روس یوکرین جنگ: کم قیمت پر روسی تیل خریدنے سے انڈیا کو کتنا فائدہ ہوا اور اس میں کیا مشکلات ہیں؟
- شروتی مینن
- بی بی سی ریئلٹی چیک
عالمی سطح پر تیل کی قیمتوں میں اضافہ انڈیا کے پالیسی سازوں کے لیے تشویش کا باعث ہے
تازہ اعداد و شمار کے مطابق انڈیا کی جانب سے روس سے خام تیل کی درآمد میں بڑا اضافہ ہوا ہے۔
اس سال فروری میں روس کے یوکرین پر حملے کے بعد سے انڈیا پر دباؤ ہے کہ وہ اپنے آپ کو معاشی طور پر روس سے دور کرے۔ تاہم انڈیا نے روسی تیل خریدنے کا دفاع کیا ہے۔
انڈیا تیل کہاں سے خریدتا ہے؟
امریکہ اور چین کے بعد انڈیا تیل کا دنیا کا تیسرا بڑا صارف ہے جو اپنی ضرورت کا 80 فیصد درآمد کرتا ہے۔
اشیا کی خرید و فروخت سے متعلق ریسرچ کرنے والے ادارے کپلر کے مطابق سنہ 2021 میں انڈیا نے اپنی کُل درآمدات کا صرف دو فیصد تیل روس سے خریدا جس کی مقدار ایک کروڑ بیس لاکھ بیرل بنتی تھی۔
انڈیا نے اپنی ضرورت کا زیادہ تر تیل مشرقِ وسطیٰ کے ممالک سے درآمد کیا۔ اس کے علاوہ امریکہ اور نائجیریا سے بھی بڑی مقدار میں تیل خریدا گیا۔
جنوری اور فروری میں روس سے بالکل بھی تیل درآمد نہیں کیا گیا۔ لیکن تیل لے جانے والے ٹینکرز کے اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ انڈیا کے لیے روسی تیل کی درآمد میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے اور عراق کے بعد دوسرے نمبر پر سب سے زیادہ درآمدات ہیں۔
کپلر کے مطابق اس سال اب تک مارچ، اپریل، مئی اور جون میں انڈیا تقریباً پانچ کروڑ بیس لاکھ بیرل خام تیل روس سے درآمد کر چکا ہے۔ یہ مقدار پورے سنہ 2021 کی درآمد سے زیادہ ہے۔
اپریل 2021 سے جنوری 2022 کے دوران انڈیا نے روس سے اس قدر زیادہ تیل درآمد نہیں کیا تھا
انڈیا کیوں زیادہ روسی تیل خرید رہا ہے؟
ایک ایسے وقت میں جب دنیا بھر میں ایندھن کی قیمتوں میں اضافہ ہوا، انڈیا نے کم قیمت پر روسی تیل کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنی تیل کی درآمدات کو مستحکم کیا ہے۔
ادھر امریکہ نے کہا ہے کہ روس سے تیل خریدنا اقتصادی پابندیوں کی خلاف ورزی تو نہیں لیکن یہ روس کے یوکرین پر حملے کی حمایت کے مترادف ہے۔
برطانیہ کی وزیرِ خارجہ لِز ٹروس نے مارچ میں دلی کے دورے کے دوران انڈیا پر زور دیا کہ وہ روس پر اپنا انحصار کم کرے۔ ان کا یہ دورہ ایک ایسے وقت میں ہوا جب روسی وزیرِ خارجہ سرگئی لاوروف بھی دلی میں موجود تھے۔
اس موقع پر روسی وزیرِ خارجہ نے اپنے انڈین ہم منصب سے کہا تھا کہ روس ان تمام اشیا سے متعلق بات کرنے کے لیے تیار ہے جن کی انڈیا کو ضرورت ہے۔
انھوں نے انڈیا پر زور دیا کہ وہ روس سے درآمد کی جانے والی اشیا کی قیمت روسی کرنسی روبل میں ادا کرے۔
انڈیا کو روس سے کیا ڈیل مل رہی ہے؟
روس کی جانب سے یوکرین پر حملے کے بعد سے روسی خام تیل کے خریدار ممالک کی تعداد کم ہو گئی ہے۔ کچھ ممالک اور کمپنیوں نے روس کی ایندھن کی برآمدات کو محدود کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اِسی وجہ سے روسی تیل کی قیمت میں کمی آئی ہے۔
انڈیا کو کس قیمت پر تیل فروخت کیا جا رہا ہے یہ پوری طرح معلوم نہیں مگر کپلر کے ایک تجزیہ کار میٹ سمتھ کا کہنا ہے کہ یورلز اور برینٹ خام تیلوں میں 30 ڈالر فی بیرل کا فرق ہے یعنی روسی خام تیل تیس ڈالر فی بیرل تک سستا ہو سکتا ہے۔ یعنی انڈیا کو تیل پر فی بیرل 30 ڈالر کے قریب ڈسکاؤنٹڈ ریٹ مل رہا ہے۔
عام طور پر خام تیل کی یہ دونوں اقسام ایک جیسی قیمت پر ملتی ہیں۔ انھوں نے مزید کہا کہ مارچ کے دوران یورلز کی قیمت مسلسل گرتی رہی اور اب ان دونوں کی قیمتوں میں ریکارڈ فرق ہے۔ اس کے بعد سے قیمت کا فرق جاری ہے۔
میٹ سمتھ کے مطابق امکان ہے کہ انڈیا روسی خام تیل کی کچھ مقدار خاصی کم قیمت پر خرید رہا ہے۔
یہ بھی پڑھیے
اقتصادی پابندیوں کا کیا اثر ہو رہا ہے؟
اگرچہ تیل کی یہ قیمت کافی پُرکشش ہے لیکن انڈیا میں ریفائنریز کو روسی تیل خریدنے کے لیے رقوم حاصل کرنے میں مشکل پیش آ رہی ہے کیونکہ روسی بینکوں پر پابندیاں عائد کر دی گئی ہیں۔
یہ وہ مسئلہ ہے جس کا درآمدات اور برآمدات دونوں کو سامنا ہے۔ انڈیا اس سلسلے میں کئی آپشنز پر غور کر رہا ہے جن میں سے ایک ادائیگیوں کا ایسا نظام ہے جو مقامی کرنسیوں پر مشتمل ہو۔ اس نظام کے تحت انڈین برآمد کنندہ کو ڈالر یا یورو کے بجائے روبل میں ادائیگی کی جائے۔
امریکہ اس سلسلے میں پہلے ہی اپنے تحفظات کا اظہار کر چکا ہے کہ اس طرح روبل مضبوط ہو گا اور ڈالر کی بنیاد پر چلنے والے مالی نظام کو نقصان ہو گا۔
انڈیا اور کہاں سے تیل خرید رہا ہے؟
فروری اور مارچ کے دوران انڈیا کی امریکہ سے تیل کی درآمدات میں اضافہ ہوا لیکن اپریل اور مئی میں اس میں مسلسل کمی آئی۔
انڈیا اب بھی مشرق وسطیٰ کے ممالک سے تیل کی بڑی مقدار خریدتا ہے مگر روسی تیل کی درآمد میں اضافہ سب سے اہم پیشرفت ہے۔
انڈین وزیر خارجہ ایس جیشنکر نے حال ہی میں کہا کہ ایران اور وینزویلا جیسے ممالک پر پابندیوں سے مغربی ممالک نے ’ہمارے پاس دستیاب تیل کے ہر ذریعے کو محدود کر دیا۔‘
انڈیا نے ان اطلاعات کی بھی تردید کی ہے کہ اس کی جانب سے درآمد کیا گیا روسی خام تیل امریکہ سمیت دوسرے ممالک میں ریفائنڈ مصنوعات کی شکل میں بھیجا جا رہا ہے۔
Comments are closed.