے اسے چینی زبان میں ‘جیا یو’ کہہ کر حوصلہ دیا جاتا۔ اس کا لفظی ترجمہ ‘تیل ڈالیں’ ہوتا ہے لیکن حقیقت میں اس کا مطلب ‘چلو اٹھو شاباش’ جیسا کچھ ہے۔

سب سے زیادہ جوش کسی چینی اسکیٹر کے لیے نہیں بلکہ جاپان کے یوزورو ہانیو کے لیے ہے جس کے یہاں گیمز شروع ہونے سے پہلے ہی مداحوں کی بڑی تعداد موجود ہے۔ یہ ایک جاپانی سپورٹس سٹار کے لیے بہت ہی غیر معمولی بات ہے۔

بہرحال سپیڈ اسکیٹنگ میں نیدرلینڈز کو باقیوں کو پیچھے چھوڑنے کے لیے کسی قسم کی حوصلہ افزائی کی ضرورت نہیں ہے۔

سپیڈ اسکیٹنگ کو دیکھنے والے نئے لوگوں کا ایک ہجوم ہالینڈ کے بہترین سکیٹر اور فاتح کے پوڈیم پر چڑھنے کو تعریفی انداز میں سر ہلاتے ہوئے دیکھتا ہے اور اس دوران ایک دوسرے کی طرف اشارہ اور تبصرہ کرتے ہیں۔

یہ ایک خوبصورت شب ہے لیکن سٹینڈ کے خالی حصوں کو دیکھ کر آپ کے دل میں یہ خواہش ہوتی ہے کہ کاش یہ بھرے ہوتے۔

کووڈ کے دور میں اس کی توقع کی جانی چاہیے کیونکہ سرمائی اولمپکس کوئی ہر ہفتے تو نہیں آتے ہیں۔

بالکل اسی طرح جیسے پچھلے سال ٹوکیو میں مایوسی کا عالم تھا لیکن یہاں یہ صرف ‘آہ۔۔۔ اے کاش’ کے ساتھ قدرے بہتر ہے۔

ٹھیک ہے، شاید بیجنگ کو مستقبل میں کوئی ایسا موقع پھر سے فراہم ہو؟

BBCUrdu.com بشکریہ
You might also like

Comments are closed.