’کوئی مجھے باہر نہیں نکال رہا‘: جو بائیڈن کا صدارتی انتخابات سے دستبردار نہ ہونے کا فیصلہ ڈیموکریٹس کو مہنگا پڑ سکتا ہے؟
- مصنف, گیرتھ ایوانز، کورٹنی سبرامنیئم اور کائلا اپسٹین
- عہدہ, بی بی سی نیوز، واشنگٹن اور نیو یارک
- 25 منٹ قبل
امریکی صدر جو بائیڈن نے اقرار کیا ہے کہ انھوں نے ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ صدارتی مباحثے کے دوران بہتر کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کیا مگر اس کے باوجود انھوں نے اپنے حامیوں کو یقین دلایا ہے کہ وہ صدارتی دوڑ کا حصہ رہیں گے۔انھوں نے وسکونسن کے ریڈیو سٹیشن سے بات کرتے ہوئے مباحثے کے دوران اپنی کارکردگی کو ’ایک غلطی‘ قرار دیا تاہم انھوں نے ووٹرز پر زور دیا کہ وہ انھیں ووٹ دینے یا نہ دینے کا فیصلہ وائٹ ہاؤس میں گزاری ان کی صدارتی مدت کے مطابق کریں۔بدھ کے روز کچھ رپورٹس میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ بائیڈن صدارتی دوڑ کے حوالے سے اپنے مستقبل کا جائزہ لے رہے ہیں، تاہم ان افواہوں کے دوران وہ ریاستی گورنرز اور مہم کے عملے سمیت سینئر ڈیموکریٹس کو پرسکون رکھنے کے لیے کام کرتے رہے۔ذرائع نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ بائیڈن نے مہم کے دوران ایک کال میں کہا ’میں ڈیموکریٹک پارٹی کا نامزد امیدوار ہوں۔ کوئی مجھے باہر نہیں نکال رہا ہے اور میں کہیں نہیں جا رہا ہوں۔‘
اس دوران ان کے ساتھ نائب صدر کملا ہیرس بھی تھیں جنھوں نے صدر کے لیے اپنی حمایت کا اعادہ کیا۔ تاہم اب تک ایسی قیاس آرائیاں بھی عروج پر ہیں جن کے مطابق نائب صدر کملا ہیرس نومبر کے انتخابات سے قبل پارٹی کی امیدوار کے طور پر صدر بائیڈن کی جگہ لے سکتی ہیں۔بائیڈن اور ہیریس کی انتخابی مہم کے بعد بھیجی گئی فنڈ ریزنگ ای میل میں بھی بائیڈن نے کہا ’مجھے واضح اور آسان الفاظ میں یہ کہنے دیں: میں صدراتی دوڑ میں حصہ لے رہا ہوں۔‘،تصویر کا ذریعہGetty Images
ٹرمپ اور بائیڈن کے درمیان صدارتی مباحثے میں کیا ہوا تھا؟
گدشتہ ہفتے سے پہلے بھی بہت سے امریکیوں کو صدر جو بائیڈن کی عمر اور ان کی صحت کے بارے میں بہت سے خدشات لاحق تھے تاہم سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ ہونے والے مباحثے نے ان خدشات کو ختم کرنے کے بجائے مزید تقویت بخش دی ہے۔گذشہ جمعرات کی شام ہونے والے صدارتی مباحثے میں صدر بائیڈن ایک واضح اور آسان ہدف کے ساتھ داخل ہوئے تھے تاہم وہ اپنے کسی بھی ہدف کو حاصل کرنے میں ناکام نظر آئے۔ پوری بحث کے دوران وہ ہچکچاہٹ کا شکار دکھائی دیے اور ان کی باتیں بھی مبہم تھیں۔بحث کے دوران بائیڈن کی ٹیم نے صحافیوں کو بتایا کہ صدر زکام کا شکار ہیں جس کی وجہ سے ان کی آواز خراب اور مبہم سنائی دی رہی تھی۔ ہو سکتا ہے کہ ایسا ہو بھی لیکن بظاہر یہ ایک بہانہ لگ رہا تھا۔تقریباً 90 منٹ تک جاری رہنے والے مباحثے کے دوران مسلسل ایسا محسوس ہوتا رہا جیسے جو بائیڈن اپنی باتوں پر قابو نہیں رکھ پا رہے تھے۔ ان کی جانب سے دیے جانے والے کچھ جوابات تو انتہائی بےتکے تھے۔مباحثے کے دوران ایک سوال کا جواب انھوں نے یہ کہہ کر ختم کردیا کہ، ’ہم نے آخرکار میڈیکیئر کو ہرا دیا۔‘ قابلِ ذکر بات یہ ہے میڈیکیئر امریکی حکومت کے زیر انتظام بزرگوں کی صحت کی دیکھ بھال کا پروگرام ہے۔اس مباحثے کے فوراً بعد جو بائیڈن کی سابقہ کمیونیکیشن ڈائریکٹر کیٹ بیڈنگ فیلڈ سی این این پر موجود تھیں۔ انھوں نے صاف الفاظوں میں اس بات کا اعتراف کیا کہ اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ یہ بحث کسی بھی صورت جو بائیڈن کے لیے مثبت ثابت نہیں ہوئی۔ان کے مطابق جو بائیڈن کے لیے سب سے بڑا چیلنج یہ ثابت کرنا تھا کہ بطورِ صدر کام کرنے کے لیے ان میں نہ صرف توانائی ہے بلکہ وہ صحت مند بھی ہیں لیکن بائیڈن ایسا کرنے میں ناکام رہے۔جیسے جیسے بحث آگے بڑھی، اپنی ہار کو جیت میں بدلنے کی کوشش میں کسی شکست خوردہ باکسر کی طرح جو بائیڈن نے بھی کھیل کی رفتار میں تبدیلی لانے کی کوشش کی اور اپنے حریف پر تیزی سے وار کرنے کی کوشش کرنے لگے۔ ان میں سے کچھ وار تو اپنے ہدف پر لگے جنھوں نے شاید سابق صدر کو غصہ بھی دلا دیا۔ٹرمپ نے بائیڈن کے ایک اور جواب کے بعد طنز کرتے ہوئے کہا کہ ’مـجھے نہیں سمجھ آئی کہ انھوں نے اس جملے کے آخر میں کیا کہا ہے، اور میرے خیال میں شاید یہ خود بھی نہیں جانتے۔‘دوسری جانب بحث کے دوران سابق صدر ٹرمپ بڑی حد تک نظم و ضبط کے ساتھ کارکردگی دکھانے میں کامیاب رہے اور انھوں نے ایسے کسی بھی موضوع میں پڑنے سے اجتناب کیا جس سے بحث پٹڑی سے اتر سکتی تھی جیسا ان کے ساتھ سنہ 2020 میں ہونے والے مباحثوں کے دوران ہوا۔ٹرمپ کافی حد تک تمام گفتگو کو صدر بائیڈن کے ریکارڈ پر مرکوز رکھنے میں کامیاب رہے۔
بائیڈن کا فیصلہ ڈیموکریٹس کے لیے کیسے نقصان دہ ہو سکتا ہے؟
ایسے سوالات بھی گردش کر رہے ہیں کہ آیا 81 سالہ ضعیف جو بایئڈن، جو صدارتی مباحثے کے دوران اکثر سوالات کے جواب میں کچھ بول نہیں پائے اور جب بولے تو ان کی آواز بہت نحیف تھی، کیا انتخابی مہم جاری رکھ پائیں گے؟ایسی چہ مگوئیوں نے ڈیموکریٹک حلقوں میں صدارت کے لیے ان کی جسمانی و ذہنی صحت اور الیکشن جیتنے کی صلاحیت کے حوالے سے تشویش پیدا کی ہے۔خیال رہے کہ بائیڈن پر صدارتی دوڑ سے دستبردار ہونے کے لیے دباؤ ایک ایسے وقت میں بڑھ رہا ہے جب پولز یہ تجویز کر رہے ہیں کہ ان کے ریپبلکن حریف ٹرمپ کی برتری بڑھ چکی ہے۔صدارتی مباحثے کے بعد نیویارک ٹائمز کے کیے ایک سروے میں بتایا گیا ہے کہ ٹرمپ اب تک چھ پوائنٹس کے ساتھ بائیڈن سے زیادہ برتری حاصل کیے ہوئے ہیں۔بی بی سی کے امریکی پارٹنر نشریاتی ادارے سی بی ایس نیوز کے ایک پول کے مطابق اہم مقابلے والی ریاستوں میں ٹرمپ کو بائیڈن پر تین پوائنٹس کی برتری حاصل ہے۔ان پولز کا نتیجہ یہ ہے کہ قانون ساز اور ان کی مہم کے لیے عطیہ دینے والے عوامی سطح پر بائیڈن سے انتخابی دوڑ سے دستبردار ہونے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ان میں میساچوسٹس میں مقیم ایک انڈین نژاد امریکی صنعت کار رمیش کپور بھی شامل ہیں جو 1988 سے ڈیموکریٹس کے لیے عطیے کا اہتمام کر رہے ہیں۔کپور نے بی بی سی کو بتایا ’میرے خیال میں اب وقت آگیا ہے کہ وہ کسی اور کو موقع دیں۔ مجھے معلوم ہے وہ دوڑ کا حصہ رہنا چاہتے ہیں مگر آپ قدرت کے ساتھ نہیں لڑ سکتے۔‘اور کانگریس کے دو ڈیموکریٹس نے بھی پارٹی کے اعلیٰ ترین عہدوں میں تبدیلی کا مطالبہ کیا ہے۔ ان میں سے ایریزونا کی نمائندگی کرنے والے راؤل گریجالوا نے نیویارک ٹائمز کو بتایا کہ ’اب وقت آگیا ہے کہ ڈیموکریٹس کہیں اور دیکھیں‘۔اس سب کے باوجود وائٹ ہاؤس اور بائیڈن کی انتخابی مہم کا عملہ ایسی خبروں کی سختی سے تردید کر رہا ہے کہ وہ صدارتی دوڑ سے دستبردار ہونے کا سوچ رہے ہیں۔ بلکہ ان کا کہنا ہے کہ وہ 5 نومبر کو ٹرمپ کو دوسری بار شکست دینے کے لیے پُرعزم ہیں۔نیویارک ٹائمز اور سی این این نے بدھ کے روز خبر دی کہ صدر بائیڈن نے ایک نامعلوم اتحادی کو بتایا تھا کہ انھیں معلوم ہے کہ ان کا دوبارہ انتخاب خطرے میں ہے۔وائٹ ہاؤس کی پریس سکریٹری کرین جین پیئر کا کہنا تھا کہ بائیڈن کے صدراتی دوڑ سے دستبرداری کی خبریں غلط ہیں جس کے فوراً بعد ایک ترجمان نے بھی ایسی رپورٹوں کو ’بالکل بے بنیاد‘ قرار دیتے ہوئے مسترد کیا ہے۔،تصویر کا ذریعہGetty Images
کیا بائیڈن کو زبردستی صدارتی دوڑ سے باہر کیا جا سکتا ہے؟
اب جب یہ واضح ہو چکا ہے کہ جو بائیڈن صدارتی انتخابات سے دستبردار نہیں ہو رہے تو یہ سوال اپنی جگہ موجود ہے کہ کیا ان کو زبردستی اس مقابلے سے باہر نکلنے پر مجبور کیا جا سکتا ہے؟یہ معاملہ پیچیدہ ہے۔ امریکہ کی جدید سیاسی تاریخ میں کسی بھی مرکزی سیاسی جماعت نے صدارتی نامزدگی میں ایسا نہیں کیا۔تاہم قواعد و ضوابط میں کچھ ایسی گنجائش موجود ہے جس کے ذریعے کم از کم یہ ممکن ہے کہ بائیڈن کو مجبور کیا جائے۔قوانین تمام ڈیلیگیٹس کو اجازت دیتے ہیں کہ وہ انھیں منتخب کرنے والوں کے ’احساسات کا خیال کریں۔‘ اور اسی نکتے کی مدد سے ڈیموکریٹ پارٹی کسی اور امیدوار کی جانب دیکھ سکتی ہے۔ڈی این سی یعنی ڈیموکریٹک نیشنل کمیٹی کے پاس قوانین کو بدلنے کا اختیار بھی موجود ہے۔ رائٹ رگویئر نے بی بی سی کو بتایا کہ 1968 میں جب صدر لنڈن بی جانسن نے دوسری بار صدارتی مدت کے لیے انتخابات میں حصہ نہ لینے کا فیصلہ کیا تو ڈیموکریٹس نے نامزدگی کا طریقہ کار ہی بدل دیا تھا۔وہ کہتی ہیں کہ ’قانونی کمیٹی کسی بھی وقت صدارتی نامزدگی کا طریقہ کار بدل سکتی ہے۔ کچھ بھی ناممکن نہیں ہے۔‘صدر کی تبدیلی کا ایک اور راستہ آئینی ہے جو 25ویں ترمیم فراہم کرتی ہے۔ اس ترمیم کے مطابق کابینہ کی اکثریت اور نائب صدر مل کر یہ فیصلہ کر سکتے ہیں کہ صدر اپنی سرکاری ذمہ داریاں نبھانے کے قابل نہیں ہیں اور ایسی صورت میں اقتدار نائب صدر کو منتقل کیا جا سکتا ہے۔اہم بات یہ ہے کہ امریکی تاریخ میں ایسا بھی کبھی نہیں ہوا ہے۔ تاہم صدارتی مباحثے کے بعد چند سینئر ریپبلکنز نے بائیڈن کی کابینہ پر زور دیا کہ وہ اس آئینی راستے پر غور کریں۔
بائیڈن کا متبادل امیدوار کون ہو سکتا ہے؟
نائب صدر کملا ہیرس سب سے زیادہ ممکنہ متبادل ہو سکتی ہیں۔ ٹرمپ اور بائیڈن کے درمیان صدارتی مباحثے کے بعد سے ڈیموکریٹس میں کملا کی ریٹنگ میں اضافہ ہوا ہے۔افواہوں کے بیچ ٹرمپ نے بھی اعلان کیا ہے کہ وہ کملا کی جانب اپنے حملوں کا رخ کر سکتے ہیں۔ تاہم کملا ہیرس کی جانب سے کہا جا چکا ہے کہ وہ بائیڈن کی صدارتی نامزدگی کی حمایت جاری رکھیں گی۔انھوں نے مباحثے کے بعد سی این این کو انٹرویو میں صدر کی مکمل حمایت جاری رکھنے کا اعلان کیا تھا۔واضح رہے کہ ڈیموکریٹ نیشنل کمیٹی کے اراکین اگست میں ہونے والے پارٹی کنونشن میں باضابطہ طور پر صدر بائیڈن کی نامزدگی کے لیے ووٹ دیں گے جس کے بعد ہی ان کا نام ملک میں بیلٹ پر بطور ڈیموکریٹ صدارتی امیدوار چھپے گا۔
BBCUrdu.com بشکریہ
body a {display:none;}
Comments are closed.