دو ممالک کے درمیان وہ ’غیرفوجی علاقہ‘ جسے دنیا کا ’خطرناک ترین علاقہ‘ قرار دیا جاتا ہے

تصویر

،تصویر کا ذریعہGetty Images

یہ دو ملکوں کے درمیان ایک ایسی عارضی سرحد کی کہانی ہے جسے گذشتہ سات دہائیوں میں صرف مٹھی بھر افراد نے ہی جیتے جی عبور کیا ہے۔

کورین ڈی میلیٹرائیذڈ زون (یعنی غیرفوجی علاقہ)۔۔۔ یہ نام سُن کر آپ کو ایسا محسوس ہو سکتا ہے کہ جیسے اس علاقے میں فوج کی عدم موجودگی ہو گی مگر صورتحال اس کے برعکس ہے۔

شمالی اور جنوبی کوریا دونوں میں قانون کے تحت اس علاقے کو عبور کرنے کی ممانعت ہے اور اگر ممانعت نہ بھی ہو پھر بھی اس علاقے میں دونوں ممالک کے فوجیوں کی بھاری موجودگی کی وجہ سے اسے عبور کرنا تقریباً ناممکن سمجھا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب بھی کوئی ایسا کرتا ہے تو دنیا بھر میں شہ سرخیاں بنتی ہیں۔

گذشتہ سات دہائیوں کی تاریخ میں بہت کم لوگ ایسے ہیں جو خفیہ طور پر اس سرحد کو عبور کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ عام طور پر، شمالی کوریا کے باشندے بہتر زندگی کی تلاش میں اس مقام کو خفیہ انداز میں عبور کر کے جنوبی کوریا پہنچتے ہیں جبکہ جنوبی کوریا کے باشندے سیاسی یا دیگر وجوہات کی بنا پر شمالی کوریا جانے کا فیصلہ کرتے ہیں۔

مگر اس سرحدی علاقے کو حال ہی میں عبور کرنے والے ٹریوس کنگ کا معاملہ اس سے بھی زیادہ غیر معمولی ہے کیونکہ نہ تو وہ شمالی کوریا کے باشندے ہیں اور نہ ہی جنوبی کوریا کے باسی، بلکہ وہ ایک امریکی فوجی ہیں۔

امریکی اور جنوبی کوریا کے حکام کے مطابق ٹریوس کنگ اُن 28,500 امریکی فوجی اہلکاروں میں سے ایک ہیں جنھیں امریکہ نے جنوبی کوریا کے مختلف مقامات پر تعینات کر رکھا ہے۔ رواں ہفتے منگل کے روز وہ جانتے بوجھتے جنوبی کوریا سے شمالی کوریا میں داخل ہو گئے تھے۔

حکام کا خیال ہے کہ ٹریوس کنگ کو شمالی کوریا کے کسی مقام پر رکھا گیا ہے اور امریکی اور جنوبی کوریا کے حکام اس فوجی کو واپس لانے کے لیے شمالی کوریا کی فوج سے رابطے میں ہیں۔

یاد رہے کہ ٹریوس کنگ کو کراسنگ سے پہلے ہی امریکی فوج میں تادیبی کارروائی کا سامنا تھا اور فوج میں لڑائی جھگڑے کے واقعے میں ملوث ہونے کے باعث ناصرف وہ زیر عتاب تھے بلکہ انھیں امریکہ واپس بھیجے جانے کا فیصلہ کیا جا چکا تھا۔

نامکمل جنگ کی علامت

تصویر

،تصویر کا ذریعہGetty Images

کورین ڈی میلیٹرائیذڈ زون دراصل ایک چار کلومیٹر چوڑی اور 263 کلومیٹر لمبی پٹی ہے جو شمالی کوریا اور جنوبی کوریا کو تقسیم کرتی ہے۔

اسے ان دونوں ممالک کے درمیان جاری تصادم کی سب سے بڑی علامت سمجھا جاتا ہے۔ تکنیکی طور پر شمالی اور جنوبی کوریا آج بھی حالتِ جنگ میں ہیں کیونکہ سنہ 1950 سے 1953 تک جاری رہنے والی کورین جنگ کا وقتی خاتمہ جنگ بندی کے ایک عارضی معاہدے کے تحت ہوا تھا جس کے بعد سے کبھی بھی دونوں ممالک کے درمیان حتمی امن معاہدہ نہیں ہوا اور نہ ہی باقاعدہ جنگ کے خاتمے کا اعلان۔

کورین ڈی میلیٹرائیذڈ زون یا غیر فوجی زون کی حد بندی سنہ 1953 میں دونوں ممالک کے درمیان تین سالہ خونریز جنگ کے بعد جنگ بندی کے عارضی معاہدے کے بعد کی گئی تھی، یہ وہ جنگ تھی جس میں دونوں ممالک میں مجموعی طور پر پچاس لاکھ شہری اور فوجی ہلاکتیں ہوئی تھیں۔

اس وقت یہ فیصلہ کیا گیا تھا کہ دونوں ممالک کے درمیان ممکنہ کشیدگی کے پیش نظر ایک بفر زون قائم کیا جائے، اور یہ بفر زون اس وقت تک قائم رہے جب تک کہ باقاعدہ جنگ بندی کے بعد امن معاہدے پر دستخط نہ ہو جائیں مگر ایسا کبھی نہیں ہوا۔

تین سالہ جنگ کے بعد سنہ 1953 میں عارضی جنگ بندی کے معاہدے پر پانمونجوم قصبے میں دستخط کیے گئے تھے، جہاں مشہور جوائنٹ سکیورٹی ایریا واقع ہے۔ جوائنٹ سکیورٹی ایریا ہی وہ مقام ہے جو مذاکرات کے مقام کے ہیڈ کوارٹر کے طور پر استعمال ہونا تھا مگر آج یہاں دونوں ممالک کے فوجی آمنے سامنے کھڑے ہیں۔

ایک سیمنٹ لائن جو شمالی اور جنوبی کوریا کے درمیان سرحد کو نشاندہی کے طور پر بنائی گئی ہے اور دونوں ممالک کے افسران کے درمیان بات چیت کے لیے بنائے گئے بوتھ، اس جگہ کی دو اہم علامتیں ہیں۔ جو سیاح بھی جزیرہ نما جنوبی کوریا کا دورہ کرتے ہیں ان کے لیے دیکھنے کو یہ اہم مقامات ہیں۔

تاریخی سنگ میل

کوریا

،تصویر کا ذریعہGetty Images

شمالی اور جنوبی کوریا نے گذشتہ سات دہائیوں میں بھرپور کشیدگی، تناؤ اور پھر کشیدگی میں کمی کے متعدد ادوار دیکھے ہیں۔

کورین ڈی میلیٹرائیذڈ زون ماضی میں متعدد مواقع پر دونوں ممالک کے رہنماؤں اور فوجی افسران کے درمیان بات چیت اور میل جول کے لیے ایک جگہ رہا ہے، جبکہ یہ وہ جگہ بھی ہے جہاں کشیدگی کے بہت سے واقعات بھی پیش آ چکے ہیں۔

اس سرحدی پٹی کو 1998 اور 2008 کے درمیان ’سن شائن پالیسی‘ کے نام سے جانا جانے والی تاریخ کے سب سے اہم کشیدگی کم کرنے کے اقدام کے دور میں نمایاں اہمیت حاصل ہوئی۔

سنہ 2018 میں قصبہ پانمونجوم نے دونوں ممالک کے رہنماؤں کے درمیان ایک سربراہی اجلاس کی میزبانی کی اور کورین جنگ کے بعد تاریخ میں پہلی بار ایسا ہوا کہ شمالی کوریا کے رہنماؤں نے جنوبی کوریا کی سرزمین پر قدم رکھا۔

سنہ 2019 میں ڈونلڈ ٹرمپ شمالی کوریا میں قدم رکھنے والے پہلے امریکی صدر اس وقت بن گئے جب انھوں نے اسی ڈی میلیٹرائیذڈ زون میں شمالی کوریا کے رہنما کم جونگ ان سے ملاقات کی تھی۔

کشیدگی اور واقعات

تصویر

،تصویر کا ذریعہGetty Images

شمالی کوریا، جنوبی کوریا اور امریکہ کی مسلح افواج اس پٹی کی مسلسل مسلح نگرانی کرتی ہیں اور یہاں گشت کرتی ہیں۔

اس علاقے میں شاید ہی کوئی سویلین قدم رکھتا ہو۔ یہاں کوئی رہائشی یا تجارتی جگہیں نہیں ہیں جس نے اس علاقے میں ایک بھرپور قدرتی حیاتیاتی تنوع کو پھلنے پھولنے کا موقع دیا ہے، اور یہ ایک ایسی چیز جس کی گنجان آبادی والے جنوبی کوریا کے بہت سے علاقوں میں فقدان ہے۔

اور اس انتہائی نگرانی کے باوجود ڈی میلیٹرائیذڈ زون کبھی کبھار تشدد کا منظر بھی پیش کرتا ہے۔

سنہ 1976 میں یہاں گشت کرنے والے دو امریکی فوجی شمالی کوریا کے فوجیوں کی جانب سے کلہاڑیوں کی مدد سے کیے گئے ایک حملے میں مارے گئے تھے۔

سنہ 2017 میں شمالی کوریا کا ایک فوجی اپنے ملک سے نکل کر اس سرحد کو عبور کر کے جنوبی کوریا کی طرف جانے میں کامیاب ہوا۔ فرار کی اس کارروائی کے دوران اسے پانچ گولیاں لگیں مگر پھر بھی وہ زندہ بچ نکلا۔

ماضی میں شمالی کوریا کے باشندوں کی ایک قلیل تعداد کامیابی سے سرحد عبور کرنے میں کامیاب ہوئی ہے جبکہ کچھ جنوبی کوریائی باشندے بھی سرحد عبور کر کے شمالی کوریا پہنچنے میں کامیاب رہے۔

تاہم، آج بھی اس پٹی کو عبور کرنا اتنا مشکل ہے کہ شمالی کوریا کے باشندوں کی اکثریت جو جنوبی کوریا پہنچنا چاہتے ہیں وہ چین کے راستے ہزاروں کلومیٹر کا خطرناک سفر طے کرتے ہیں، جس کا مقصد کسی تیسرے ملک پہنچ کر سیاسی پناہ حاصل کرنا ہے۔

یہ غیر فوجی زون کرہ ارض پر آج بھی سرد جنگ کی قطبی تقسیم کی ایک مستقل یاد دہانی بنا ہوا ہے اور یہ اس بات کی یاد بھی دلاتا ہے کہ ایک ملک کیسے دو حصوں میں تقسیم ہوا۔

BBCUrdu.com بشکریہ