امریکا میں پاکستان کے سابق سفیر حسین حقانی کا کہنا ہے کہ میں نے کنٹینر پر کھڑے ہوکر کسی کو گالیاں نہیں دیں کہ بعد میں معافیاں مانگوں، عمران خان سچ بولیں اور قرآن پاک پر ہاتھ رکھ کر بات کریں۔
جیو نیوز کے پروگرام ’آج شاہزیب خانزادہ کے ساتھ‘ میں بات کرتے ہوئے حسین حقانی کا کہنا تھا کہ میں سمجھتا ہوں کہ عمران خان دنیا میں پاکستان کی تنہائی کا سبب بنے لیکن ان کا بھی برا نہیں چاہتا وہ اپنا موقف سمجھا دیں تو اپنی رائے تبدیل کرلوں۔
انہوں نے کہا کہ میرے موقف کی وجہ سے عمران خان مجھے غدار تک کہتے رہے، یہ احمقانہ بات ہے کہ کسی کے ساتھ مل کر میں نے ان کی حکومت ختم کرائی۔
ان کا کہنا تھا کہ عمران خان کو 174 ارکان اسمبلی نے ووٹ کی طاقت سے ہٹایا، میرا ان 174 ارکان اسمبلی میں سے کسی سے رابطہ نہیں تھا۔
سابق سفیر نے کہا کہ عمران خان نے 26 سال میں اپنا امریکا مخالف امیج بنایا، امریکا کو عمران خان کے امیج کیلئے میری ضرورت نہیں، میں نہ لابسٹ ہوں نہ مجھے اس مد میں کوئی ادائیگی ہوئی۔
ان کا کہنا تھا کہ ڈونلڈ لو سے ملاقات ہوتی رہی آگے بھی ہوگی، یہ کہاں سے ثابت ہوا کہ اس میں کوئی سازش ہوگئی؟ آپ عدم اعتماد کا ووٹ تسلیم کرلیں، مجھے کیوں اس میں گھسیٹ رہے ہیں؟
ان کا کہنا تھا کہ امریکا میں میرے لوگوں کے ساتھ اچھے تعلقات ہیں، جنرل باجوہ اور ان کے ادارے نے کئی برس قوم کو یہ باور کرایا کہ میری رائے پاکستان مخالف ہے، میری تو ایک زمانے میں عمران خان سے بھی دوستی رہی ہے، مسئلہ یہ نہیں کہ کس سے کس کی ملاقات ہوئی۔
حسین حقانی نے کہا کہ مجھے سمجھ نہیں آتا کہ یہ دو اور دو کو 28 کیسے بناتے ہیں؟ شیریں مزاری کو اپنے گھر میں کیڑے مکوڑوں کی موجودگی بھی امریکی سازش دِکھتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ تو عمران خان نے کہا کہ حسین حقانی نے کہا کہ جنرل باجوہ اچھے آدمی ہیں، میں نے کہا کہ جنرل باجوہ نے روس سے متعلق جو بیان دیا پاکستان کے مفاد میں ہے، یہ حقیقت تھی۔
حسین حقانی کا کہنا تھا کہ جنہوں نے ساری عمر میری مخالفت کی اگر وہ مجھ سے ملنے آئے تو ان سے پوچھیں کیوں ملنے آئے؟ اگر وہ ملنے آئے تو ان سے پوچھیں کہ ملاقات ہوئی یا نہیں؟ میں 11 سال سے پاکستان نہیں گیا کوئی مجھ سے ملنے آیا تو ان سے سوال کریں، میں غدار تھا تو عمران خان کی حکومت نے مجھ سے رابطے کی اجازت کیوں دی؟
انہوں نے کہا کہ میری ریسرچ پاکستان کی سیاست سے متعلق ہے، گرنیئر بھی لابسٹ نہیں وہ ایک سرکاری اہلکار ہیں، میری ریسرچ ان کو اپ ڈیٹ کرنے کیلئے تھی، کوئی مجھے مضمون لکھنے کی ادائیگی کرتا ہے تو اس لیے کہ اپنی علمی معلومات اس سے شیئر کروں، میرے کام کا اس سے تعلق نہیں کہ کسی کے حق یا مخالفت میں لابنگ کروں۔
ان کا کہنا تھا کہ امریکی تھنک ٹینکس کے ساتھ بہت سارے لوگ ریسرچ کیلئے رابطہ کرتے ہیں، امریکا میں لابیز کا کردار الگ ہے اور صحافی، اسکالر کا کردار الگ ہے۔
انہوں نے کہا کہ آج بھی اگر پاکستان کو کوئی امداد دیتا ہے تو سعودی عرب، متحدہ عرب امارات دیتا ہے، وہ تو کہتے تھے روس تیل دے رہا ہے، آج تک تو ایک قطرہ تیل نہ آیا۔
سابق سفیر نے کہا کہ میرا موقف آئین کی بالادستی کے حق میں ہے، میں یوٹرن نہیں لیتا، میری 4 کتابیں ہیں جو دنیا بھر میں یونیورسٹی میں پڑھائی جاتی ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ امریکا کا پاکستان میں اگر کوئی مفاد ہوگا تو وہ فرد کے ساتھ نہیں ہوگا، زلمے خلیل زاد کی امریکا میں اب وہ حیثیت نہیں جو پہلے ہوتی تھی، زلمے خلیل زاد اب اپنی حیثیت بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
Comments are closed.