عالمی ادارہ صحت کی کورونا وائرس ویکسین کی برآمد پر پابندیاں عائد کرنے پر یورپی ممالک پر تنقید
غریب ممالک میں ابھی تک چند ویکسین پر ہی تجربہ ممکن ہو سکا ہے
یوریی یونین کیا کر رہی ہے؟
ویکسین کی فراہمی میں کمی کے تنازع کے بعد یورپی یونین اب اپنی حدود میں تیار ہونے والی ویکیسن کی برآمد پر پابندیاں عائد کر رہی ہے۔
اگر ویکسین تیار کرنے والی کمپنی یورپی ممالک کے ساتھ کیے گئے معاہدے پر پورا نہیں اترتی تو یہ نام نہاد قسم کا شفافیت کا نظام یورپی یونین میں شامل ممالک کو یہ اختیارات دیتا ہے کہ وہ ویکیسن کی دوسرے ممالک تک رسائی پر پابندی عائد کر دیں۔
یورپی کمیشن نے کہا ہے کہ ‘ہمارے لیے اپنے شہریوں کا تحفظ ترجیح ہے اور اس وقت ہمیں جس طرح کے چیلنجز کا سامنا ہے ان میں اس طرح کے اقدامات اٹھانے کے سوا کوئی اور رستہ نہیں بچا ہے۔‘
ان پابندیوں سے دنیا بھر میں سو سے زائد ممالک متاثر ہوں گے، جس میں برطانیہ، امریکہ، کینیڈا اور آسٹریلیا بھی شامل ہیں۔ مگر کئی اور ممالک کو اس پابندی سے استثنیٰ حاصل ہے جس میں غریب ممالک بھی شامل ہیں۔
تاہم یورپی یونین کو اس طرح کی پابندی کے اقدامات سے پیچھے ہٹنا پڑا تھا، جب سرحد کی دوسری طرف آئرلینڈ، ڈبلن اور لندن میں اس کے خلاف آواز اٹھائی گئی۔
یورپی یونین کا اصرار ہے کہ اس کی طرف سے پاپندی عائد کرنے کا یہ قدم عارضی ہے اس کا مقصد ویکسین کی برآمد کو روکنا نہیں ہے۔
ایسا اب کیوں ہو رہا ہے؟
یہ خبر اس وقت سامنے آئی جب یورپی ممالک کا ویکیسن تیار کرنے والی کمپنی آسترا زینیکا سے ویکسین کی سپلائی اور تقسیم میں سست روی پیدا ہونے پر تنازع پیدا ہوا۔
اس سے قبل جمعے کو یورپی کمیشن نے اپنے مؤقف کی حمایت میں آسترا زینیکا کمپنی کے ساتھ اپنا ایک خفیہ معاہدہ بھی عام کیا ہے، جس کے تحت یہ کمپنی یورپین ممالک کو جلد ویکسین فراہمی کے وعدوں کو پورا کرنے میں ناکام رہی ہے۔
یہ معاہدہ فارماسوٹیکل کمپنی کو اس بات کا پابند کرتا ہے کہ وہ ویکسین کی تیاری اور اس کی تقسیم کو یقینی بنانے کے لیے ہر ممکن کوشش کرے گی۔
آسترا زینیکا نے ویکسین کی ترسیل میں تاخیر کی وجہ نیدر لینڈ اور بلجیئم میں پلانٹس میں خرابی اور اس معاہدے میں تاخیر بتائی ہے۔
یورپی یونین کی طرف سے جاری کردہ نئے ضوابط کے تحت اس کمپنی کو یورپین یونین کی حدود سے باہر ویکسین کی فراہمی سے قبل اجازت لینا ہو گی۔ کمپنی کی طرف سے برآمدگی اجازت کی درخواست پر یورپین یونین کے تمام 27 ممالک غور کریں گے۔
فائزر کمپنی کی طرف سے بلجیئم میں تیار کردہ ویکسین اس وقت برطانیہ برآمد کی جا رہی ہے۔
یورپی یونین کا اصرار ہے کہ آسترا زینیکا کمپنی کی طرف سے جو ویکیسین برطانیہ کے اندر تیار ہو رہی ہے، معاہدے کے تحت یورپی یونین کے شہریوں کا اس پر پہلا حق ہے۔
یورپین یونین کا فائزر کمپنی سے بھی ویکسین کی سپلائی پر تنازع ہے، جو معاہدے کے تحت مارچ تک یورپین یونین کو اس مقدار میں ویکسین فراہم نہیں کر سکے گی۔ فائزر نے اس کمی کی وجہ بلجیئم میں ہنگامی بنیادوں پر کمپنی میں توسیع کو بتایا ہے۔
برآمدگی پابندیوں سے کن ممالک کو استنثیٰ حاصل ہے؟
یورپی یونین نے ویکسین کی اپنی سرحد کے باہر برآمد پر 92 اسثنیٰ بھی دے رکھے ہیں، جس میں ‘کوویکس‘ کو یہ ویکسین دی جا سکتی ہے، جس سکیم کے تحت غریب ممالک کی مدد کی جاتی ہے اور وہاں اس ویکسین کی تقسیم کو یقینی بنایا جاتا ہے۔ سوئٹزرلینڈ، مغربی بالکن ریاستیں، ناروے اور شمالی افریقہ کو ان پابندیوں سے استثنیٰ حاصل ہے۔
بحیرۂ روم والے ممالک، جن میں لبنان اور اسرائیل شامل ہیں، پر بھی ویکسین فراہمی پر پابندی عائد نہیں کی گئی ہے۔
یورپی یونین کی ہیلتھ کمشنر سٹیلا کیرائکیدز
سنیچر کو عالمی ادارہ صحت کے ترجمان مارگریٹ ہارس نے بی بی سی کو بتایا کہ اس سے قبل کہ ہر ملک اس ویکسین کا بڑا حصہ لے، یہ ویکسین دنیا بھر میں تمام کمزور طبقات اور طبی عملے کو دی جانی چاہیے۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ برطانیہ جیسے امیر ممالک جب ملکی سطح پر ترجیحی طبقات کو ویکسین لگا چکے ہوں گے تو پھر انھیں ملکی سطح پر یہ مہم روک کر باہر کے ممالک میں جا کر مدد کرنا ہو گی۔
وہ کہتی ہیں کہ ہم تمام ممالک کو ایسے حالات میں ایسا کرنے کو کہہ رہے ہیں، ٹھہریے، ایسے طبقات کا انتظار کیجیے۔ بجائے اس کے کہ آپ کسی ایک ملک کے لوگوں کو جلدی سے ویکسین لگائیں۔ اس کے لیے ہمیں بہت کچھ کرنا ہے اور یہ ہم سب نے مل کر کرنا ہے۔
ان کے مطابق ابھی تک کورونا ویکسین کے خلاف تیار کی جانے والی 95 فیصد ویکسین صرف دس ممالک کے پاس ہے جبکہ ابھی تک صرف دو کم اور متوسط آمدنی والے ممالک نے ویکسین لگانے کا عمل شروع کیا ہے۔
یورپی یونین نے مندرجہ ذیل کمپنیوں کے ساتھ ویکسین کے معاہدات کر رکھے ہیں:
آسترا زینیکا ۔۔۔ 400 ملین
سانوفی۔ جی ایس کے 300 ملین
جانسن اینڈ جانس ۔۔ 400 ملین
فائز بائیو این ٹیک ۔۔ 600 ملین
کیور ویک ۔۔ 405 ملین
موڈرنا ۔۔ 160 ملین
جیسے جیسے ممالک کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو رہا ہے، دباؤ بڑھ رہا ہے
بی بی سی کی یورپ کی ایڈیٹر کیتیا ایڈلر کا کہنا ہے کہ کچھ یورپی ممالک برسلز سے بے صبری کے ساتھ پیش آ رہے ہیں، جنھیں یہ امید ہے کہ اس کی ویکسین خریدنے کی سکیم یورپین یکجہتی اور استحکام کا باعث بنے گی۔
بی بی سی کے نمائندے کے مطابق کمیشن کا مذاکراتی عمل، یورپی یونین کے میڈیکل ریگولیٹر کی طرف سے ویکسین کی منظوری کا مرحلہ اور اب ویکسین کی فراہمی میں تاخیر سے یورپی یونین کے شہری اب کئی جوابات چاہتے ہیں اور وہ اس حوالے سے سخت اقدامات کے خواہاں ہیں۔
مستقبل میں جرمنی کی ممکنہ چانسلر، مارکس سودر، نے جمعے کو زیڈ ڈی ایف ٹی وی کو بتایا ہے کہ یہ ان کا تاثر ہے کہ کمیشن نے اس ویکسین کے لیے بہت تاخیر سے آرڈر دیا ہے اور صرف چند کمپنیوں پر ہی انحصار کیا ہے۔ ان کے مطابق ان ممالک نے یورپی یونین کے لگے بندھے بیوروکریٹک انداز میں قیمتوں کا تعین کیا اور صورتحال کی درست جائزہ نہیں لیا ہے۔
جمعے کو فرانس کے صدر ایمینوئل مکخواں نے آسترا زینیکا کمپنی کی ویکسین پر یہ سوال اٹھایا ہے کہ یہ کتنی کارآمد ہے اور کہا ہے اس کا 65 سال سے زائد افراد پر اثر بہت کم ہوتا ہے۔
فرانسیسی صدر کے اس دعوے کو آکسفورڈ یونیورسٹی کے پروفیسر سر جون بیل، جو اس ویکسین کی تیاری کے مرحلے کا خود حصہ رہے ہیں، نے مسترد کر دیا ہے۔
سر جان نے بی بی سی ریڈیو فور ٹوڈے کے پروگرام میں بتایا کہ انھیں یہ شک ہے کہ یہ فرانس کے صدر کی طرف سے ڈیمانڈ مینجمنٹ ایک حربہ ہے۔ جب ان سے یہ پوچھا گیا کہ کیا فرانس کے صدر نے ایسا اس وجہ سے کہا ہے تا کہ اس ویکیسن کی طلب میں کمی لائی جا سکے۔ ان کا کہنا تھا اگر آپ کے پاس یہ ویکسین نہیں ہے تو پھر آپ کے پاس بہتر آپشن یہی رہ جاتا ہے کہ آپ اس کی طلب میں کمی لائیں۔
Comments are closed.