روس، یوکرین تنازع: کارروائی کی صورت میں ماسکو کا اپنے حمایت یافتہ باغیوں کا دفاع کرنے کی تنبیہ
ماسکو کے ایک اعلی اہلکار نے خبردار کیا ہے کہ یوکرین میں اگر علیحدگی پسندوں کے خلاف کارروائی کی گئی تو مشرقی یوکرین کے روسی زبان بولنے والے باشندوں کی مدد کے لیے روس مداخلت کر سکتا ہے۔
روسی حمایت یافتہ باغیوں اور یوکرینی فوج کے درمیان ملک کے مشرقی حصے میں جھڑپیں جاری ہیں۔
ایک اعلی روسی اہلکار دمتری کوزک کا کہنا ہے کہ روس اپنے شہریوں کے دفاع کے لیے مداخلت کرے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ ’یہ سب کشیدگی کی شدت پر منحصر ہے۔‘ انھوں نے خبردار کیا کہ کشیدگی میں اضافہ ’یوکرین کے خاتمے‘ کا آغاز ہو سکتا ہے۔ ’گولی ٹانگ پر نہیں چہرے پر ماری جائے گی۔‘
یہ بھی پڑھیے
یوکرین میں جاری کشیدگی کے اضافے پر جرمنی اور امریکہ نے خدشات کا اظہار کیا ہے۔
ساری صورتحال کا پس منظر کیا ہے؟
یوکرین کے صدر نے بھی علاقے کا دورے کیا
اس حالیہ لڑائی کی جڑیں مارچ 2014 میں یوکرین کے خطے کرائمیا کے روس کے ساتھ الحاق سے ملتی ہیں۔
اس واقعے کے بعد مغربی قوموں اور روس کے درمیان بڑی خلیج حائل ہو گئی تھی جبکہ یوپی یونین اور امریکہ نے روس پر پابندیاں عائد کر دیں تھیں۔
ایک ماہ بعد ہی روسی حمایت یافتہ باغیوں نے جن میں اکثریت روسی زبان بولنے والے دونباس کی ہے دونتسک اور لوہاسنک کے علاقوں پر قبضہ کر لیا۔
مغربی ممالک اور نیٹو روس پر یوکرین میں اپنی فوج بھیجے جانے کا الزام عائد کرتے ہیں تاہم روس کا کہنا ہے کہ ’وہاں اگر کوئی روسی جنگجو ہے بھی تو وہ رضا کار ہے۔‘
یوکرین کے صدر زیلینسکی قیام امن کے وعدے کے ساتھ اقتدار میں آئے اور گذشتہ برس جولائی میں جنگ بندی پر دستخط ہوئے۔ تب سے اب تک فریقین ایک دوسرے پر خلاف ورزی کے الزمات عائد کرتے ہیں۔
اس لڑائی میں کم از کم 14 ہزار افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
روس اور یوکرین میں حالیہ کشیدگی کیوں بڑھی؟
روس اپنی سرحد پر فوج کی تعداد بڑھا رہا ہے تاہم ساتھ ساتھ وہ یہ بھی یقینی بنا رہا ہے کہ اسے خطرہ نہ سمجھا جائے۔
وائٹ ہاؤس کی پریس سیکریٹری جین پساکی کا کہنا تھا سنہ 2014 میں یوکرین کے تنازع کے آغاز کے بعد سے روسی سرحد پر فی الوقت فوجیوں کی سب سے زیادہ تعداد تعینات ہے۔ انھوں نے صورتحال کو بہت تشویشناک قرار دیا ہے۔
روس نے سرحد پر تعینات اپنے فوجیوں کی تفصیلات نہیں بتائی ہیں تاہم یوکرین کی فوج کے اندازے کے مطابق مارچ تک وہاں 20 ہزار روسی فوجی موجود تھے۔
سوشل میڈیا پر جاری ہونے والی ایک ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ایک ٹرین میں بھاری اسلحہ اس علاقے میں پہنچایا جا رہا ہے۔
حالیہ مہینوں میں دونباس کے علاقوں میں بھی ماسکو کے حمایت یافتہ باغیوں اور یوکرینی فوج کے درمیان جھڑپوں میں اضافہ ہوا ہے۔
جمعرات کو ہلاک ہونے والے یوکرینی فوجی کے بعد اب تک ہونے والی ہلاکتوں کی تعداد 25 ہو گئی ہے۔ گذشتہ برس 50 یوکرینی فوجی ہلاک ہو ئے تھے۔
باغیوں کا کہنا ہے کہ ان دونیستک شہر کے نواح میں ایک گاؤں پر یوکرینی فوجیوں کی جانب سے داغی گئے 14 مارٹر بموں کے باعث ان کا ایک جنگجو ہلاک ہوا۔
علاقے میں حالات کی سنگینی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلینسکی نے جمعرات کو علاقے کا دورہ کیا اور لڑائی کی شدت کا اندازہ لگانے کے ساتھ ساتھ انھوں نے دونباس میں مشکل وقت کے دوران فوجیوں کے ساتھ ہونے کا یقین دلایا۔
جرمنی کی چانسلر نے روسی صدر کو فوج کیا اور روس سے فوجیوں کی تعداد کم کر کے کشیدگی کم کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
جواب میں پوتن نے مشرق میں صورتحال کو بگاڑنے کے لیے یوکرین کو ذمہ دار ٹھہرایا۔
روس کیا کہتا ہے؟
کریملن کے ترجمان دمتری پیسکوف نے ایک پریس کانفرنس میں یقین دلایا کہ روس کو ’اپنی صوابدید کے مطابق اپنی سرزمین کے اندر اپنی مسلح افواج‘ منتقل کرنے کا حق حاصل ہے۔
تاہم اُن کا کہنا تھا کہ ’اس سے کسی کو بھی پریشانی نہیں ہونی چاہیے اور کسی کو کوئی خطرہ نہیں ہے۔‘
ماسکو میں روسی اہلکار دمتری کوزک نے حالیہ صورتحال کا تعلق سربرنیکا کے علیحدگی پسندوں سے جوڑا، یہ بوسنیا ہرزیگوینا کا ایک قصبہ ہے جہاں سنہ 1995 میں بوسنیا کی سرب فوج کے ہاتھوں آٹھ ہزار مسلمان مارے گئے تھے۔
روسی صدر کی انتظامیہ میں ڈپنی سربراہ کوزک کا کہنا تھا ’اگر ہماری صدر کہتے ہیں کہ وہاں سربرنیکا ہے تو ہمیں دفاع کے لیے وہاں آنا پڑے گا۔‘
سنہ 2019 میں روسی صدر نے خدشہ ظاہر کیا تھا کہ اگر یوکرین نے بغیر کسی ضمانت کے دونباس کا کنٹرول حاصل کیا تو شاید وہاں روسی زبان بولنے والے افراد کے ساتھ شاید سربرنیکا جیسا قتل عام ہو سکتا ہے۔
Comments are closed.