کووڈ پابندیوں سے تنگ چینی باشندوں کا امریکہ پہنچنے کے لیے خطرناک سفر جس پر ’آٹھ ہزار ڈالر لگے‘
- مصنف, مینگیو ڈانگ
- عہدہ, کیلیفورنیا
تارکین وطن گھنے جنگلوں سے گزرتے ہوئے امریکہ کی سرحد پر پہنچتے ہیں
ہو سکتا ہے کہ چین زیرو کووڈ پالیسی کو ترک کر کے پابندیوں میں نرمی کر رہا ہو۔ لیکن اس کی پالیسیوں نے بہت سے چینی شہریوں کو بہتر مستقبل کی امید پر ملک چھوڑنے پر مجبور کر دیا ہے۔
سن جنکائی کا خاندان اپنے آبائی گھر سے تقریباً 15 ہزار کلومیٹر دور وسطی امریکہ کے جنگلوں سے گزر کر امریکہ پہنچنے کی کوشش کر رہا ہے۔
اپنے تین دن کے سفر کے بعد اس فیملی نے، یہ سوچ کر کہ وہ رات تک جنگل سے باہر نکل چکے ہوں گے، بوجھ ہلکا کرنے کے لیے اپنا کیمپنگ گیئر پھینک دیا۔
اُن کی امیدوں کے برعکس وہ شدید بارش کی وجہ سے جنگل میں پھنس گئے۔ اس رات، سن جنکائی، ان کی بیوی اور تین بچوں نے ایک چھوٹے سے خیمے میں گھس کر گزاری جو انھیں راستے میں ملا تھا جسے ممکنہ طور پر ان جیسے کسی تارکین وطن نے پھینک دیا تھا۔
سن کہتے ہیں ’خوش قسمتی سے ہم میں سے کوئی بھی بیمار نہیں ہوا۔‘
یہ چین سے امریکہ تک کے ان کے سفر کے سب سے خطرناک اقدامات میں سے ایک تھا۔
جنگلوں کا خطرناک راستہ
34 سالہ سن، ان کی اہلیہ اور ان کا سب سے چھوٹا بچہ سال کا زیادہ تر حصہ چین کے ساحل پر گزارا کرتے تھے، جہاں ملازمتیں وافر مقدار میں تھیں۔
ان کے دوسرے دو بچے 400 میل دور اپنے دادا دادی کے ساتھ مشرقی صوبے جیانگسی میں رہتے تھے کیونکہ ان کے آبائی شہر سے باہر سکول میں داخلہ لینا مشکل تھا۔
لیکن جب کووڈ-19 کی سخت پابندیوں اور مطلق العنانیت کی بڑھتی ہوئی لہر نے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تو چینی معیشت نے اپنی رفتار کھو دی۔ سن نے اپنے خاندان کی خاطر کسی دوسرے ملک جانے کے راستے تلاش کرنے شروع کر دیے۔
سن کہتے ہیں ’چین پیچھے کی طرف جا رہا ہے، میری بیوی اور میں بچوں کے لیے ایک بہتر مستقبل چاہتے ہیں۔‘
سن کی چینی میسجنگ پلیٹ فارم ’وی چیٹ‘ پر ایک خاتون سے ملاقات ہوئی جو جنوبی امریکہ کے جنگلوں سے ہوتے ہوئے امریکہ پہنچ چکی ہیں۔
سن نے سوچا کہ ’اگر وہ ایسا کر سکتی ہے، تو ہم کیوں نہیں کر سکتے؟‘
سن اگست میں اپنے اہل خانہ کے ساتھ ایکواڈور جانے والے طیارے میں سوار ہوئے اور امریکہ جانے کے لیے دنیا کے خطرناک ترین راستوں میں سے ایک پر روانہ ہوئے۔
سن کو اپنے سفر میں آگے بڑھنے کے لیے کولمبیا کے شمال مغربی کنارے کو وسطی امریکہ سے ملانے والی ڈیرین گیپ کے گھنے جنگلوں سے گزرنا ہو گا جہاں انھیں کمر تک گہری ندیوں سے گزرنا ہو گا۔
راستے میں انھیں ڈاکوؤں اور منشیات فروشوں کے حملوں کا بھی سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
ان سب مشکلات کے باوجود اقتصادی مشکلات اور علاقائی تنازعات میں پھنسے لوگ اس راستے کا انتخاب کرتے ہیں اور جنوری سے دنیا بھر سے دو لاکھ سے زیادہ افراد نے دارین گیپ کو عبور کیا ہے. یہاں سے گزرنے والے زیادہ تر تارکین وطن کا تعلق جنوبی امریکہ، افریقہ اور ایشیائی ممالک سے ہے۔
پیدل امریکہ پہنچنے کا راستہ
چینی تارکین وطن کی تعداد کم ہے لیکن اب ان میں اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔ پاناما کی حکومت کے مطابق سنہ 2022 میں چین سے تعلق رکھنے والے کم از کم 1300 افراد نے ڈیرین گیپ عبور کیا جو گزشتہ دہائی کے مقابلے میں تقریباً تین گنا زیادہ ہے۔
اگرچہ بہت سے لوگوں کو امریکہ پہنچنے کے لیے اس راستے کا علم تھا لیکن جب کچھ چینی سوشل پلیٹ فارمز پر اس راستے کے بارے میں باتیں سامنے آئیں تو بہت سے چینی باشندے اس کے بارے میں کچھ نہیں جانتے تھے۔
پھر، جب اس سال اپریل میں شنگھائی کا لاک ڈاؤن شروع ہوا، تو چین میں ملک سے بھاگنے کے راستے تلاش کیے جانے لگے۔ بہت سے لوگ ملک سے بھاگنے کی وجہ کووڈ کی ظالمانہ پالیسیاں بتاتے ہیں۔
زیادہ تر چینی تعلیم اور سرمایہ کاری کے ذریعے غیر ملکی رہائش حاصل کرنے کی کوشش کر رہے تھے لیکن سن فیملی جیسے لوگ، جن کے پاس قانونی طور پر ہجرت کرنے کے وسائل موجود نہیں تھے، وہ خطرناک سفر کرنے پر مجبور ہیں۔
انہوں نے جو ڈیرین گیپ راستہ اختیار کیا تھا وہ چینی سوشل پلیٹ فارمز پر ’زوکسیان‘ کے نام سے جانا جاتا ہے جس کا مطلب ہے پیدل چلنے والے راستے۔
ٹوئٹر، یوٹیوب اور چینی ایپس جیسے ڈوین اور ژیاؤہونگشو پر زوکسیان کی تلاش کی ہزاروں پوسٹس ملتی ہیں۔
کچھ چینی تارکین وطن نے وی چیٹ پر سنسرشپ سے بچنے کے لیے ٹیلی گرام پر چیٹ گروپ تشکیل دیے۔
جن لوگوں نے امریکہ کا یہ سفر مکمل کیا تھا انہوں نے سفر کے خواہشمند لوگوں کو مشورے دیے جیسے کہاں سے کرنسی بدلنی ہے، امیگریشن سے بچنے کا طریقہ ، اور برساتی جنگلات سے گزرنے کے طریقے بتائے ہیں۔
ایک مسافر کا مشورہ ہے کہ ’ہمیشہ اپنے ہوٹل کی بکنگ اور واپسی کی پروازوں کی منصوبہ بندی کے حوالے سے محتاط رہیں۔‘
ایک اور نے لکھا ’آپ کو اپنے پورے گھر کو پیک کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ ایک نے رکسیک کی تصویر کے ساتھ لکھا ’اگر وہ اس کے ساتھ زندہ رہ سکتے ہیں، تو آپ بھی زندہ رہ سکتے ہیں۔‘
شمالی امریکہ میں چینی نقل مکانی کے بارے میں لکھنے والے فری لانس محقق الیکسس ژو نے کہا کہ زوکسیان کی حالیہ مقبولیت اس بات کی تصدیق کرتی ہے کہ کچھ تارکین وطن چین میں بڑھتی ہوئی مایوسی کا شکار ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وبائی مرض کے بعد سے ایک اوسط چینی شخص کے لیے میکسیکو یا وسطی امریکی ممالک سے ویزا حاصل کرنا بہت مشکل رہا ہے۔
’زوکسیان ان کے لیے امریکہ تک پہنچنے کا واحد راستہ ہوسکتا ہے۔‘
سڑک پر
جب سن چین سے روانہ ہوئے تو انھوں نے اپنے دوسرے ہم وطنوں کی طرح خاندان کے پاسپورٹ اور بورڈنگ پاسز کی تصویر سوشل میڈیا پر شیئر کیں۔
انہوں نے چینی زبان میں لکھا کہ ’آخر کار، ہمارے خاندان نے اسے ممکن بنا دیا ہے۔‘ انھوں نے مزید لکھا ’میرے لیے نیک خواہشات کا اظہار کریں۔‘
وہ اپنے سفر کا مسلسل اپ ڈیٹ دیتے رہے۔ وہ مکاؤ سے تھائی لینڈ پہنچے۔ انھوں نے ترکی پہنچنے سے پہلے تائیوان کے دارالحکومت تائی پے میں مختصر قیام کیا۔
وہ بالآخر ایکواڈور کے شہر کوئٹو میں اترے جو خطے میں واحد ایسا ملک ہے جہاں چینی سیاحوں کو ویزے کی ضرورت نہیں۔
یہاں سے سن کی اپ ڈیٹس اس وقت زیادہ سنگین رخ اختیار کرتی ہیں جب وہ دنیا بھر سے تعلق رکھنے والے تارکین وطن کے ہمراہ کشتی کے لیے ڈارین گیپ میں سفر شروع کرتے ہیں۔ اس کے بعد وہ ایک ویگن میں سوار ہوتے ہیں جسے خچر کھینچ رہا ہے، اور جنگل کی جانب روانہ ہو جاتے ہیں۔
ایک کلپ میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ایک تارکین وطن نے سن کے چھ سالہ بیٹے کا ہاتھ تھاما ہوا ہے، اس وقت ان کا گروپ جنگل میں کیچڑ آلود پگڈنڈیوں سے گزر رہا تھا۔ ایک دوسری ویڈیو میں سن میکسیکو کے حکام کی جانب سے حراست میں لیے جانے کے بعد اپنے بچوں کو تسلی دے رہے ہیں۔
لیکن راستے کے سب سے زیادہ مشکل حصوں کو اکثر کیمرے میں محفوظ نہیں کیا گیا ہے۔ ندی سے گزرتے ہوئے سن کی بیوی تیز لہروں کی وجہ سے پھسل گئیں۔
سن نے کہا کہ اگر جنوبی امریکہ کے تین تارکین وطن مدد نہ کرتے تو وہ یقینی طور پر اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتیں۔
انہوں نے کہا کہ زبان کی دشواریوں کی وجہ سے چینی اور جنوبی امریکیوں نے زیادہ بات نہیں کی۔ ’لیکن ہم سب اس میں ایک ساتھ تھے۔‘
سن کا خاندان بالآخر کیلیفورنیا پہنچ گیا، جہاں سن کو چینی تارکین وطن کے نیٹ ورکس کے ذریعے ایک گودام میں کام کرنے کی نوکری مل گئی۔ وہ بتاتے ہیں کہ چین سے امریکہ پہنچنے میں تین ماہ لگے۔
30 سالہ وینتاو کو مشرقی چین سے اپنی زندگی سمیٹنے میں تین ہفتے لگے، جہاں انہوں نے مارشل آرٹس پڑھانے اور کمپیوٹر کو ٹھیک کرنے جیسے چھوٹے موٹے کام کیے تھے۔
مسٹر سن کی طرح چین کی زیرو کووڈ پالیسی اور سیاسی کنٹرول کو سخت کرنے کا مطلب یہ تھا کہ انہیں وہاں اپنے لیے کوئی مستقبل نظر نہیں آتا تھا۔
مسٹر وینتاؤ نے چین میں حکام کی جانب اپنے خاندان کو پریشان کیے جانے کے خوف سے صرف اپنا پہلا نام دیا.
وینتاؤ نے کہا کہ جب چین نے صدارتی مدت کی حد ختم کر دی جس سے شی جن پنگ کے لیے غیر معینہ مدت تک ملک پر حکومت کرنے کی راہ ہموار ہو گئی تو انہوں نے ملک چھوڑنے کا فیصلہ کر لیا۔
اکتوبر میں صدر شی جن پنگ نے تیسری مدت کے لیے کامیابی حاصل کی تھی۔
صدر شی جن پنگ کے دور میں بیجنگ نے معیشت پر کنٹرول سخت کر دیا ہے اور نجی شعبے پر سخت قوانین نافذ کر دیے ہیں۔ انہوں نے ایک سخت گیر کووڈ پالیسی بھی شروع کی ہے جس کا مطلب ہے کہ کچھ لوگ اپنے پڑوس یا کبھی کبھی اپنے اپارٹمنٹ کی عمارت سے بھی باہر نہیں نکل سکتے تھے۔
نومبر میں چین کے کئی شہروں میں مظاہرے پھوٹ پڑے تھے جن میں سے کچھ نے صدر شی جن پنگ کو عہدے سے ہٹانے کا مطالبہ کیا تھا۔ بیجنگ نے کچھ انتہائی غیر مقبول اقدامات میں نرمی کرکے جواب دیا۔
لیکن وینتاؤ جیسے بہت سے لوگوں کو تشویش ہے کہ اگر آمرانہ رجحان جاری رہا تو ملک معاشی ترقی برقرار نہیں رہے گی۔
وہ امریکہ میں ایک نئی زندگی کا آغاز کرنا چاہتے تھے، لیکن قانونی طور پر ایسا کرنے کے قابل ہونا ایک طویل سفر ہوگا کیونکہ وبائی امراض اور چین امریکہ کے بگڑتے ہوئے سیاسی تعلقات کی وجہ چینی شہریوں امریکی ویزے کے اجراء میں ڈرامائی کمی ہو چکی ہے۔
سال 2021 میں امریکہ نے چین سے 79 فیصد سیاحتی ویزا کی درخواستیں مسترد کر دی تھیں۔
لہذا اس کے بجائے ، وینتاؤ نے ایکواڈور کےشہر کوئٹو پہنچنے سے پہلے شنگھائی سے یورپ کے لیے پرواز کی ۔
اس کے بعد انہوں نے بس اور کشتی کے ذریعے ایک ہزار میل کا سفر طے کیا اور پاناما کی سرحد سے متصل کولمبیا کے قصبے اکندی پہنچے۔ وہاں سے، انہوں نے تین دیگر چینی مردوں کے ساتھ ڈارین گیپ کے ذریعے سات دن تک ٹریکنگ کی، جن سے وہ سڑک پر ملے، یہاں تک کہ وہ دنیا بھر سے سینکڑوں تارکین وطن کے ساتھ جنگل پناہ گزین کیمپ تک پہنچ گئے۔
آخر کار وینتاؤ کیلیفورنیا پہنچ گئے۔ اس پورے سفر پران کے تقریباً 8000 ڈالر خرچ ہوئے ۔
چینی تارکین وطن نے دعویٰ کیا ہے کہ دوسروں کے مقابلے میں ان سے زیادہ رقم کا تقاضہ کیا جاتا ہے۔
نئی زندگی کے لیے ایک طویل سفر
اس اسٹوری کے لیے بی بی سی سے بات کرنے والے درجن بھر تارکین وطن میں سے بہت سے لوگوں کا کہنا تھا کہ کووڈ کی وبا کے دوران چین سے باہر نکلنا بہت مشکل ہو چکا ہے۔
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق چین نے کووڈ سے نمٹنے کے لیے سخت سرحدی کنٹرول نافذ کیا ہے اور 2019 کے مقابلے میں 2021 میں بین الاقوامی مسافر پروازوں میں 97 فیصد کمی کی ہے۔
چین نے "غیر ضروری وجوہات” کی بنا پر پاسپورٹ کا اجرا بھی روک دیا ہے۔
کچھ لوگ پاسپورٹ کے حصول کے لیے مشکوک ایجنسیوں سے بیرون ملک سے ملازمت کی پیش کش یا سکول میں داخلے کے خطوط حاصل کرنے کے لیے مدد لیتے ہیں۔
اگرچہ چین نے حالیہ ہفتوں میں کووڈ پابندیوں میں نرمی کے لیے اقدامات اٹھائے ہیں ، لیکن وینتاؤ نے کہا کہ اس سے ان کے ملک چھوڑنے کے فیصلے میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی۔
وینتاو نے کہا : ’چاہے صفر کووڈ اپنی جگہ پر رہے یا نہ رہے، بنیادی مسائل تبدیل نہیں ہوئے ہیں۔ چین میں، مجھے امید نظر نہیں آتی.‘
چینی حکومت نے بی بی سی کی جانب سے تبصرہ کرنے کی درخواست کا جواب نہیں دیا، لیکن اس سے قبل زوکسیان کی مقبولیت کے بارے میں پوچھے جانے پر ملک کی پالیسیوں کا دفاع کیا ہے۔
بی بی سی نے جن دیگر تارکین وطن سے بات کی، وہ بھی وینتاؤ والے خدشات کا اظہار کرتے ہیں۔
امریکی سرزمین پر پہنچنے والے چینی تارکین وطن سیاسی یا مذہبی بنیادوں پر پناہ کی درخواست دیتے تھے۔
امیگریشن سسٹم میں ایسی درخواستوں کی بڑی تعداد موجود ہونے کی وجہ سے ان کی درخواستوں پر فیصلوں میں برسوں لگ سکتے ہیں۔
وہ اس دوران انتظار کرتے ہیں اور زندہ رہنے کے لیے نوکریاں تلاش کرتے ہیں۔
زیادہ تر چینی کیلیفورنیا یا نیویارک میں آباد ہوئے۔ وہ ملازمتوں کے حصول اور اچھی قانونی نمائندگی کے چینی کمیونٹی میں شامل ہوتے ہیں۔
وینتاؤ نے فریمونٹ، کیلیفورنیا کا انتخاب کیا۔ انھوں 1,900 ڈالر کے عوض 170000 میل چلی ہوئی 2003 ماڈل کمیری گاڑی خریدی ہے۔ وہ دوسرے تارکین وطن کے ساتھ ایک گھر میں رہ رہا ہے۔
وینتاؤ پیر سے ہفتہ تک تقریبا سات بجے اٹھتے ہیں، اور ایک چینی تعمیراتی ٹیم کے ساتھ کام کرنے کے لیے سان ہوزے جاتے ہیں۔ ایک دن میں 160 ڈالر کماتے ہیں۔ اتوار کی صبح وہ گرجا گھر جاتا ہے۔
وینتاؤ معروف ٹی وی سیریز ’ییلو اسٹون‘ کے پرستار ہیں۔ وہ ایک دن نیشنل پارک کا دورہ کرنے کا خواب دیکھتے ہیں۔
انھوں نے کہا ’لیکن اس سے پہلے، میں بچت کر کے ایک نئی گاڑی خریدنے جا رہا ہوں جو مجھے وہاں لے جانے کے قابل ہے۔‘
Comments are closed.