بھارت میں کورونا وائرس کی ہیبت ناک صورت حال پاکستان کے دروازے پر بھی دستک دیتی دکھائی دے رہی ہے۔
ماہرین کہتے ہیں کہ وزیر اعظم عمران خان اگر نریندر مودی کی طرح کورونا کی پہلی لہر پر فتح کے شادیانے ہی بجاتے رہے تو بھارت کی طرح پاکستان میں بھی صورتحال خوفناک و دل خراش ہو سکتی ہے۔
کورونا کی پہلی لہر کے دوران اقدامات اور وبا کے پھیلاؤ میں کامیابیوں کو فتح کے میڈل سمجھ کر سینے پہ سجانے اور دنیا کو دکھانے والے بھارتی اور پاکستانی وزرائے اعظم کو اپنے ممالک میں کورونا کے نئے اور شدید حملوں کا سامنا ہے۔
کورونا وائرس کی نئی، بدمست اور بےقابو لہر نے بھارت میں جابجا خوف اور موت کے مہیب سائے پھیلا دیے ہیں، اسپتالوں میں آکسیجن ختم تو سڑکوں پہ زندگی سسک سسک کے دم توڑتی دکھائی دے رہی ہے۔ عورتیں، بچے اور بوڑھے حکومتی بے بسی پہ ماتم کناں ہیں۔
ماہرین کے مطابق بھارت نے رواں سال فروری مارچ میں کورونا کا پھیلاؤ روکنے کا نادر موقع گنوایا، بھارتی وزیر اعظم نے فخر سے دنیا کو بتایا کہ بھارت کورونا کو شکست دے چکا ہے۔
بھارتی پارلیمنٹ میں کورونا کو شکست پر قرارداد بھی منظور کی گئی، اسی خوش فہمی میں دوسری کورونا لہر کے دوران بھارت میں سیاسی جلسوں اور کمبھ میلے کی کھلی آزادی رہی۔
کچھ اسی طرح پاکستان میں بھی ہوا، گزشتہ برس نومبر، دسمبر میں کورونا کی دوسری لہر کے دوران باتیں زیادہ اور عمل کم ہوا، بازاروں، بس اڈوں، ریستورانوں، منڈیوں اور مارکیٹوں معمولات نام نہاد احتیاطی تدابیر کے ساتھ جاری رہے۔
پہلی لہر پر فتح اور اسمارٹ لاک ڈاؤن کے شادیانے بجائے گئے، پھر دوسری اور پھر تیسری نے پاکستان کو آڑے ہاتھوں لیا۔
کورونا وائرس کی دوسری اور تیسری لہر کے دوران پہلی لہر جیسا لاک ڈاؤن اور احتیاطی اقدامات کہیں بھی دیکھنے کو نہ ملے۔
جون 2020 میں یومیہ کورونا کیسز کی تعداد تقریباً سات ہزار تک پہنچ گئی، وزیر اعظم عمران خان نے ملک میں دوسری بار لاک ڈاؤن کو خارج از امکان قرار دیا۔
دوسری لہر کے دوران گزشتہ سال 24 دسمبر کو ملک میں سب سے زیادہ اموات ایک سو گیارہ ہوئیں، ملک میں کورونا کی تیسری لہر یو کے سٹرین سب سے مہلک ثابت ہوئی۔
اسلام آباد اور دیگر شہروں میں آکسیجن کی کمی مریضوں اور لواحقین کے لیے کسی آفت ناگہانی سے کم نہیں، ماہرین کا کہنا ہے پاکستان کو بھارت جیسے جان لیوا خطرے سے نمٹنے کے لیے فوری پیشگی اقدامات کرنا ہوں گے۔
Comments are closed.