بھارتی جاسوس کلبھوشن جادیو کو اپیل کا حق دینے کے بل پر سینیٹ کی قائمہ کمیٹی قانون و انصاف کے چیئرمین بیرسٹر علی ظفر سمیت اپوزیشن ارکان نے کئی سوالات اٹھا دیئے۔
رکن کمیٹی فاروق ایچ نائیک نے کہا عالمی عدالت نے فیصلے میں کہا ہے اگر ضروری ہو تو پاکستان بھارتی جاسوس کلبھوشن سے متعلق قانون سازی کرے، اب حکومت ثابت کرے کہ یہ کیوں ضروری ہے؟
وزیر قانون بیرسٹر فروغ نسیم نے کہا قانون نہ بنایا تو بھارت سیکیورٹی کونسل میں پاکستان کے خلاف قرار داد لائے گا اور عالمی پابندیاں لگوانے کی کوشش کرے گا۔
سینیٹ قائمہ کمیٹی قانون و انصاف میں انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس ریویو اینڈ ری کنسڈریشن بل 2020 پر بحث میں رکن کمیٹی فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ کلبھوشن کو سزا پاکستان آرمی ایکٹ 1952 کے تحت ہوئی، حکومت آرمی ایکٹ میں ترمیم کیوں نہیں کر لیتی؟
چیئرمین کمیٹی بیرسٹر علی ظفر نے کہا پاکستان کے بین الاقوامی معاہدے ہیں، لیکن کسی کے غلام نہیں ہیں، پاکستان میں دہشت گردی کرنے والے کو اتنی اہمیت دے دی گئی کہ اس کے لیے قانون سازی کررہے ہیں، یہ پسند نہیں آیا کہ عالمی عدالت نے حکم دیا اور ہم قانون بنانے لگ گئے، بل کے مطابق حکومت بھارتی جاسوس کو اپیل کا حق دے رہی ہے۔
وزیر قانون فروغ نسیم بولے آپ نے بل پڑھا ہی نہیں، اگر ایک شخص کو قانون پسند نہیں آ رہا تو کیا قانون ہی نہ بنائیں؟
اعظم نذیر تارڑ نے کہا ایسا قانون بنانا ہے تو کلبھوشن کو ویسے ہی بھارت کے حوالے کر دیں، صرف ایک شخص کے لیے قانون کیوں بنایا جا رہا ہے، پاکستانی شہریوں کو تو ملٹری کورٹس سے سزا کے بعد اپیل کا حق آج تک نہیں دیا گیا۔
اجلاس کے دوران بیرسٹر فروغ نسیم کمیٹی ممبران کے سوالات پر غصے میں بھی آگئے، انہوں نے کہا کہ ایسا نہیں ہو سکتا کہ سب بولتے رہیں اور میں سنتا رہوں، وزیر ہوں، کسی کا نوکر نہیں، عالمی عدالت کے فیصلے کے بعد قانون سازی کے علاوہ کوئی دوسرا آپشن نہیں، بھارت پاکستان کی خلاف عالمی عدالت میں توہین عدالت کارروائی بھی کر سکتا ہے۔
سینیٹر رضا ربانی نے کہا کہ عالمی عدالتِ انصاف میں توہین عدالت کی کارروائی نہیں ہوسکتی۔
چیئرمین کمیٹی نے وزیرِ قانون کی ان کیمرہ بریفنگ کی درخواست کے بعد بل پر بحث ملتوی کر دی۔
Comments are closed.