بینک دولت پاکستان کے بورڈ آف ڈائریکٹرز نے 30 جون2021ء کو ختم ہونے والے سال کے لیے اسٹیٹ بینک اور اس کے ذیلی اداروں کے سالانہ کارکردگی جائزے کی 26 اکتوبر 2021ء کو منظوری دی۔
اسٹیٹ بینک کے مطابق مالی سال2021 ایک خاص طور پر دشوار سال رہا کیونکہ عالمی معیشت کووڈ کی وبا، بشمول وائرس پھیلنے کی مختلف لہروں اور اس کے نتیجے میں قابو پانے کے اقدامات کے نتیجے میں معاشی اور مالی چیلنجوں سے عہدہ برآ ہوئی۔
تاہم، ان مشکل حالات میں پاکستان کی معیشت گذشتہ مالی سال کے مقابلے میں بھرپور پر بحال ہوئی اور مالی سال کے شروع میں، سال 2021 کے لیے مقررہ اہداف کے تناظر میں کافی اچھی کارکردگی دکھائی۔ اسٹیٹ بینک کے معاون زری پالیسی مو قف بشمول سیالیت داخل کرنے کے مقداری اقدامات کے ساتھ ساتھ مالیاتی پالیسی اقدامات کے ذریعے ایک بَرہدف، متحرک اور خاصا مربوط پالیسی ردعمل دیا گیا۔
مرکزی بینک کا مزید کہنا ہے کہ اسٹیٹ بینک کے اقداما ت سے سیالیت اور ادائیگیٔ قرض کی صلاحیت کے ممکنہ خدشات سے نمٹنے میں مدد ملی جو مارچ 2020ء میں وائرس پھیلنے کے بعد سے ابھر رہے تھے اور اس نے مالی سال21ء میں توقع سے بہتر معاشی کارکردگی میں کردار ادا کیا۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سال کے دوران معاشی نمو بحال ہو کر 3.94 فیصد پر آ گئی جو مالی سال21ء کے لیے مقررہ2.1فیصد کے ہدف اور مالی سال20ء میں کووڈ کے سبب0.47 فیصد سکڑاؤ سے خاصی بلند ہے۔ مالی سال21ء میں مہنگائی معتدل ہو کر 8.9 فیصد پر رہی جو اسٹیٹ بینک کی جانب سے اعلان کردہ 7 تا 9 فیصد کے ہدف کی حد میں ہے۔ اسی طرح، مالی سال21ء میں جاری کھاتے کا توازن، مالیاتی توازن اور ملکی زرمبادلہ کے ذخائر جیسے اہم معاشی توازن کے اظہاریوں میں بہتری آ گئی۔
رپورٹ کے مطابق اسٹیٹ بینک کے مقداری اقدامات خاصے برہدف، استفادہ کنندگان کے لحاظ سے کافی متنوع اور عارضی نوعیت کے تھے، جن کے ذریعے مجموعی طور پر جی ڈی پی کے تقریباً 5.0 فیصد تک کی مالی سیالیت فراہم کی گئی۔ دشوار کاروباری ماحول میں آسانی کے لیے اسٹیٹ بینک نے ملازمتوں سے برطرفیوں کو روکنے (روزگار اسکیم)، طبی اداروں کو ان کی طبی سہولتوں میں اضافے (کووڈ سے نمٹنے کی ری فنانس سہولت) اور فرموں کو طویل مدتی سرمایہ کاری (عارضی معاشی ری فنانس سہولت) کی حوصلہ افزائی کے لیے فوری طور پر ری فنانس اسکیمیں متعارف کرائیں۔
برآمد سے متعلق طریقوں کے تقاضوں میں نرمی کی گئی تا کہ قومی لاک ڈاؤن کے نتیجے میں نقل و حرکت میں کمی کے اثرات سے بچا جا سکے، جبکہ برآمدی فنانس اسکیم کی وسعت کو بڑھایا گیا۔ مزید برآں، اسٹیٹ بینک کی جانب سے بینکوں کے قرضوں کی تشکیل نو اور ایس ایم ایز اور گھرانوں سمیت فرموں کے قرضوں کو مؤخر کیا گیا۔
مزید برآں رسد کے انتظامی مسائل اور اجناس کے عالمی نرخ بڑھنے سے پڑنے والے دباؤ نے مہنگائی کی توقعات کو قابو میں رکھ کر زری پالیسی کمیٹی کو پورے سال کے دوران پالیسی ریٹ کسی ردو بدل کے بغیر برقرار رکھنے کا موقع دیا۔ اسٹیٹ بینک کی طرف سے جنوری 2021ء سے زری پالیسی پر پیشگی رہنمائی اپنائے جانے سے متعلقہ فریقوں کے لیے پالیسی کی قلیل مدتی بے یقینی کم کرنے میں بڑی مدد ملی ۔
مالی سال 21ء کے دوران پاکستان کے بیرونی اظہاریے بھی نمایاں طور پر بہتر ہوئے اور اسٹیٹ بینک کے زرِ مبادلہ ذخائر میں 40 فیصد سے زائد اضافہ ہوا جبکہ کرنٹ اکاؤنٹ کا خسارہ 10 سال کی پست ترین سطح پر چلا گیا، جس کی بنیادی وجہ کارکنوں کی ریکارڈ بلند ترسیلات اور برآمدی وصولیاں ہیں۔
مارکیٹ کی بنیاد پر طے ہونے والی شرحِ مبادلہ نے برآمدی مسابقت کو بہتر بنایا جبکہ اسٹیٹ بینک اور حکومت کی طرف سے ترسیلات پراسیس کرنے والے اداروں کے لیے پاکستان ریمیٹینس انیشی ایٹو (پی آر آئی) کے تحت اعلان کردہ مالی ترغیبات نے تارکینِ وطن کی جانب سے رقوم بھجوانے کے ضمن میں باضابطہ بینکاری ذرائع کے استعمال کی حوصلہ افزائی کی ، جس سے دورانِ سال 29.4 ارب ڈالر کی ترسیلات موصول ہونے کی راہ ہموار ہوئی۔
ملک میں ادائیگیوں کے انفرااسٹرکچر کے حوالے سے اسٹیٹ بینک نے مالی شمولیت، صارفین کی ڈیجیٹل آن بورڈنگ، فاصلاتی بینکاری کو سازگار بنانے، بینکاری ذرائع سے سرمایہ کاری کے ڈجیٹل طریقوں کی صارفین کو فراہمی اور نظامِ ادائیگی کی کارگزاری بہتر بنانے کے مقصد سے اہم اقدامات کیے۔
اوّل، اسٹیٹ بینک نے حکومت اور کمرشل بینکوں کے اشتراک سے ’روشن ڈجیٹل اکاؤنٹ‘ (آر ڈی اے) کا آغاز کیا جس سے غیر ممالک میں مقیم پاکستانیوں کو متعدد سہولتیں دی گئیں، جیسے اپنی رہائش کے ملک میں بیٹھے بیٹھے پاکستان میں موجود بینکوں میں اکاؤنٹ کھلوانا اور انہیں چلانا، ’نیا پاکستان سرٹیفکیٹس‘ (این پی سی)، اسٹاک مارکیٹ، میوچل فنڈز، ریئل اسٹیٹ میں سرمایہ کاری اور اپنے اہلِ خانہ کے لیے کار خریدنا۔ ان اقدامات کا غیر مقیم پاکستانیوں نے خیر مقدم کیا اور جون 2021ء کے اواخر تک 181,556 ’روشن ڈجیٹل اکاؤنٹس‘ کے ذریعے 1.56 ارب ڈالر موصول ہو چکے ہیں۔
غیر ملکی کرنسی کی اس وصولی نے ملک کے توازنِ ادائیگی کی پوزیشن کو یقیناً سہارا دیا ہے۔ نظامِ ادائیگی کے شعبے میں اسٹیٹ بینک کا دوسرا بڑا اقدام ’راست‘ کا آغاز ہے جو جدّت طرازی کا شاہکار، انٹر آپریبل اور ادائیگی کا محفوظ پلیٹ فارم ہے جس سے صارفین، دکان دار اور سرکاری ادارے رقوم کا تبادلہ رواں انداز میں، فوری اور کم خرچ میں کر سکتے ہیں۔ ادائیگی کے سسٹمز میں یہ دونوں پیش رفتیں پاکستان کے بینکاری منظر نامے کے ساتھ ساتھ بیرونی کھاتے پر بھی پائیدار اثر ڈالیں گی۔
رپورٹ کے مطابق مالی شمولیت کی قومی حکمت عملی کے تحت اسٹیٹ بینک میں مالی شمولیت کو اوّلین تزویراتی ترجیح کی حیثیت حاصل رہی ۔ مالی سال 21ء میں دیہی، پسماندہ اور بینکاری خدمات سے محروم علاقے اسٹیٹ بینک کی خصوصی توجہ کا مرکز بنے رہے اور مرکزی بینک نے وہاں کمرشل اور مائیکروفنانس بینکوں کو نئی شاخوں کے قیام کے لیے لائسنس جاری کیے۔
قرضے کی تقسیم کے حوالے سے اسٹیٹ بینک نے بالخصوص ہاوسنگ، تعمیراتی قرضوں، زرعی قرضوں اور نہایت چھوٹے، چھوٹے اور درمیانے کاروباری اداروں کو قرضوں کی فراہمی کے سلسلے میں معاشی طور پر پسماندہ طبقوں پر اپنی توجہ دوبارہ مرکوز کی۔ مزید یہ کہ اپریل 2021ء میں اسٹیٹ بینک نے اسلامی بینکاری صنعت کے لیے تیسری مرتبہ پانچ سالہ تزویراتی منصوبہ جاری کیا تاکہ تزویراتی سمت کا تعین اور صنعت میں نمو کے موجودہ تحرک کو مستحکم کیا جاسکے۔
رپورٹ کے مطابق اسٹیٹ بینک نے مالی سال21ء میں اپنے ضوابط کے دائرہ کار میں آنے والے اداروں پر خطرے پر مبنی نگرانی کے فریم ورک (Risk Based Supervision Framework) کا اطلاق کیا تھا ، جو ایک مستقبل بین فریم ورک ہے، اور اس کے توسط سے اسٹیٹ بینک کو خطرات کی پیشگی نشاندہی اور ملک کا مالی استحکام یقینی بنانے کے لیے بروقت اقدامات کے ذریعے خطرے پر مبنی ایک مربوط طرزعمل اپنانے کا موقع ملے گا۔
مالی سال 21ء میں اسٹیٹ بینک نے اپنے وسیع تر تزویراتی اہداف اور ادارہ جاتی اثرانگیزی کے حصول کی خاطر بڑے اقدامات کیے، جن کا مقصد افرادی قوت کو عملی بنانا، صنفی تنوّع کا حصول، ورک فلوز کے عمل کی خودکاریت، سائبر سیکورٹی اور انتظامِ خطر فریم ورک کی مضبوطی، اور بیرونی متعلقہ فریقوں کے ساتھ ابلاغ بڑھاکر شفافیت کو بہتر بنانا تھا۔
Comments are closed.