ڈیلاویئر: امریکی ماہرین نے پلاسٹک کو ایندھن میں بدلنے کا ایک ایسا نیا طریقہ ایجاد کرلیا ہے جو نہ صرف ہر قسم کے ڈھیٹ سے ڈھیٹ پلاسٹک کےلیے کارآمد ہے بلکہ خاصے کم درجہ حرارت پر کام کرتے ہوئے توانائی بھی بہت کم استعمال کرتا ہے۔
آن لائن ریسرچ جرنل ’’سائنس ایڈوانسز‘‘ کے تازہ شمارے میں ڈیلاویئر یونیورسٹی کے ماہرین کا ایک مقالہ شائع ہوا ہے جس میں انہوں نے پلاسٹک کی آلودگی سے چھٹکارا پانے کےلیے ایک مؤثر اور ’’کم خرچ بالا نشین‘‘ قسم کے ایک نئے طریقے کے بارے میں بتایا ہے۔
یہ نیا طریقہ پلاسٹک کی اُن اقسام کو بھی آسانی سے ایندھن میں تبدیل کرسکتا ہے جن کی بازیافتگی (ری سائیکلنگ) بے حد مشکل اور تقریباً ناممکن سمجھی جاتی ہے۔ ابتدائی تجربات کے دوران اس طریقے سے پلاسٹک کی 85 فیصد مقدار کو ڈیزل، جیٹ اور پیٹرول کے آمیزے میں تبدیل کیا گیا۔
یاد رہے کہ آج کے دور میں پلاسٹک کا شمار آلودگی کے بڑے مسائل میں ہوتا ہے کیونکہ اسے بنانا آسان ہے لیکن تلف کرکے ماحول سے ختم کرنا بے حد مشکل ہے۔
اب تک پلاسٹک کے لمبے لمبے سالمات (پولیمرز) کو چھوٹے چھوٹے اور بے ضرر سالموں میں تبدیل کرنے کے بہت سے طریقے سامنے آچکے ہیں لیکن ان میں سے بیشتر یا تو بے حد سست رفتار ہیں یا پھر انہیں شدید گرمی (بلند درجہ حرارت) اور دباؤ کی صورت میں بہت زیادہ توانائی درکار ہوتی ہے۔
نیا طریقہ اس لحاظ سے منفرد ہے کہ اس میں ایک ساتھ دو عمل انگیز (کیٹالسٹس) یعنی پلاٹینم اور زیولائٹ ایک ساتھ استعمال کیے جاتے ہیں جو خاصے کم درجہ حرارت (تقریباً 225 ڈگری سینٹی گریڈ) اور شدید دباؤ پر کسی بھی قسم کے پلاسٹک کو ایندھن میں بدل دیتے ہیں۔
اس طرح یہ طریقہ پلاسٹک بازیافتگی (ری سائیکلنگ) کے دوسرے موجودہ تجرباتی طریقوں کے مقابلے میں بہت کم خرچ بھی ہے۔
اگرچہ ڈیلاویئر یونیورسٹی کے ماہرین اس طریقے کو پیٹنٹ بھی کرواچکے ہیں اور آئندہ 5 سے 10 سال میں اسے تجارتی پیمانے تک پہنچانے کا ارادہ بھی رکھتے ہیں لیکن فی الحال اس میں ایک بڑی خامی ہے جسے دور کرنا بہت ضروری ہے۔
وہ خامی یہ ہے کہ اس طریقے میں پلاسٹک کو ایندھن میں بدلنے کےلیے بہت زیادہ پانی کی ضرورت پڑتی ہے۔ مثلاً یہ کہ 150 لیٹر پانی استعمال کرنے کے بعد ہی اس طریقے کے تحت 3.8 لیٹر گیسولین/ پیٹرول حاصل ہوتا ہے۔
البتہ، ماہرین کا کہنا ہے کہ انہوں نے اس خامی کو دور کرنے پر بھی کام جاری رکھا ہوا ہے اور انہیں امید ہے کہ وہ جلد ہی یہ مسئلہ حل کرنے میں بھی کامیاب ہوجائیں گے۔
Comments are closed.