اسلام آباد ہائی کورٹ نے قرار دیا ہے کہ کنول شوزب کیس ایف آئی اے کے اختیارات کے غلط استعمال کی کلاسک مثال ہے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کنول شوزب کیس کی سماعت کا تحریری حکمنامہ جاری کر دیا ہے۔
تحریری حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ کنول شوزب کے پڑوسی نے درخت کاٹنے پر تحفظات کا اظہار کیا تو انہیں ایف آئی اے کے ذریعے ہراساں کیا گیا۔
ڈائریکٹر ایف آئی اے نے تسلیم کیا کہ کنول شوزب نے پڑوسیوں کا کوئی ہتک آمیز مواد پیش نہیں کیا۔
حکم نامے کے مطابق ایف آئی اے نے کنول شوزب کی درخواست پر اختیارات کا انتہائی غلط استعمال کیا۔ ایف آئی اے کو عوام کی خدمت کیلئے بنایا گیا ہے پبلک آفیشلز کی خدمت کے لیے نہیں۔
عدالتی حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ کنول شوزب نے کیس زیر سماعت ہونے کے دوران مختلف فورمز پر توہین آمیز مہم چلائی۔ ہر سیاسی رہنما اور سیاسی جماعت کا فرض ہے کہ وہ اپنے پیروکاروں کو سیاسی مباحثوں یا عوامی مسائل میں شامل ہونے کی اقدار اور اصولوں کے بارے میں آگاہ کرے اور انہیں سوشل میڈیا پلیٹ فارم کا غلط استعمال کرنے سے روکے۔
عدالت نے حکم نامے میں کہا کہ وفاقی وزیر اسد عمر اور سینیٹر علی ظفر کو عدالتی معاون مقرر کیا جاتا ہے۔ دونوں ارکان پارلیمنٹ 4 اپریل کو ذاتی حیثیت میں پیش ہو کر معاونت کریں۔
حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ کیوں نہ کنول شوزب کو ہراسگی کا سامنا کرنے والے بزرگ پڑوسیوں کو مثالی رقم ادا کرنے کا حکم دیں اور کیوں نہ ڈائریکٹر ایف آئی اے اور تفتیشی افسر کو مثالی رقم کی ادائیگی کا حکم دیا جائے؟ جو کچھ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر ہورہا ہے بدقسمتی سے معاشرے کے رویوں، اقدار اور سیاسی کلچر کا عکاس ہے۔
Comments are closed.