لاہور ہائی کورٹ نے انکم ٹیکس آرڈیننس 2001ء میں ترمیم کا حکم دیتے ہوئے کم آمدن والوں سے ایڈوانس ٹیکس وصولی غیر آئینی قرار دے دی۔
عدالت نے موبائل فون صارفین اور شادی ہال کی بکنگ پر ایڈوانس ٹیکس کی وصولی کے خلاف درخواستوں پر فیصلہ سنایا۔
عدالتِ عالیہ نے بڑا فیصلہ سناتے ہوئے کہا ہے کہ جو پہلے ہی ٹیکس دینے کی حد میں نہیں آتا، اس سے ایڈوانس ٹیکس نہیں لیا جا سکتا، حکومت قانون میں ترمیم کرے۔
لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس شاہد جمیل نے ریمارکس دیے کہ بدقسمتی سے بے روزگار اور ٹیکس سلیب سے کم آمدن والے لوگ بھی پہلے ہی ضروری اشیاء پر اُتنا ٹیکس دے رہے ہیں، جتنا ایک امیر آدمی دے رہا ہے، آمدنی کا تخمینہ لگائے بغیر ٹیکس وصولی نہیں ہو سکتی، فیصلے تک درخواست گزاروں کو دیا گیا عبوری ریلیف جاری رہے گا، بغیر آمدن والے زندگی کی بنیادی ضروریات ریاست سے لینے کے حقدار ہوتے ہیں، ایک اور تشویش ناک پہلو ایڈوانس ٹیکس لگانے کا رجحان ہے۔
عدالت نے اپنے حکم میں کہا کہ ایڈوانس ٹیکس موبائل فون سروس، بجلی کے بلوں، دواؤں اور امپورٹڈ کھانے پینے کی اشیاء پر لیا جاتا ہے۔
ایڈوانس ٹیکس کے بڑے حصے کی ایڈجسٹمنٹ نہیں ہوتی، اس ٹیکس کا بڑا حصہ حکومت بغیر حساب کتاب کے رکھ لیتی ہے۔
عدالت نے فیصلے میں کہا ہے کہ غیر مناسب ٹیکس اگر کاروبار تباہ کرے یا لوگوں کو پراپرٹی سے محروم کر دے تو وہ خلافِ آئین ہے۔
درخواست گزاروں نے انکم ٹیکس آرڈیننس کی دفعہ 236 ڈی میں بذریعہ ترمیم ایڈوانس ٹیکس کی وصولی چیلنج کی تھی۔
عدالت نے تمام 22 پٹیشنز درخواستوں میں بدل کر اٹارنی جنرل سے مشاورت کے لیے چیئرمین ایف بی آر کو بھجوا دیں۔
عدالت نے انکم ٹیکس آرڈیننس 2001ء میں ترمیم کا معاملہ اٹارنی جنرل اور چیئرمین ایف بی آر کے سپرد کرتے ہوئے ان سے 90 دن میں رپورٹ طلب کر لی۔
Comments are closed.