- مصنف, رفائل ابوشیبی
- عہدہ, بی بی سی نیوز
- ایک گھنٹہ قبل
یہ 30 دسمبر سنہ 1973 کی بات ہے۔ طیارے لاک ہیڈ ایل-188 الیکٹرا نے کولمبیا کے شہر پریرا سے ابھی پرواز بھری ہی تھی کہ مسافروں کے لیے ایک نہ ختم ہونے والا ڈراؤنا خواب اس وقت شروع ہوا جب طیارے کی آخری قطاروں پر بیٹھے دو افراد نے ہتھیار نکال لیے اور طیارے کو ہائی جیک کر لیا۔ دونوں ہائی جیکرز نے اپنے چہرے کو ہڈ کی مدد سے چھپا رکھا تھا۔ اس وقت پرواز 601 میں 84 افراد سوار تھے۔ پہلے پہل تو لوگوں نے اسے کوئی بھونڈا مذاق سمجھا۔ اس مسافروں میں شامل ایک سائیکلسٹ لوئس ریتیگوئی نے سنہ 2022 میں اپنی موت سے قبل سنہ 2021 میں ایک ریڈیو پوڈکاسٹ میں ایسا ہی کہا تھا۔ انھوں نے کہا کہ ’ہم نے سوچا کہ کوئی پریشان کرنے کے لیے یوں ہی ادھم مچا رہا ہے۔ لیکن پھر گولی چلنے کی آواز آئی اور ہم پر خوف طاری ہونے لگا۔‘طیارے کی ہائی جیکنگ شروع ہونے سے لے کر بیونس آئرس کے ایزیزا ہوائی اڈے پر اس کی رہائی تک 60 گھنٹے سے زیادہ گزرے اور طیارے نے 22,000 کلومیٹر سے زیادہ کا سفر طے کیا جبکہ وہ راستے میں متعدد جگہ رکا بھی۔
یہ طیارے سیم ایچ کے 1274 کی کہانی ہے جو لاطینی امریکہ میں جہاز ہائی جیکنگ کا طویل ترین واقعہ ہے۔اس طیارے کے اغوا کی کہانی ایک بار پھر سے تازہ ہو گئی ہے کیونکہ 50 سال سے کے عرصے بعد ’ہائی جیکنگ آف فلائٹ 601‘ کے عنوان سے نیٹ فلیکس پر ایک سیریز شروع ہوئی ہے۔،تصویر کا ذریعہNETFLIX
اروبا کے لیے پرواز
لاطینی امریکہ میں سنہ 1967 اور 1973 کے درمیان تقریباً 90 طیاروں کی ہائی جیکنگ ہوئی جن میں سے تقریباً 30 طیاروں کی ہائی جیکنگ تو صرف کولمبیا میں ہوئی۔ یہ باتیں ماسیمو ڈی ریکو کی کتاب ’لاس کونڈیناڈوز ڈیل آئر‘ میں رقم ہے اور انھی کی کتاب پر نیٹ فلکس کی نئی سیریز مبنی ہے۔ڈی ریکو نے بی بی سی منڈو کے ساتھ بات چیت میں اس کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت ان پروازوں میں سے زیادہ تر کی منزل کیوبا کا ایک جزیرہ ہوا کرتا تھا۔وہ کہتے ہیں کہ ’ایسا اس لیے تھا کیونکہ کیوبا انقلاب کے بعد کمیونسٹ نظریات کی جانب چلا گیا تھا حالانکہ یہ انقلاب کسی کمیونسٹ انقلاب کے طور پر شروع نہیں ہوا تھا۔ ایسے میں امریکہ اپنے ساحل سے محض 90 میل کے فاصلے پر کسی دشمن کی موجودگی سے خوفزدہ ہونے لگا اور اس نے اس جزیرے کے خلاف زبردست اقتصادی ناکہ بندی کی جو نظریاتی طور پر آج تک جاری ہے۔‘اور ڈی ریکو کے مطابق سرد جنگ کے دوران لاطینی امریکی ہائی جیکروں میں سے بہت سے نے کیوبا کو ایک ایسی ’مثالی جگہ‘ کے طور پر دیکھا جہاں وہ کمیونسٹ نظریات کے مطابق رہ سکتے تھے۔یہی وجہ ہے کہ جب پرواز نمبر 601 پر سوار دو مسلح افراد طیارے کے کاک پٹ میں داخل ہوئے تو کیپٹن جیم لوسینا نے سوچا کہ اب ان کی منزل ہوانا ہے۔ انھوں نے یہ بات سنہ 1973 میں ہی ایک ٹیلی ویژن انٹرویو میں کہی تھی۔لیکن اغواکاروں کی درخواست مختلف تھی۔ انھوں نے جہاز کو اروبا کے ایک جزیرے لے جانے کا حکم دیا جو کہ ڈی ریکو کے مطابق وسطی امریکہ کے راستے میں ایک درمیانی پڑاؤ تھا۔،تصویر کا ذریعہTHE COLOMBIAN
اغوا کاروں کے مطالبات
جب پرواز اروبا کے لیے روانہ ہوئی اور جہاز کے مسافر پریشان ہونے لگے تو اغوا کاروں نے باتیں کرنا شروع کر دیں۔ ان کی باتیں سن کر مسافروں نے پہلی چیز جو محسوس کی وہ یہ تھی کہ ان کا لہجہ کولمبیا میں سنے جانے والے ان گنت لہجوں میں سے کسی سے بھی میل نہیں کھاتا تھا۔اپنے ’منفرد‘ لہجے میں انھوں نے پائلٹ سے اپنے مطالبات رکھتے ہوئے کہا کہ وہ کولمبیا کی نئی گوریلا تنظیم نیشنل لبریشن آرمی (ای ایل این) کے رکن ہیں اور وہ ’سیاسی قیدیوں‘ کے ایک گروپ کی رہائی کے علاوہ دو لاکھ امریکی ڈالر نقد چاہتے ہیں۔ڈی ریکو کا کہنا ہے کہ فلائٹ 601 کی ہائی جیکنگ سے پہلے کے ہفتوں کے دوران پولیس کے چھاپوں میں ای ایل این کے متعلق کولمبیا کی میڈیا میں بہت زیادہ باتیں ہو رہی تھیں کیونکہ اطلاعات کے مطابق ان چھاپوں میں فنکاروں اور اساتذہ کو گروپ کے مبینہ ارکان کے طور پر ہلاک کیا گیا تھا۔محقق کا کہنا ہے کہ ’ان سب کو جنگی کونسل ایل سوکورو میں لے جایا گیا تھا، اور اس وقت کے پریس میں یہ خبریں چھائی ہوئی تھیں۔۔۔ انھوں نے شاید یہ سوچا ہو کہ کیوں نہ اس ’مشہور سیاسی قیدیوں کا استعمال کرتے ہوئے لوگوں کی توجہ کو ذرا بھٹکایا جائے۔‘’مگر درحقیقت وہ اس میں سے کسی کی بھی (رہائی میں) کوئی دلچسپی نہیں رکھتے تھے۔‘ڈی ریکو کے مطابق اس دوران ایک حیران کن بات یہ ہوئی کہ کولمبیا کی حکومت نے ہائی جیکرز کے ساتھ بات چیت کرنے سے انکار کر دیا اور ہائی جیکرز سے مذاکرات کے لیے ایئر لائن کی انتظامیہ کو کہا گیا۔ لیکن اس سے بھی زیادہ حیران کن بات یہ ہے کہ اس زمانے میں اس قدر ہائی جیکنگ ہو رہی تھی لیکن اس کے باوجود اس کے تدارک کے لیے کچھ نہیں کیا جا رہا تھا۔جب میں نے بہت سے طیاروں کے عملے اور پائلٹوں سے اس کے متعلق پوچھا تو ان میں سے کسی نے بھی یہ نہیں بتایا کہ اغوا کی صورت میں انھیں کیا کرنا ہے۔ ’کئی بار نہ تو حکومت نے مداخلت کی اور نہ ہی پولیس نے اور سب کچھ مقامی گورنروں کے ہاتھ میں چھوڑ دیا گیا۔‘،تصویر کا ذریعہNETFLIX
کیریبیئن میں بڑھتا تناؤ
طیارے کے مسافروں کے لیے اس سے زیادہ مایوس کن چیز اور کیا ہو سکتی ہے کہ وہ جہاز میں بیٹھیں ہوں اور جہاز میں کوئی حرکت نہ ہو۔ یہ طیارہ اروبا میں اورنجسٹاد ہوائی اڈے کے رن وے پر 10 گھنٹے تک رکا رہا اور پرواز 601 کے مسافر غیر یقینی صورت حال کے اعصاب شکن حالات سے دو چار رہے اور ان کی مایوسی میں مسلسل خاموش بیٹھے رہنا مزید اضافہ کر رہا تھا۔اس دوران طیارے کے کیبن میں ہائی جیکرز ایئر لائن کے ایک وکیل کے مذاکرات کر رہے تھے اور ائیرلائن نے ان کے مطالبے سے بہت کم 20 ہزار امریکی ڈالر دینے کی پیشکش کی۔ڈی ریکو کہتے ہیں کہ ’اروبا میں مذاکرات کے نتیجے میں سب سے پہلا کام یہ ہوا کہ طیارے پر سوار تمام عورتوں اور بچوں کو رہا کردیا گیا۔‘یہ فیصلہ کچھ حد تک ہوائی جہاز کے اندر درپیش مشکل حالات کی وجہ سے کیا گیا تھا کیونکہ اس کی گھنٹوں سے صفائی یا دیکھ بھال نہیں کی گئی تھی۔ اس کے علاوہ جب رن وے پر طیارے کے انجن بند ہو گئے تو جہاز کا ایئر کنڈیشننگ سسٹم بھی بند ہو گیا۔خواتین اور بچوں کے بعد سب سے پہلے رہائی پانے والوں میں سائیکلسٹ کا ایک گروپ شامل تھا جن میں ریتیگوئی بھی شامل تھے، وہی سائیکلسٹ جنھوں نے شروع میں اس ہائی جیکنگ کو ایک مذاق سمجھا تھا۔ ایئرلائن کی جوابی پیشکش سے مایوس ہو کر ہائی جیکرز نے کپتان کو دوبارہ پرواز کا حکم دیا اور انھیں لیما لے جانے کے لیے کہا لیکن تکنیکی خرابی کی وجہ سے انھیں اروبا واپس جانا پڑا، جہاں انھیں مزید دس گھنٹے گزارنے پڑے۔اس تمام عرصے کے دوران ہائی جیکرز نے ایئر لائن کے ساتھ بات چیت جاری رکھی جبکہ مسافروں کے ایک گروپ نے فرار ہونے کا فیصلہ کیا۔ انھوں نے طیارے کا ہنگامی دروازہ کھول دیا اور طیارے کے فیوزل سے پانچ میٹر نیچے رن وے تک چھلانگ لگا دیا۔اس بات سے پریشان اور خوفزدہ ہو کر اغوا کاروں نے پائلٹ کو تیسری بار اروبا سے ٹیک آف کرنے پر مجبور کیا۔
،تصویر کا ذریعہGetty Images
ختمی مراحل
ڈی ریکو نے اپنی کتاب میں بتایا ہے کہ جو کچھ ہوا اس کے بعد بے چین ہو کر اغواکاروں نے پائلٹ سے طیارے کو لیما لے جانے کا کہا۔ اب تک ہائی جیکنگ کو 32 گھنٹے گزر چکے تھے اور طیارے کے لاک ہیڈ الیکٹرا اور اس کے چار انجنوں کو دیکھ بھال کی ضرورت پڑ چکی تھی۔اس طیارے کے کپتان نے اپنے 1973 کے انٹرویو میں کہا کہ ’میں نے ہائی جیکروں سے کہا تھا کہ جہاز میں تیل پہلے ہی کم ہے جس سے ٹربائنیں پگھل سکتی ہیں۔‘اس کا حل یہ تھا اس طیارے کو ایک چھوٹے سے کیریبین جزیرے پر اتارا جائے جہاں وہ پہلے بھی جا چکے تھے۔اروبا میں طیارے کے پھر سے اترنے کے ساتھ نئی بات یہ ہوئی کہ سب سے پہلے ایئرلائن نے ہائی جیکروں سے کہا کہ وہ عملے کو تبدیل کریں کیونکہ تھکاوٹ کی وجہ سے پائلٹ طیارے کے لیے خطرہ ہو سکتا ہے۔ اور تاوان کی قیمت میں اضافہ کرنے کی دھمکی کے پیش نظر کمپنی نے نئے عملے کو 50 ہزار امریکی ڈالر سے بھرے ایک بریف کیس کے ساتھ بھیجنے کا فیصلہ کیا۔نئے پائلٹ اور پرواز کے قابل طیارے کے ساتھ تھکے ہوئے ہائی جیکروں نے پرواز کو جنوب کی طرف لے جانے کو کہا۔ پہلے لیما میں ایندھن بھرنے کے لیے اسے اتارا گیا جہاں انھوں نے مسافروں کے ایک اور گروپ کو رہا کیا۔ اس کے بعد ارجنٹائن کے مینڈوزا میں اسے اتارا گیا اور وہاں عملے کے علاوہ طیارے سے سبھی مسافروں کو رہا کر دیا گیا۔اس کے بعد وہ تیزی سے پیراگوئے کے قریب ارجنٹائن کے شہر ریسسٹینشیا پہنچے۔ اس کے بعد وہ آسنشیئن میں رکے۔ دونوں مقامات پر طیارہ آدھے گھنٹے سے زیادہ نہیں رکا۔ ،تصویر کا ذریعہnetflix
جیسے کوئی جادو ہو گیا
60 گھنٹے کے بعد اچانک ہی 601 کی ہائی جیکنگ نے خطے کے میڈیا کی توجہ اپنی جانب مبذول کرائی۔ بیونس آئرس میں صحافیوں کی ایک بڑی تعداد ایزیزا کے رن وے پر طیارے کی آمد کا انتظار کر رہی تھی تاکہ ذمہ داروں کی شناخت کی جا سکے۔لیکن وہاں پہنچ کر جہاز سے صرف عملہ ہی اترا۔ڈی ریکو نے بی بی سی منڈو کو بتایا کہ ہائی جیکر بیونس آئرس پہنچنے سے پہلے ہی طیارے سے اتر چکے تھے۔ ’ان ہائی جیکروں نے اپنے ساتھ خواتین فضائی میزبانوں کو لے جانے کا کہا لیکن طیارے کے پائلٹ پیڈرو رامیریز نے ہائی جیکروں سے فضائی میزبانوں کو ساتھ لے جانے سے منع کیا اور خود ان کے ساتھ جانے کی پیشکش کی۔ اس کے بعد ہائی جیکر اور جہاز کا عملہ ایک سمجھوتے پر پہنچے جس کے تحت ان میں سے ایک اغواکار تنہا ہی ریسسٹینسیا میں اتر گیا اور دوسرا بھی تنہا ہی آسنشیئن میں اترا۔ ان کے درمیان یہ سمجھوتہ ہوا تھا کہ پائلٹ ان اغوا کاروں کے جہاز سے اترنے کے بارے میں بیونس آئرس پہنچنے سے پہلے کسی کو کچھ بھی نہیں بتائیں گے۔پہلا اغوا کار نصف رقم کے ساتھ ریسسٹینسیا میں اترا جبکہ دوسرا باقی نصف رقم لے کر آسنشیئن میں اترا تھا۔ ڈی ریکو نے کہا کہ بیونس آئرس میں شک طیارے کے عملے پر ہونے لگا۔ ’بیونس آئرس میں جب پائلٹ ایئر ہوسٹس کے ساتھ جہاز سے باہر آئے پولیس ہائی جیکروں کو پکڑنے اندر پہنچی جہاں کوئی بھی نہیں تھا۔یہ معاملہ اس وقت واضح ہوا جب پانچ دن بعد ان ہائی جیکروں میں سے ایک پکڑا گیا۔،تصویر کا ذریعہABC COLOR
‘پیراگوئے کا پریرا’
سنہ 1960 کی دہائی کے آخر میں کولمبیا کی فٹ بال لیگ نے خطے میں دیگر چیمپین شپ کے مقابلے میں اپنے معیار کو بلند کرنے کے لیے پیراگوئے کے کھلاڑیوں کو اپنی طرف متوجہ کرنا شروع کیا تھا۔پیراگوئے کے دو نوجوان 31 سالہ فرانسسکو سولانو لوپیز اور 27 سالہ یوسیبیو بورجا فٹبال کے کھیل میں قسمت آزمائی کے لیے پیریرا پہنچے تھے۔ لیکن چند مہینوں تک وہاں رہنے کے بعد اور ہر جگہ سے مسترد کیے جانے کے بعد انھیں مالی مشکلات کا سامنا تھا۔ڈی ریکو کہتے ہیں کہ ’اگر کوئی یہ دعویٰ کرتا ہے کہ وہ ڈیپورٹیوو پریرا کے ساتھ کھیلا ہے، تو وہ سچ نہیں کہہ رہا ہے‘ کیونکہ انھوں نے ٹیم کی فائلوں کی چھان بین کی ہے۔اغوا سے پہلے ان دو نوجوان کھلاڑیوں کی زندگی کے بارے میں بہت کم معلومات دستیاب ہیں، سوائے اس کے کہ وہ ‘کاروبار’ شروع کرنا چاہتے تھے اور اس کے لیے انھیں سرمائے کی ضرورت تھی۔سولانو لوپیز کو آسنشیئن میں اترنے کے پانچ دن بعد اپنے خاندان کے قریب ایک گھر خریدنے کے بعد گرفتار کیا گیا۔ انھیں پیراگوئے سے گرفتار کیے جانے کے بعد پریس کے سامنے پیش کیا گیا تھا اور ان کے سرپر ہوڈی تھی۔لیکن یوسیبیو بورجا کے بارے میں مزید کچھ معلوم نہیں ہوا۔ڈی ریکو کا کہنا ہے کہ بورجا نے کسی موقع پر پریرا کے کچھ لوگوں سے رابطہ کیا تھا لیکن پھر اس کا سراغ گم ہو گيا۔ شاید اس لیے کہ وہ ہائی جیکنگ کا پرستار تھا اور اس نے اس طرح سوچنا شروع کیا تھا۔’امریکہ میں ڈیوڈ کوپر کے بارے میں ایک کہانی کہی جاتی ہے جو 20،000 امریکی ڈالر لے کر پیراشوٹ کے ذریعے کولوراڈو کے پہاڑوں میں چلا گیا تھا اور غائب ہو گیا۔ لیکن بورجا کے بارے میں کسی کو کچھ معلوم نہیں کہ وہ کہاں گیا۔ وہ ایک معمہ بن گیا۔‘ڈی ریکو کا کہنا ہے کہ ’میں حیران ہوں کہ یوسیبیو بورجا کے بارے میں کوئی افسانہ نہیں ہے، جو 25,000 امریکی ڈالر لے کر فرار ہونے میں کامیاب ہو گیا اور پھر کبھی سامنے نہیں آیا۔‘کیا بورجا نے شہرت کے لیے ایسا کیا تو ہم اس بارے میں کبھی یقین کے ساتھ کچھ نہیں کہہ سکتے۔ لیکن ڈی ریکو کا کہنا ہے کہ ان میں انا تو تھی۔ ‘مسافروں اور عملے کی شہادتوں کے مطابق وہ کوئی ریکارڈ قائم کرنا چاہتے تھے (شاید طیارے کی طویل ہائی جیکنگ کا)۔ انھوں نے کئی لوگوں سے اس کا ذکر کیا۔ یقیناً ان کے لیے اہم چیز ہائی جیکنگ کا نیا ریکارڈ تھا اور مجھے نہیں لگتا کہ اگر انھیں رقم نہیں بھی دی جاتی تو وہ زیادہ پریشان ہوتے۔‘بہت سی نامعلوم چیزوں کے درمیان ڈی ریکو اس ہائی جیکر کے متعلق صرف ایک نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ ’یہ معلوم نہیں ہے کہ وہ زندہ ہے یا مر گيا ہے کیونکہ اس کی تلاش بند کر دی گئی۔ بس اتنا کہا جا سکتا ہے کہ اس نے جو چاہا وہ اس نے پا لیا۔‘
BBCUrdu.com بشکریہ
body a {display:none;}
Comments are closed.