بدھ14؍شوال المکرم 1442ھ26؍مئی 2021ء

کواڈ اجلاس: مقصد صرف ویکسین میں تعاون یا چین بھی نشانے پر؟

کواڈ اجلاس: مقصد صرف ویکسین میں تعاون یا چین بھی نشانے پر؟

Image shows the virtual summit on Friday

جمعہ کو چار ممالک کے کواڈ گروپ کے پہلے اجلاس میں انڈیا کے وزیر اعظم نریندر مودی، امریکی صدر جو بائیڈن، آسٹریلوی وزیر اعظم سکاٹ موریسن اور جاپانی وزیر اعظم یوشیہدی سوگا نے شرکت کی۔

اس ورچوئل میٹنگ کے بعد انڈیا کے سکریٹری خارجہ ہرشوردھن شرینگلا نے کہا کہ چاروں رہنماؤں نے انڈو پیسیفک خطے میں کورونا ویکسین کی تیاری اور تقسیم میں تعاون پر اتفاق کیا ہے۔

بین الاقوامی امور کے ماہر کاشیش پیرپیانی نے اس ملاقات کو تاریخی قرار دیتے ہوئے کہا ‘چاروں سربراہان مملکت کے اجلاس میں شریک ہونا خود تاریخی ہے۔’

لیکن ان چار ممالک پر مشتمل کواڈ گروپ کو ایشیا میں چین کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کے خلاف ایک اتحاد کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ اس اجلاس کے بعد بھی کچھ سربراہان کی طرف سے جو تبصرے کیے گئے ہیں ان کا بظاہر نشانہ چین ہی تھا۔

یہ بھی پڑھیے

اس اجلاس سے کچھ دیر قبل چین نے ایک بیان جاری کیا کہ ‘اقوام کو کسی بھی تیسرے فریق کے مفادات کو نشانہ نہیں بنانا چاہیے اور ان ممالک کو مخصوص بلاکس نہیں قائم کرنے چاہیئیں۔’

کاشیش پیرپیانی نے چین پر تنقید کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ کواڈ گروپ کو صرف چین مخالف گروہ نہیں سمجھنا چاہیے۔

اس اجلاس میں مزید کون سے امور زیر بحث آئے؟

یہ سربراہی سطح پر ہونے والا پہلا اجلاس تھا اور انڈیا کے وزیر اعظم کے مطابق اس کے ایجنڈے پر ویکسین، موسمیاتی تبدیلی اور ابھرتی ہوئی ٹیکنالوجی جیسے امور تھے۔ انڈیا کے سیکریٹری خارجہ ہرش وردھن شرنگلا کا کہنا تھا کہ چاروں سربراہان نے وسائل جمع کرنے، پیداواری صلاحیت بڑھانے اور مواصلات کے نظام کو بہتر بنانے کے لیے بحرالکاہل کے خطے میں کورونا ویکسین کی تیاری اور تقسیم میں تعاون پر اتفاق کیا ہے۔

اس گروپ میں شامل تمام ممالک نے اس براعظم کو ‘آزاد اور اور سب کے لیے قابل دسترس’ رکھنے کے عزم کا اظہار بھی کیا۔

اس اجلاس کی صدارت امریکہ کے صدر جو بائیڈن نے کی۔

Japan's Prime Minister Yoshihide Suga pictured at the summit

امریکی صدر نے اس اجلاس کے بعد اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ ‘ہم نے اپنے عزم کا اعادہ کیا کہ ہمارے خطے کا نظم و نسق بین الاقوامی قوانین کے مطابق چلایا جائے اور اس بات کا بھی عزم کیا ہے کہ ہم عالمی اقدار کو یقینی بنائیں گے اور اس خطے کو استبداد سے آزاد رکھیں گے۔’

آسٹریلیا کے وزیر اعظم سکاٹ موریسن نے کہا ہے کہ یہ اجلاس ایک نئے آغاز کی نمائندگی کرتا ہے۔ جاپان کے وزیر اعظم یوشیہدی سوگا نے بیجنگ کے خلاف زیادہ سخت اور واضح مؤقف اختیار کیا۔

انھوں نے میڈیا کے نمائندوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ جاپان نے چین کی جانب سے اس خطے کی قانونی حیثیت بدلنے کی کوششوں کی ‘سخت مخالفت’ کی ہے۔ انھوں نے بتایا کہ دیگر رہنماؤں نے بھی ان کے اس تبصرے کی حمایت کی ہے۔

کورونا ویکسین کی فراہمی پر اتفاق

Map showing the number of vaccine doses administered per 100 people. Updated 12 March.

امریکہ، آسٹریلیا، انڈیا اور جاپان نے زیادہ تر ایشیائی ممالک کو سنہ 2022 کے آخر تک کورونا وائرس کی ویکسین فراہم کرنے پر اتفاق کر لیا ہے۔

کواڈ گروپ کے اس آن لائن اجلاس میں ہونے والی گفتگو کے بعد متوقع طور پر ویکسین کی ایک خوراک پر مشتمل جانسن اینڈ جانسن پروڈکٹ ہو گی اور انڈیا میں تیار کی جائے گی۔

امریکی حکام کا کہنا ہے کہ ‘اس بڑے پیمانے پر ویکسین تقسیم کیے جانے کے وعدے’ کے تحت پہلے مرحلے میں جنوب مشرقی ایشیائی ممالک میں یہ ویکسین تقسیم کی جائے گی۔’

امریکہ کے قومی سلامتی کے مشیر جیک سلیوان نے جمعے کو اس اجلاس کے فوری بعد کہا کہ انڈیا میں تیاری، امریکی ٹیکنالوجی، جاپان اور امریکہ کی طرف سے مالی مدد اور آسٹریلیا کی جانب سے ویکسین کی ترسیل کے ذریعے ۔۔۔ ہم نے ایک ارب خوراکیں فراہم کرنے کا عزم کیا ہے۔

ان کے مطابق یہ ویکسین ایسوسی ایشن آف ساؤتھ ایسٹ ایشین نیشنز (آسیان) کو اور بحرالکاہل کے ممالک سمیت دیگر ممالک کو بھی فراہم کی جائے گی۔ آسیان کی تنظیم 10 ممالک پر مشتمل ہے اور 50 کروڑ لوگوں کی نمائندگی کرتی ہے۔ تھائی لینڈ، انڈونیشیا اور فلپائن بھی اس تنظیم کے ارکان ہیں۔

عالمی ادارہ صحت نے جمعے کو اس ویکسین کی ابتدائی منظوری دے دی ہے جو انڈیا کی کمپنی بائیولوجیکل لمیٹڈ نے تیار کرنی ہے۔ یہ ویکسین جانسن اینڈ جانسن کی اضافی ویکسین کے طور پر تیار کی جائے گی۔

انڈیا کے وزیر اعظم نریندر مودی نے اس اجلاس کے بعد ٹوئٹر پر لکھا کہ جاپان، امریکہ اور آسٹریلیا کی مدد سے انڈیا کی ویکسین تیار کرنے کی صلاحیت کو مزید بڑھایا جائے گا۔

2px presentational grey line

تجزیہ

باربرا پلیٹ اشر، نامہ نگار، امریکی محکمہ خارجہ

پس منظر میں چین ہی تھا

ان چار ممالک میں تعاون کا سلسلہ سنہ 2004 میں سونامی پر قابو پانے کی مشترکہ کوششوں کے بعد سے ہوا ہے۔ مگر صدر بائیڈن بیجنگ کے مقابلے میں ایک مضبوط اتحاد قائم کرنے کی اپنی پالیسی کے تحت اس اتحاد کو سربراہی سطح پر لے کر گئے ہیں۔

تاہم صدر بائیڈن کی انتظامیہ محتاط ہے اور اس اتحاد کو براہ راست چین سے نہیں جوڑا ہے۔ تاہم امریکہ چین کے عالمی سطح پر اور اس خطے میں بڑھتے ہوئے جارحانہ کردار کو کم کرنے کے لیے سفارتی کوششوں اور اتحاد بنانے میں مصروف عمل ہے۔ اس اجلاس کے بعد چین سے متعلق متعدد ڈھکے چھپے تبصرے کیے گئے ہیں۔

اس کواڈ اتحاد کے اجلاس میں ’آزاد اور سب کی دسترس میں موجود انڈو بحرالکاہل‘ کی بات کی گئی ہے۔ اور یہ بات ایک ایسے وقت میں کی گئی جب یہ ممالک چین کی طرف سے سکیورٹی چیلنجر کا سامنا کر رہے ہیں۔ ان ممالک کی طرف سے ایشیا میں بڑے پیمانے پر کورونا ویکسین کی تیاری اور ترسیل انھیں چین کی طرف سے شروع کی گئی اس کی اپنی ویکسین ڈپلومیسی کے مقابلے پر لا کھڑا کرے گی۔ ان ممالک کی طرف سے ابھرتی ہوئی ٹیکنالوجی کی دنیا میں تعاون کی خواہش بھی چین کی سائبر دنیا میں ترقی اور اثر و رسوخ دیکھ کر پیدا ہوئی ہے۔

2px presentational grey line

کواڈ کیا ہے اور کب قائم ہوا تھا؟

کواڈ چار ممالک کا سٹریٹجک اتحاد ہے۔ کواڈ کو سنہ 2007 میں اُس وقت کے جاپانی وزیر اعظم شنزو آبے نے تشکیل دیا تھا۔ اسی سال چاروں ممالک کی بحریہ نے مشترکہ مشق کی لیکن اس کے بعد سے اس سمت میں کوئی ٹھوس کام نہیں ہو سکا۔

مگر آسٹریلیا کی طرف سے سنہ 2008 میں اس گروپ سے علیحدگی اختیار کرنے کے بعد یہ ایک دہائی تک فعال نہیں رہا۔ اس گروپ کو سنہ 2017 کے آخر میں سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پھر سے فعال کر دیا، جب ان کا چین سے ایک تنازع پیدا ہوا۔

کواڈ کو سنہ 2007 میں اس وقت کے جاپانی وزیر اعظم شنزو آبے نے تشکیل دیا تھا۔ اس سال، چاروں ممالک کی بحریہ نے مشترکہ مشق کی۔ لیکن اس کے بعد سے اس سمت میں کوئی ٹھوس کام نہیں ہو سکا۔

اس گروپ کو عام طور پر چین کے اثر و رسوخ کو کم کرنے کی کوشش میں مصروف اتحاد کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ اگرچہ جمعے کے اجلاس میں چین کے بارے میں زیادہ تو کچھ نہیں کہا گیا مگر پھر بھی چین کے میڈیا نے اس گروپ پر کڑی تنقید کی ہے۔

گلوبل ٹائمز نے چین کے ماہرین کی تجاویز شامل کی ہیں جس میں انھوں نے کہا ہے کہ اس بات کے امکانات ہیں کہ کواڈ گروپ میں شامل ملک صرف اپنے مفادات کی نگرانی کریں اور اس گروپ کو محض ایک خالی باتوں کا ادارہ قرار دیا ہے۔

چین خود بھی ایشیا پیسیفک خطے میں ویکیسن ڈپلومیسی میں مصروف عمل ہے۔

چین کے دفتر خارجہ نے کہا ہے کہ ان کا ملک فوری طور پر 69 ممالک کو ویکسین عطیہ کرے گا۔ ان کے مطابق چین اس وقت 42 ممالک کو ویکسین فراہم کر رہا ہے۔

کواڈ

انڈیا کے تجزیہ کار اس اجلاس کو کیسے دیکھتے ہیں؟

بین الاقوامی امور کے ماہر کشش پیرپیانی نے اس ملاقات کو تاریخی قرار دیتے ہوئے کہا کہ چاروں سربراہان مملکت کے اجلاس میں شریک ہونا خود تاریخی ہے۔ اس ملاقات میں کواڈ گروپ کی طرف ان ممالک کی سنجیدگی کا بھی اظہار کیا گیا۔

اس اجلاس سے کچھ دیر قبل چین نے ایک بیان جاری کیا کہ ’اقوام کو کسی بھی تیسرے فریق کے مفادات کو نشانہ نہیں بنانا چاہیے۔ چین نے کہا کہ ممالک کو خصوصی بلاکس نہیں بنانے چاہییں۔

کشش پیرپیانی نے چین کی تنقید کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ کواڈ گروپ کو صرف چین مخالف گروہ نہیں سمجھنا چاہیے۔

ان کا کہنا ہے کہ مقصد ایشیا پیسیفک کے خطے میں باہمی تعاون بڑھانا ہے۔

اس اجلاس کے بعد کوئی باضابطہ اعلامیہ جاری نہیں کیا گیا لیکن چاروں ممالک کے رہنماؤں نے بحر الکاہل کے خطے میں باہمی تعاون بڑھانے پر زور دیا۔

کشش پرپیانی کا کہنا ہے کہ جب تک تمام معلومات سامنے نہیں آتیں تب تک ویکسین میں تعاون علامتی سمجھا جائے گا۔ انڈیا کے وزیر اعظم نریندر مودی نے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہم اپنی جمہوری اقدار اور ایک جامع، آزاد اور آزاد بحرالکاہل کے خطے سے وابستگی کی وجہ سے متحد ہیں۔

تجزیہ کار اس اجلاس میں امریکہ کی شرکت کو بہت اہمیت دے رہے ہیں۔

پرپیانی کا کہنا ہے کہ جی -7 کے بعد بائیڈن کی کسی ایسے اجلاس میں پہلی شرکت ہے جہاں دیگر ممالک کے سربراہان بھی شریک تھے جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ امریکہ بحر الکاہل کے خطے میں اپنے کردار کے بارے میں سنجیدہ ہے۔

دوسری طرف آسٹریلیا کا تجارت، سلامتی اور جاسوسی کے معاملات پر بھی چین کے ساتھ تناؤ بڑھ رہا ہے جس کی وجہ سے وہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے قریب آ گیا ہے۔

پرپیانی کا کہنا ہے کہ چاروں ممالک کے مابین معاہدہ ہوا ہے کہ یہ صرف چین مخالف دھڑا یا صرف فوجی دھڑا نہیں ہے بلکہ ایک کثیر جہتی گروپ ہے۔ اسے مختلف امور پر کام کرنا چاہیے۔

BBCUrdu.com بشکریہ
You might also like

Comments are closed.