چیئرمین اسلامی نظریاتی کونسل قبلہ ایاز کا کہنا ہے کہ کم عمری کی شادی کے تدارک اور حوصلہ شکنی کے لیے کام شروع کر دیا ہے۔
اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ کم عمری کی شادی کا مسئلہ آج سے نہیں 1929ء سے چل رہا ہے، یہ مسئلہ قانون سازی کی بجائے عوامی شعور سے حل ہو گا۔
قبلہ ایاز نے کہا کہ وزارتِ مذہبی امور کے ساتھ اس مسئلے کے حل کے لیے جید علماء کے ساتھ بیٹھ کر کام شروع کیا گیا ہے، ایک تیکنیکی کمیٹی میں تمام مکاتبِ فکر کے علماء، مشائخ اور ماہرین کام کر رہے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ کم عمری کی شادی مسائل سے خالی نہیں، جس کے نفسیاتی، معاشرتی اور طبی مسائل ہیں، جبری شادیوں کا مسئلہ زیادہ تر سندھ میں ہے۔
چیئرمین اسلامی نظریاتی کونسل نے کہا کہ سندھ میں کئی بچیوں کی تبدیلیٔ مذہب کے ساتھ شادیوں کے مسائل سامنے آئے ہیں، کم عمری میں اسلام قبول کرنے کی کوئی ممانعت نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ جبری تبدیلیٔ مذہب کی کوئی گنجائش نہیں ہے، اغواء اور پھر جبری تبدیلیٔ مذہب خالصتاً معاشرتی اور عدالتی مسائل ہیں۔
قبلہ ایاز کا کہنا ہے کہ اغواء کرنا ایک غیر قانونی عمل ہے، اس پر کیس چلنا چاہیے اور سزا بھی ہونی چاہیے۔
انہوں نے مزید کہا ہے کہ اسلامی نظریاتی کونسل سیاسی مفاہمت کرانے کے لیے تیار ہے، کونسل حکومت و اپوزیشن کو ایک جگہ بٹھانے کے لیے کردار ادا کر سکتی ہے۔
اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین قبلہ ایاز کا یہ بھی کہنا ہے کہ ریاستی مفادات میں کچھ امور اور میدان ایسے ہیں جہاں اشتراکِ عمل ضروری ہے۔
Comments are closed.