کورین ڈراموں نے کس طرح انڈیا فتح کر لیا ہے
ایک دشمن ملک میں حادثے کی وجہ سے ایک نوجوان خاتون پھنس جاتی ہے اور وہاں ایک خوبرو نوجوان آفیسر انھیں بچاتا ہے۔
دونوں کو ایک دوسرے سے محبت ہو جاتی ہے لیکن انھیں ایک دوسرے کا ہو جانے سے پہلے ہر صورت میں کئی رکاوٹیں عبور کرنا ہیں۔ اِن رکاوٹوں اور مشکلات میں اُس سرحد کو عبور کرنا بھی شامل ہے جس نے ان دونوں کے ممالک کو تقسیم کیا ہوا ہے۔
اگر کچھ سال پہلے آپ کسی انڈین کو یہ کہانی سنانے تو شاید اس کے ذہن میں پہلا خیال سنہ 2004 کی بالی وڈ کی فلم ویر-زارا آتا جس میں شاہ رخ خان اور پریٹی زنٹا ہیرو اور ہیروئن تھے۔ یہ کہانی انڈیا اور پاکستان سے متعلق تھی۔
لیکن سنہ 2019 میں ایک کورین ڈرامے نے صورتحال بدل دی۔ یہ ڈرامہ ’کریش لینڈنگ آن یو‘ تھا جو جنوبی اور شمالی کوریا سے متعلق تھا۔ لیکن اس ڈرامے کے نتائج بالکل مختلف تھے۔
کورین ڈراموں کے بارے میں ’ڈرامہ اوور فلاورز‘ نامی پوڈ کاسٹ کی شریک میزبان پاروما چکراورتی کہتی ہیں ’دنیا بھر میں ’کریش لینڈنگ آن یو‘ کو بہت پسند کیا گیا کیونکہ اس ڈرامے نے دونوں ممالک کے مشترکہ دکھ کو بہت واضح طور پر دکھایا۔ لیکن میرے خیال میں دنیا بھر میں جنوبی ایشیائی لوگوں نے اسے مختلف طور پر محسوس کیا۔‘
پاروما چکراورتی کی پوڈ کاسٹ، جو اس طرح کی کئی پوڈ کاسٹوں میں سے پہلی تھی، اس بات کی نشانی ہے کہ کورین ڈرامے انڈیا میں کس قدر مقبول ہو گئے ہیں۔
انڈیا میں کورین ڈرامے اس وقت مقبول ہونا شروع ہوئے جب سنہ 2000 میں شمال مشرقی ریاست منی پور میں علیحدگی پسند باغیوں نے بالی وڈ کی فلموں پر پابندی لگا دی۔ اس کے بعد یہ ڈرامے آہستہ آہستہ پورے ملک میں مقبول ہونا شروع ہو گئے۔
سنہ 2020 میں کورین ڈراموں کی مقبولیت میں اس وقت بہت زیادہ اضافہ ہوا جب کورونا وائرس کی وباء نے لوگوں کو گھروں میں رہنے پر مجبور کر دیا۔ اس دوران نیٹ فلکس انڈیا کے ناظرین کی تعداد میں پچھلے سال کے مقابلے میں 370 فیصد اضافہ ہوا۔
کورین ڈراموں اور بالی وڈ کے درمیان موازنہ بہت دلچسپ ہے۔ کورین ڈرامے اپنی کہانی نویسی میں نئے تجربات کر رہے ہیں اور حقیقت پسند ہو رہے ہیں۔ اس طرح یہ ڈرامے بالی وڈ، جو کورونا وائرس کی وباء سے پہلے کی مقبولیت حاصل کرنے کی تگ و دو میں لگا ہوا ہے، کے ناظرین کے رحجانات بھی تبدیل کر رہے ہیں
ہفتہ وار میگزین ففٹی ٹو کی ایڈیٹر سُپریا نائر کہتی ہیں کہ دونوں کا موازنہ اتنا آسان بھی نہیں ہے۔ ’پاپولر ہندی سنیما اور پاپولر کورین سنیما دونوں ہی بنیادی طور پر مرد ناظرین کے لیے فلمیں بناتے ہیں۔ جبکہ پاپولر ہندی ڈراموں کی طرح پاپولر کورین ڈرامے خواتین کے لیے بنائے جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ دونوں انٹرٹینمنٹ انڈسٹریوں کے درمیان کئی مماثلتیں ہیں۔ دونوں ہی میلو ڈرامہ (جذباتیت سے بھرپور ڈرامہ) اور مبالغہ آرائی پر مبنی رومانس کے لیے مشہور ہیں۔
بالی وڈ کی طرح کورین ڈرامے بھی اپنی ہی ایک خیالی دنیا تخلیق کرتے ہیں۔ کائنات کے قوانین یہاں ہمیشہ لاگو نہیں ہوتے ہیں۔ یہاں کہانی یا تو انتہائی حقیقت پسندانہ یا پھر چودہ طبق روشن کر دینے والی مبالغہ آرائی کے درمیان گردش کرتی ہے۔ دونوں ہی بڑی صنعتیں ہیں جو کروڑوں ناظرین میں بہت مقبول ہیں۔
سُپریا نائر کے مطابق ’دنیا بھر میں عوامی انٹرٹینمنٹ کی طرح بالی وڈ بھی مختلف اصناف کے ملاپ اور اتار چڑھاو کو پسند کرتا ہے۔ ہم ایک ہی بیانیے میں ڈھونگ، ایکشن، رومانس، جادوئی حقیقت پسندی اور شاعرانہ اندرونی کیفیات سب شامل کر سکتے ہیں۔‘
کورین ڈرامے بھی ایسی ہی کہانی نویسی کرتے ہیں۔ اکثر ڈراموں مثبت اور تعمیری اختتام پہلے ہی معلوم ہوتے ہیں لیکن وہاں تک پہچنے کے دوران کئی چونکا دینے والے اتار چڑھاو آتے ہیں۔
سُپریا نائر کہتی ہیں ’سب سے زیادہ مماثلتیں دونوں کی کہانیوں میں پیش کی جانے والی خاندانی اور سماجی درجہ بندیاں ہیں۔ کورین ڈراموں میں بچوں پر والدین کی اس مضبوط گرفت کو بیان کیا جاتا ہے جو مغربی ممالک کے لوگ اُس طرح نہیں سمجھتے جیسے ہم سمجھ سکتے ہیں۔‘
کورین ڈراموں اور بالی وڈ کی فلموں کی کہانیاں اکثر ان اثرات کے گرد گھوم رہی ہوتی ہیں جو والدین کے فیصلوں کی وجہ سے ڈراموں اور فلموں کے مرکزی کرداروں پر پڑ رہے ہوتے ہیں۔ اپنی محبت کے انتخاب اور کریئر کے انتخاب سے لے کر خواتین کی اپنے شوہر اور گھر کی ذمہ داریاں یہ سب ان کہانیوں میں شامل ہوتا ہے۔
’جہاں ایک طرف حقیقی زندگی کی صورتحال رجعت پسندانہ ہے، میں یہ بھی سمجھتی ہوں کہ بہترین ڈرامے اس میں شامل ہر فرد کو نرمی، فکرمندی اور درگزر کے پیرائے میں پیش کرتے ہیں، جس میں ہمارے جیسے لوگ بھی شامل ہیں جو کوئی بہت زیادہ روایت شکن نہیں ہیں۔ یہاں تک کہ جب سکرین پر معاشقہ دکھایا جاتا ہے تو بھی دونوں صنعتیں بہت ایک جیسی دکھائی دیتی ہیں۔‘
پاروما چکراورتی کہتی ہیں ’رومانوی محبت کو مثالی بنا کر اور پیش کیا جاتا ہے اور اسے حاصل کرنے کی کوشش کو معصوم اور پیارا دکھایا جاتا ہے۔ یہ وہ چیز ہے جس سے بالی وڈ کچھ عرصے سے دور ہوتا جا رہا ہے اور اسی لیے بہت سے انڈین ناظرین کورین ڈراموں کی طرف راغب ہو رہے ہیں۔‘
لیکن ان مماثلتوں کا مطلب یہ بھی ہے کہ دونوں صنعتیں ایک جیسی غلطیوں کرتی ہیں، خاص طور پر رومانوی محبت کی تصویر کشی میں جس میں خواتین کے پیچھے پڑ جانے کو رومانوی انداز میں دکھانا، خواتین کو زبردستی پکڑنا اور ہیروئنوں کو بچکانہ انداز میں دکھانا شامل ہے۔
چکراورتی کے مشاہدے کے مطابق ’حسد کو محبت کی علامت کے طور پر دکھایا جاتا ہے اور اپنی گرل فرینڈ یا بیوی پر اجارہ داری کرنے والے مرد کو گہری محبت کرنے والے کے طور پر دکھایا جاتا ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ کوریئن ڈرامے اور انڈین فلمیں خاندان کے شیطان صفت لوگوں کو معاف کرنے کا درس بھی دیتی ہیں۔ اس کے علاوہ دونوں صنعتوں میں گھریلو تشدد کو بھی مناسب طریقے سے نہیں دکھایا جاتا۔
لیکن بہت سی انڈین خواتین کے لیے کورین ڈراموں کی جانب راغب ہونے کی سب سے بڑی وجہ ان میں ہیروئنوں کو مخصوص انداز میں دکھانا ہے۔ کسی بھی قسم کے ڈراموں میں مرکزی کردار ادا کرنے والی خواتین کو ہوشیار اور ذہین دکھایا جاتا ہے۔ یہ کہانیاں خواتین کی زندگی کو عشق و محبت کے علاوہ پہلو دکھاتی ہیں۔ ان کے کردار کا مقصد صرف ہیرو کو خوش کرنا نہیں ہوتا۔
مثال کے طور پر بالی وڈ کی سپر ہٹ فلم ’دنگل‘ اور کورین ڈرامہ ’ویٹ لفٹنگ فیری کِم بوک-جو‘ دونوں سنہ 2016 میں ریلیز ہوئی تھیں اور دونوں میں خواتین ایتھیلیٹس کی کہانیاں تھیں۔
لیکن دنگل، جس کے ساتھ سپر سٹار عامر خان کا نام جڑا تھا، ایک باپ کی اپنی بیٹیوں کو کامیاب ریسلرز بنانے کے لیے دی جانے والی قربانیوں کو پیش کرتی ہے۔ دوسری طرف کورین ڈرامے کا مرکزی کردار ایک نوجوان خاتون ویٹ لفٹر ہے۔
دونوں ہی ہمت، سرکشی اور قربانی کی کہانی سناتے ہیں، لیکن جہاں فلم دنگل بالآخر بیٹیوں سے اپنے والد کے فیصلے کے آگے سر تسلیم خم کرنے کا تقاضا کرتی ہے وہیں کورین ڈرامہ نوجوان کھلاڑی کی اندرونی جدوجہد پر توجہ مرکوز کرتا ہے۔
نائر کہتی ہیں کہ بہت سے مقبول کورین ڈراموں کی مصنف اور ڈائریکٹر خواتین ہیں جو ایک طرف تو وہاں کے سخت قدامت پسند اصولوں اور نشریاتی معیار کے مطابق کام کرتی ہیں لیکن ساتھ ہی خواتین کی خواہشات اور ذاتی آزادیوں کا بھی خیال رکھتی ہیں۔
نائر کہتی ہیں کہ ’ہم انڈیا کے پوپ کلچر میں کبھی بھی ایسے ڈرامے نہیں بنائیں گے کیونکہ ہم کبھی اپنے خواب و خیال میں بھی خواتین کو ذات پات اور مذہب کی بندشوں کے باہر آزادی سے کام کرنے کی اجازت نہیں دے سکتے۔‘
وہ کہتی ہیں کہ اس کی ایک وجہ 20ویں صدی میں کوریا، چین اور مشرقی ایشیا کے دیگر حصوں میں نسبتاً ملنے والی مذہبی اور سماجی آزادیاں ہیں۔
طویل عرصے سے کوریئن ڈرامے دیکھنے والے ان میں تجرباتی کہانیوں کا سہرا انڈسٹری کی جانب سے اچھے مصنفین پر زور کو دیتے ہیں، ان سکرپٹ رائٹرز میں سے اکثر خواتین ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ سکرپٹ رائٹر کے ہنر اور مہارت پر اسی طرح کا احترام بالی ووڈ کے کہانیوں کو بدل سکتا ہے۔
اور ’کریش لینڈنگ آن یو‘ ایک اچھی مثال ہے کہ مشکل کہانیوں کو کس طرح حساس اور واضح طور پر پیش کیا جا سکتا ہے۔
Comments are closed.