’کوسٹ گارڈ نے ریسکیو کی بجائے ہماری کشتی ہی ڈبو دی‘: یونان کشتی حادثہ میں زندہ بچ جانے والوں کا الزام

یونان کشتی حادثہ

،تصویر کا ذریعہGREEK COAST GUARD

  • مصنف, الہ ریگی
  • عہدہ, بی بی سی نیوز

یونان کے ساحل پر تارکین وطن کی کشتی کے حادثے میں بچ جانے والے چار افراد کا کہنا ہے کہ یونانی کوسٹ گارڈ کی کارروائیوں کی وجہ سے کشتی ڈوب گئی، جس سے بڑا جانی نقصان ہوا۔

ایک اندازے کے مطابق 14 جون کو کشتی الٹنے کے وقت 750 افراد سوار تھے جن میں زیادہ تر پاکستان، شام اور مصر سے تھے۔

یہ حادثہ حالیہ برسوں میں بحیرہ روم میں آنے والی بدترین انسانی آفات میں سے ایک تھا۔ اس حادثے میں 104 افراد زندہ بچ گئے اور 82 لاشیں سمندر سے نکالی جا چکی ہیں۔

بی بی سی نے جن چار زندہ بچ جانے والوں سے بات کی ہے ان کا نام ان کی حفاظت کے لیے ظاہر نہیں کیا جا رہا لیکن ایک سے زیادہ ذرائع سے ان کی شناخت کی تصدیق کی گئی ہے کہ وہ اس حادثے میں زندہ بچ جانے والے مسافروں میں سے ہی ہیں۔

ان چار میں سے ایک شخص، جن کا تعلق مصر سے ہے، نے بی بی سی کو بتایا کہ ’ہمارا خیال تھا کہ یونانی کوسٹ گارڈ ہمیں بچائیں گے مگر اس کے بجائے انھوں نے ہماری کشتی ہی ڈبو دی۔‘

یونان کشتی حادثہ

،تصویر کا ذریعہReuters

ان کا کہنا تھا کہ یونانی کوسٹ گارڈ اس وقت کشتی کو رسے سے باندھ کر آگے لے جا رہے تھے، جب یہ یونان کے ساحل سے تقریباً 80 کلومیٹر (50 میل) دور بحیرہ روم کے گہرے حصے میں سے ایک میں ڈوب گیا۔

یونانی حکام نے پہلے اس کی تردید کرتے ہوئے دعویٰ کیا تھا کہ جب انھوں نے کشتی میں سوار ہونے اور صورتحال کا جائزہ لینے کے لیے کشتی کو رسی باندھنے کی کوشش کی تو کشتی میں سوار مسافروں نے اسے ہٹانے کی کوشش کی اور کہا کہ وہ اٹلی کا سفر کرنا چاہتے ہیں۔

لیکن بچ جانے والے ایک شامی شہری نے ہمیں بتایا کہ ’انھوں (کوسٹ گارڈ) نے کشتی کو ایک طرف سے کھینچ لیا اور تیزی سے آگے بڑھے۔‘

یہ بات اس زندہ بچ جانے والے مصری مسافر کی بات سے ملتی ہے، جس نے کہا تھا کہ کوسٹ گارڈ نے ’زبردستی ہمیں کھینچ لیا، جس کی وجہ سے کشتی ڈوب گئی۔‘

زندہ بچ جانے والوں میں سے کچھ افراد جن سے ہم نے بات کی تھی، کو یونانی حکام نے بتایا تھا کہ وہ میڈیا سے اس بارے میں بالکل کوئی بات نہیں کریں گے کہ یونانی کوسٹ گارڈ نے کس طرح ’کشتی کو بچانے‘ کی کوشش کی اور اگر وہ صحافیوں سے بات کریں تو انھیں ’یونانی کوسٹ گارڈ پر کوئی الزام نہیں لگانا ہو گا۔‘

ان میں سے ایک نے کہا کہ یونانی حکام نے ان پر دباؤ ڈالا کہ وہ اپنے مؤقف کو تبدیل کریں اور اس کے بدلے میں انھیں ’کچھ مالی امداد ملے گی اور پناہ گزینی کے لیے دی گئی درخواست پر جلد عملدرآمد کی پیشکش کی گئی۔‘

ہم نے یونانی حکام کے ساتھ اس حادثے میں زندہ بچ جانے والوں کا مؤقف شیئر کرتے ہوئے جواب طلب کیا مگر انھوں نے کہا کہ وہ کوئی تبصرہ نہیں کر سکتے کیونکہ ان کے پاس اس کشتی کے ڈوبنے کے واقعے کی جو بھی معلومات ہیں، وہ سرکاری تحقیقات کا حصہ ہیں۔

انھوں نے ہمیں اپنے پہلے بیانات کا حوالہ دیا، جس میں کہا گیا تھا کہ انھوں نے کشتی کو نہیں کھینچا اور ان کی طرف سے کی جانے والی مدد کی بار بار کی پیشکش کو بھی مسافروں کی طرف سے ٹھکرا دیا گیا۔

کشتی حادثہ

،تصویر کا ذریعہGetty Images

جرمنی کی غیر سرکاری تنظیم ’سی واچ‘ بحیرہ روم میں تارکین وطن اور پناہ گزینوں کو بچانے کے لیے کشتیاں بھیجنے کا اہتمام کرتی ہے۔

اس تنظیم کے عہدیداروں کے مطابق ابھی ان کے پاس اس واقعے کی مکمل تفصیلات نہیں۔ اس تنظیم کے سربراہ نے ہمیں بتایا کہ ’سینکڑوں مسافروں سے کھچا کھچ بھری ایک پرانی کشتی کو بڑے سمندر میں رسی سے کھینچنے کا مطلب ناکامی کے علاوہ کچھ نہیں نکلنا تھا اور اس سے حادثہ ہی ہو سکتا ہے۔‘

ان کے مطابق ’تصاویر اور شہادتوں کا جائزہ لینے کے بعد ہم اس نتیجے پر پہنچے کہ کشتی پر سوار لوگوں کو مصیبت سے بچانے کا یہ محفوظ طریقہ نہیں۔‘

انھوں نے مزید کہا کہ اس طرح کے واقعات میں رسی سے کھینچنا خطرے سے خالی نہیں ہوتا مگر یہ کچھ مخصوص حالات میں ہی ممکن ہوتا ہے۔

زندہ بچ جانے والوں میں سے دو نے بتایا کہ یونانی حکام نے ان سے مترجمین اور وکلا کے ذریعے ان نو مصری شہریوں کے خلاف ثبوت دینے کو کہا ہے جن پر لوگوں کی سمگلنگ کا الزام ہے۔

لیکن چاروں زندہ بچ جانے والوں نے بتایا کہ نو مصری مسافر تھے، جو سفر میں ان کے ساتھ ڈوبنے والی کشتی پر بیٹھے تھے۔

ان کا کہنا ہے کہ جہاز کے عملے نے نقاب پہنا ہوا تھا اور وہ اپنا زیادہ تر وقت کیبن میں گزارتے تھے۔

ان میں سے ایک نے ہمیں بتایا کہ ’جب کوسٹ گارڈ اس کشتی کے قریب پہنچے تو عملے نے پانی میں چھلانگ لگا دی اور ان نو مصریوں نے جہاز کو سنبھالنے کی کوشش کی۔‘

انھوں نے مزید کہا کہ ’مجھے ایسا لگتا ہے کہ وہ لوگوں کی سمگلنگ میں ملوث نہیں ہو سکتے ہیں۔‘

ان مصریوں کے رشتہ داروں نے بی بی سی کو بتایا کہ انھوں نے سفر کے لیے ہر ایک کو ساڑھے چار ہزار ڈالر ادا کیے تھے۔

BBCUrdu.com بشکریہ