کوانٹم کمپیوٹنگ: امریکہ، چین اور انڈیا سمیت دیگر ممالک کوانٹم کمپیوٹرز بنانے کی دوڑ میں کیوں؟
آنے والے وقتوں میں کوانٹم کمپیوٹنگ مؤثر طریقے سے دنیا اور ہماری زندگیوں کو بدل سکتی ہے۔ اس ٹیکنالوجی کی اہمیت کا احساس کرتے ہوئے انڈیا کی حکومت نے گذشتہ سال ٹیکنالوجی کی ترقی کے لیے بجٹ میں آٹھ ہزار کروڑ روپے مختص کیے تھے۔
اس کے بعد رواں سال اگست کے آخری ہفتے میں حکومت نے کوانٹم سیمولیٹر ٹول کِٹ ’کیو سِم‘ لانچ کی جس کے ذریعے سائنسدانوں اور کاروباری افراد کے لیے اس شعبے میں تحقیق کرنا آسان بنا دیا گیا۔
مستقبل کو نئی سمت دینے کے لیے انڈیا کے علاوہ دیگر ممالک بھی اس ٹیکنالوجی میں سرمایہ کاری کر رہے ہیں۔ امریکی حکومت نے سنہ 2018 میں نیشنل کوانٹم انیشیٹو ایکٹ نافذ کیا اور اس کے لیے 1.2 بلین ڈالر کا انتظام کیا۔
چین کی کمیونسٹ حکومت میں کوانٹم کمیونیکیشنز سنہ 2016 یعنی 13ویں پانچ سالہ منصوبے کے تحت اہم صنعتوں میں حکمت عملی کے طور پر شامل ہیں۔ برطانیہ نے سنہ 2013 میں اس کے لیے ایک قومی حکمت عملی بنائی تھی اور کینیڈا نے سنہ 2016 میں اس ٹیکنالوجی میں 50 ملین کینیڈین ڈالر کی سرمایہ کاری کا اعلان کیا تھا۔
ان کے علاوہ جرمنی، فرانس، جنوبی کوریا، روس، جاپان اور گوگل، ایمیزون، مائیکرو سافٹ جیسی کمپنیاں بھی اس ٹیکنالوجی میں سرمایہ کاری کر رہی ہیں۔
تو اس بار ہم اس بات کی تحقیق کر رہے ہیں کہ کوانٹم کمپیوٹرز کیا ہیں اور اسے بنانے کے لیے ملکوں کے درمیان مقابلہ کیوں ہے۔
کوانٹم کمپیوٹر: غیر یقینی کی سائنس
کوانٹم کمپیوٹنگ کو سمجھنے سے پہلے یہ سمجھ لیں کہ کوانٹم کیا ہے؟
اس کی بحث بیسویں صدی کے اوائل میں شروع ہوئی۔ یہ وہی دور تھا جب البرٹ آئنسٹائن نے دنیا کو تھیوری آف ریلیٹیوٹی یا نظریہ اضافت دیا تھا۔
اب تک طبیعیات (فزکس) کلاسیکی نظریے پر مبنی تھی، جس کا تعلق حقیقت میں ہونے والے واقعات کی وضاحت سے تھا۔ اس کے مطابق کائنات میں چیزوں کا وجود ان کی تبدیلی سب کچھ یقینی ہے۔
ڈاکٹر سوہنی گھوش ولفریڈ لاریئر یونیورسٹی، کینیڈا میں فزکس اور کمپیوٹر سائنس کی پروفیسر ہیں۔
وہ کہتی ہیں کہ ان معلومات کو ایک طرف رکھتے ہوئے آپ کو ایک مختلف نقطہ نظر رکھنا ہوگا کہ شاید کائنات میں ہر چیز اس طرح طے نہیں جیسا کہ ہم مانتے رہے ہیں۔ ہمیں یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ طبیعیات کے اصولوں میں ایک بنیادی غیر یقینی صورتحال ہے۔
اور یہ غیر یقینی صورتحال مادے کے سب سے چھوٹے ذرے، ایٹم کے مالیکیول کے انداز میں مضمر ہے۔ کوانٹم میکانکس ان چھوٹے مالیکیولز کے رویے کا مطالعہ ہے، جسے طبیعیات کے کلاسیکی نظریہ کے دائرے میں سمجھنا ناممکن ہے۔
سائنسدان نیلس بوہر نے اس غیر یقینی صورتحال کے بارے میں کہا کہ ’ہر وہ چیز جسے ہم حقیقی مانتے ہیں وہ چیزوں سے بنی ہے جسے حقیقی نہیں کہا جا سکتا۔ شاید یہی وجہ تھی کہ آئنسٹائن نے اس کے بارے میں کہا تھا کہ اگر یہ سچ ہوتا تو یہ سائنس کے طور پر فزکس کا خاتمہ ہوتا۔‘
ڈاکٹر سوہنی گھوش کہتی ہیں کہ ’میں اسے اس طرح سمجھنے کی کوشش کرتی ہوں کہ ایک سکّے کے دو رُخ ہوتے ہیں، ہیڈ اور ٹیل یعنی سر اور دم۔ اگر سکّے کو گھمایا جائے تو سر یا دم آئے گا، اس کا امکان 50، 50 فیصد کے برابر ہے۔‘
ان کا کہنا ہے کہ طبیعیات کے مطابق جب کوئی سکّہ پھینکا جاتا ہے تو یہ یا تو سر یا دم ہوتا ہے۔ لیکن اگر ہم اسے کوانٹم سکّے کے طور پر دیکھیں تو وقت کے کسی ایک مقام پر صرف سر یا دم ہی نہیں ہوتا ہے۔ ایک سکہ اچھالا جاتا ہے، لیکن اس کی شناخت غیر یقینی ہے۔
آپ کوانٹم سکّے کو دو اطراف تک محدود نہیں کر سکتے۔ اس میں عام سکّوں کی نسبت بہت زیادہ غیر یقینی صورتحال ہے، یعنی وہ غیر بائنری ہیں۔
وہ کہتی ہیں کہ ’ہم اس کو سپرپوزیشن کہتے ہیں۔ یعنی جب سکّہ گھومتا ہے تو ایک وقت میں دونوں اطراف ایک ساتھ ہوتے ہیں۔ یعنی ایک وقت میں ایک سے زیادہ امکانات ہوتے ہیں۔ یہ ہمارے اب تک کے تجربے سے اتنا مختلف ہے کہ یہ سمجھا جاتا ہے کہ یہ آسان نہیں ہے۔‘
اس اصول پر کام کرنے والے سائنسدانوں کا خیال ہے کہ یہ غیر یقینی صورتحال یعنی غیر بائنری ہونا کسی چیز کی فطرت ہے۔
ڈاکٹر سوہنی گھوش کہتی ہیں کہ ’کوانٹم کمپیوٹرز کا تصور ہی انھیں انقلابی بناتا ہے۔‘
وہ کہتی ہیں کہ یہ ٹیکنالوجی فزکس کے بالکل مختلف اصولوں پر کام کرتی ہے۔ یہ ایسی چیز ہے کہ گاڑی آپ کو ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جانے کا کام کرے گی، لیکن یہ سائنس کے مختلف اصولوں پر مبنی ہو گی۔
غیر یقینی صورتحال کوانٹم دنیا میں ہر چیز کی نوعیت ہے، اور یہ ان لوگوں کے لیے سمجھنا ضروری ہے جو ایسی مشینیں بنانا چاہتے ہیں۔
کوانٹم کمپیوٹر کیوں خاص؟
پروفیسر سٹیفنی وینر ڈافٹ یونیورسٹی آف ٹیکنالوجی میں سینٹر فار کوانٹم کمپیوٹنگ چلاتی ہیں۔ وہ بتاتی ہیں کہ کس طرح کوانٹم کمپیوٹر عام کمپیوٹر سے بہتر ہے۔
وہ کہتی ہیں کہ ’ایک عام کمپیوٹر معلومات کو صفر اور ایک میں پروسیس کرتا ہے۔ اگر آپ مجھے ایک ویڈیو بھیجتے ہیں، تو کمپیوٹر اسے زیرو اور ون سیریز کے لاکھوں ٹکڑوں میں تقسیم کر کے مجھے بھیجتا ہے، اور پھر میں اسے دوبارہ بناتی ہوں۔ آپ کی بھیجی ہوئی ویڈیوز دیکھیں۔ لیکن ایک کوانٹم کمپیوٹر پر ہم کوانٹم بٹس میں کام کرتے ہیں۔ اس میں صفر اور ایک کے علاوہ دونوں ایک ساتھ ہو سکتے ہیں۔‘
یہ اس سپرپوزیشن کی وجہ سے ہے جس کے بارے میں ہم نے کچھ دیر پہلے بات کی تھی۔ یہ جاننے کے لیے کہ یہ کیسے ہوتا ہے، تصور کریں کہ آپ ایک بھول بھلیاں میں ہیں اور باہر نکلنے کے لیے کمپیوٹر کی مدد لیں۔
پروفیسر سٹیفنی وینر کہتی ہیں کہ اگر آپ بائیں طرف جانا چاہتے ہیں، تو آپ کمپیوٹر سے پوچھتے ہیں کہ آپ کے بائیں طرف راستہ تلاش کرنے کا کتنا امکان ہے۔ ایک کوانٹم بِٹ صفر اور ایک ہو سکتا ہے یا بائیں اور دائیں کو ایک ساتھ کہہ لیں، آپ دونوں کو تلاش کر سکتے ہیں۔ یعنی ایک وقت میں دونوں امکانات کی تلاش ہوسکتی ہے۔ یہ اتنا آسان نہیں ہے، لیکن یہ آپ کو بتاتا ہے کہ ایک کوانٹم کمپیوٹر میں عام کمپیوٹر کے مقابلے میں کچھ سوالات ہوتے ہیں۔ جوابات تیزی سے مل سکتے ہیں کیونکہ ایک کوانٹم کمپیوٹر ایک ہی وقت میں متعدد امکانات پر کام کر سکتا ہے۔
یہ بھی پڑھیے
سوال یہ پیدا ہو سکتا ہے کہ ایسا سپر فاسٹ کمپیوٹر طب کے شعبے میں کیا کردار ادا کر سکتا ہے۔ کیا یہ نئی دوائیں بنانے میں مدد کر سکتے ہیں؟
وہ کہتی ہیں کہ آپ تجربہ گاہ میں جا کر یہ جانچ سکتے ہیں کہ آیا کوئی کیمیکل دوا بنانے میں استعمال کیا جا سکتا ہے۔ چونکہ اس میں وقت لگ سکتا ہے، اس لیے لوگ نئی چیزوں کے بارے میں تحقیق کرنے کے بجائے نقلی طریقے سے سیکھنا چاہتے ہیں کہ کیا اس کا صحیح استعمال ہو گا یا نہیں۔
کیا ایک عام کمپیوٹر ایسا کر سکتا ہے؟
پروفیسر سٹیفنی وینر کہتی ہیں کہ نظریاتی طور پر ایک عام کمپیوٹر وہ سب کچھ کر سکتا ہے جو ایک کوانٹم کمپیوٹر کر سکتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس میں وقت کتنا لگے گا۔ کوانٹم کمپیوٹر میں یہ کام چند گھنٹوں میں ہو جائے گا، جب کہ ایک عام کمپیوٹر میں یہ کام کرنے میں زیادہ وقت لگے گا۔
اس کا مطلب ہے کہ کوانٹم کمپیوٹر ادویات کی تحقیق میں ایک نیا انقلاب لا سکتے ہیں۔ ایسے میں ان کی مانگ بڑھنی چاہیے، لیکن ایسا نہیں ہے۔
سخت چیلنج
پروفیسر ونفریڈ ہنسنگر سسیکس سینٹر فار کوانٹم ٹیکنالوجیز کے ڈائریکٹر ہیں۔ وہ کوانٹم کمپیوٹرز کی ٹیکنالوجی کو حقیقت بنانا چاہتا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ کوانٹم کمپیوٹر ایک طرح سے سائنس کا سب سے اہم اور گہرا راز ہے۔ ان میں حیرت انگیز امکانات ہیں اور وہ بہت سے کام کر سکتے ہیں۔ لیکن ان کی تعمیر کرنا اتنا ہی مشکل چیلنج ہے کیونکہ اس کے لیے آپ کو سپرپوزیشن جیسے عمل کو کنٹرول کرنے کی ضرورت ہے۔ جو تقریباً ناممکن ہے۔ اور ایسا کیے بغیر آپ حساب نہیں کر پائیں گے۔
پچھلی تین دہائیوں سے سائنسدان ایسا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن زیادہ تر اس میں کامیاب نہیں ہو سکے۔
پروفیسر ہنسنگر بتاتے ہیں کہ دو پلیٹ فارمز کے نتائج مثبت تھے۔ ان میں سے ایک سپر کنڈکٹنگ سرکٹ ہے جسے مائیکرو سافٹ، آئی بی ایم اور گوگل کوانٹم کمپیوٹر بنانے کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔ یہ ایک خاص قسم کا الیکٹرانک سرکٹ ہے جسے استعمال کرنے کی ضرورت ہے۔ اسے دو سو پچاس ڈگری سیلسیئس سے کم درجہ حرارت پر ٹھنڈا کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔
غلطی کے مارجن کے بغیر ’کیوبٹ‘ بنانے کی صلاحیت کا انحصار اس بات پر ہے کہ مائیکرو چِپ فریج کو کتنی بڑی مقدار میں ٹھنڈا کرنے کے قابل ہے۔ اور سپر کنڈکٹنگ سرکٹس کا مسئلہ یہ ہے کہ بڑا فریج بنانا آسان نہیں ہے۔
پروفیسر ہنسنگر اور ان کی ٹیم اس مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ وہ مائیکرو سکوپک پارٹیکل آئنز کو پھنسانے کا راستہ اختیار کر رہے ہیں۔ آئن ایسے مالیکیول ہیں جن کا برقی چارج کم ہوتا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ اگر آئنز کو الگ کر دیا جائے تو انھیں عام درجہ حرارت پر استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اس تکنیک میں آپ ایک مائیکرو چِپ استعمال کرتے ہیں جو ایک الیکٹرک فیلڈ بناتی ہے۔ اس کی وجہ سے چارج شدہ آئن مائیکرو چِپ کے اوپر تیرتے ہیں۔
ہر ایک آئن ایک مائیکروچِپ کے طور پر کام کرتا ہے۔ کوانٹم بٹ، جس میں صفر اور ایک کی معلومات کو محفوظ کیا جا سکتا ہے۔ ایسے بہت سے آئن بنائے جاتے ہیں اور ان کے ذریعے کوانٹم کمپیوٹنگ کی جا سکتی ہے۔
امریکی انٹیلی جنس کنٹریکٹر ایڈورڈ سنوڈن نے حکومت سے متعلق کئی دستاویزات کو لیک کیا تھا
واضح رہے کہ یہ ٹیکنالوجی جلد عام استعمال کے لیے دستیاب نہیں ہونے والی ہے۔ لیکن جن مشینوں پر یہ کام کیا جاتا ہے وہ کیسی نظر آتی ہیں؟
پروفیسر ہنسنگر کا کہنا ہے کہ وہ کمپیوٹر بہت بڑے ہیں، آپ کہہ سکتے ہیں کہ یہ دنیا کے پہلے کمپیوٹرز سے صرف چند میٹر چھوٹے ہیں جو ویکیوم ٹیوب سسٹم پر مبنی تھے۔ ان میں لیزر، الیکٹرانکس اور آپٹیکل سسٹمز ہیں۔ یہ سائنس فکشن ہے۔ ایسا لگتا ہے جیسے مستقبل کی مشینیں فلم میں دکھائی گئی ہیں۔
پروفیسر ہنسنگر اور ان کی ٹیم اب تک کوانٹم کمپیوٹر کے پانچ پروٹو ٹائپ بنا چکی ہے۔ لیکن دوا بنانے جیسے کام کے لیے انھیں بڑی تعداد میں ہاتھ کی ضرورت ہوتی ہے۔ ایسے میں وہ بڑے پیمانے پر کیوبٹس بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
وہ بتاتے ہیں کہ کوانٹم کمپیوٹرز کے استعمال میں یہ سب سے بڑا چیلنج ہے۔ دنیا بھر میں اس وقت جو کوانٹم کمپیوٹر بنائے جا رہے ہیں وہ بہت کم کیوبٹس بنانے کے قابل ہیں۔ ہم دس بیس کیوبٹس بنانے کی بجائے ہزاروں بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
پروفیسر ہنسنگر کا کہنا ہے کہ یہ 1940 کی دہائی کی بات ہے جب چھوٹے چھوٹے کام کرنے کے لیے بڑی مشینیں ہوا کرتی تھیں، جو مہنگی ہوتی تھیں اور جن کو چلانا مشکل ہوتا تھا۔ وقت کے ساتھ ساتھ یہ تکنیک عام ہونے لگی۔ انھیں امید ہے کہ چند برسوں کے بعد کلاؤڈ کے ذریعے کوانٹم کمپیوٹر استعمال کر سکیں۔
کوانٹم کمپیوٹنگ کی دوڑ جو خلائی دوڑ کی طرح ہے
جوناتھن ڈاؤلنگ امریکہ کی لوزیانا یونیورسٹی میں پروفیسر تھے۔ انھوں نے کوانٹم کمپیوٹر کی صلاحیت پر طویل عرصے تک کام کیا۔
جون سنہ 2020 میں اپنی موت سے قبل بی بی سی کے ساتھ بات چیت میں، انھوں نے کہا تھا کہ مختلف ممالک کے درمیان کوانٹم کمپیوٹر بنانے کا مقابلہ ہے اور یہ ایک خلائی دوڑ کی طرح ہے۔
یہ بھی پڑھیے
یہ ڈیٹا کو محفوظ رکھنے، ذاتی ڈیٹا، کمپنیوں، فوج اور حکومتوں کے ڈیٹا کو محفوظ رکھنے کی دوڑ ہے۔ ڈیٹا طاقت ہے اور اب ممالک یہ محسوس کر رہے ہیں کہ اس معاملے میں انھیں خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔
سنہ 2013 میں امریکی انٹیلی جنس کنٹریکٹر ایڈورڈ سنوڈن نے حکومت سے متعلق کئی انٹیلی جنس دستاویزات کو لیک کیا۔ ان دستاویزات سے پتا چلا کہ امریکی نیشنل سکیورٹی ایجنسی دوسروں کے مواصلاتی نیٹ ورک کو کس حد تک توڑ سکتی ہے۔
جوناتھن نے کہا کہ ایڈورڈ سنوڈن کی لیکس نے چین کو حیران کر دیا کہ امریکی نیشنل سکیورٹی ایجنسی کمیونیکیشن نیٹ ورک کی خلاف ورزی کرنے میں ان کی سوچ سے بہت آگے ہے۔ انھیں یہ بھی خدشہ تھا کہ امریکی پہلا کوانٹم کمپیوٹر بنائیں گے۔
ایسا ہوا تو امریکہ چین کی انٹیلیجنس بڑھ جائے گا لیکن چین کو اس کے راز پڑھنے سے روک سکے گا۔ وہ کیسے؟
وہ بتاتے ہیں کہ ’فرض کریں کہ باب اپنی دوست ایلس کو ایک خفیہ پیغام بھیجنا چاہتا ہے اور ایوو ان کے کمیونیکیشن چینل کو توڑنا چاہتی ہے۔ اس وقت محفوظ پیغامات بھیجنے کے لیے پبلک کی انکرپشن کی تکنیک استعمال کی جاتی ہے۔ باب پیغام کو لاک کر دیتا ہے۔‘
اس کا لاک صرف ایلس کے پاس ہے اور وہ اسے کھول سکتی ہے۔ ‘پبلک کی’ سکیورٹی کا تصور یہ ہے کہ ایک عام کمپیوٹر کو ہیک کرنے میں سینکڑوں سال لگتے ہیں۔ لیکن کوانٹم کمپیوٹر اسے چند گھنٹوں میں ہیک کر سکتا ہے۔
یہ سننے میں خوفناک لگتا ہے۔ لیکن اس کا ایک مثبت پہلو بھی ہے۔ یعنی اگر آپ ‘کوانٹم کی’ استعمال کریں گے تو کوانٹم کمپیوٹر بھی اسے ہیک نہیں کر سکے گا اور یہ سپرپوزیشننگ کی وجہ سے ممکن ہو گا۔
اگر ‘کوانٹم کی’ کو ہیک کرنے کی کوشش کی گئی تو اس میں درج معلومات خود بخود ختم ہو جائے گی اور بھیجنے والے کو اس کا علم ہو جائے گا۔
کوانٹم کمپیوٹرز کے ذریعے کمیونیکیشن مکمل طور پر محفوظ رہے گی۔ اسے بنانے کی دوڑ کے پیچھے یہی وجہ ہے۔
جوناتھن ڈولنگ کے مطابق چین اس ٹیکنالوجی میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کر رہا ہے۔
انھوں نے کہا کہ ’چین ایک نیٹ ورک بنا رہا ہے جس میں سیٹلائٹ کو بھی شامل کیا جائے گا۔ کوانٹم کرپٹوگرافی کا نیٹ ورک پورے ملک میں فائبر یا سیٹلائٹ کے ذریعے پھیلایا جائے گا اور یہ پورے نیٹ ورک کو ہیک پروف کر دے گا جو لوگ ترقی نہیں کر سکے انھیں مستقبل میں ڈیٹا ہیک کا خطرہ لاحق رہے گا۔
امریکہ اور دیگر ممالک بھی اس ٹیکنالوجی میں بہت زیادہ سرمایہ کاری کر رہے ہیں۔ لیکن سائنسدانوں کے سامنے چیلنج یہ ہے کہ وہ اس ٹیکنالوجی کو حقیقت میں بدلیں اور اس پر بڑے پیمانے پر کام کریں۔
لیکن کوانٹم دنیا کے سب سے اہم کھلاڑی ایٹم کے بے ترتیب رویے کی وجہ سے ان انتہائی طاقتور مشینوں کو بنانا ایک مشکل چیلنج ہے۔
بہت سے ممالک اس ٹیکنالوجی پر قابو پانے کی دوڑ میں ہیں۔
جوناتھن کا کہنا ہے کہ یہ دوڑ کہاں جا رہی ہے اس کے بارے میں کوئی نہیں جانتا۔ لیکن یہ اپنے اندر ہیجان پیدا کرنے والی ہے۔
Comments are closed.