دنیا کے دیگر حصوں کی طرح برطانیہ میں بھی جب امیگریشن کی بات کی جاتی ہے تو سب سے زیادہ توجہ ان لوگوں پر مرکوز کی جاتی ہے جو یہاں غیرقانونی طریقے سے آتے ہیں۔حکمراں کنزرویٹو پارٹی کا نعرہ ’سٹاپ دا بوٹس‘ (کشتیوں کو روکو) ان ہی لوگوں کی طرف اشارہ ہے جو انگلش چینل کے ذریعے ہزاروں کی تعداد میں برطانیہ میں داخل ہوتے ہیں۔یہ کشتیاں سکیگنس کے ساحل پر نہیں آتیں لیکن پھر بھی وہاں مقیم لوگوں کے لیے یہ معاملہ تشویش کا باعث ہے۔ وہاں ساحل پر موجود متعدد ہوٹلوں میں کچھ عرصہ پہلے تک وہ لوگ رہتے تھے جو برطانیہ میں پناہ لینے کی خواہش رکھتے تھے۔جولیانے بونسے نارتھ پریڈ ہوٹل چلاتے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ پناہ لینے والے افراد کی موجودگی علاقہ مکینوں کے لیے تشویش کا باعث تھی۔وہ کہتے ہیں کہ ’ان کی یہاں موجودگی سے ہمیں کوئی پریشانی نہیں تھی، لیکن سکیگنس میں یہ محسوس ہونے لگا تھا جیسے اہلیان علاقہ نہیں چاہتے کہ برطانیہ میں پناہ کے خواہشمند افراد وہاں رہائش اختیار کریں۔‘برطانیہ میں پناہ لینے کی خواہش رکھنے والے افراد کی اکثریت کو اب سکیگنس کے ہوٹلوں سے کہیں اور منتقل کر دیا گیا ہے لیکن مقامی افراد کو اب بھی امیگریشن کے خدشات لاحق ہیں۔
برطانیہ میں قانونی طریقوں سے آنے والوں کی اکثریت
شاید آپ یہ سوچ رہے ہوں کہ برطانیہ کی آبادی میں اضافہ وہاں غیرقانونی طور پر پہنچنے والے تارکینِ وطن کے سبب ہوا ہو۔سنہ 2022 میں برطانیہ آنے والے یا چھوڑنے والوں کی مجموعی تعداد 7 لاکھ 45 ہزار تھی جبکہ 2023 میں یہ تعداد 6 لاکھ 72 ہزار ہوگئی تھی۔ ان میں سے صرف 30 ہزار افراد ایسے تھے جو چھوٹی کشتیوں کے ذریعے برطانیہ پہنچے تھے۔برطانیہ آنے والے افراد کی ایک بڑی تعداد ملک میں قانونی طریقے سے داخل ہوتی ہے۔ یہاں کیکی ایکوے جیسے لوگ بھی موجود ہیں جو کہ سکیگنیس میں ملازمت کرتے ہیں۔ان کی ملازمت آسان نہیں ہے۔ وہ دروازے پر دستک دیتی ہیں اور گھر کے اندر داخل ہوتے ہوئے ہنستے ہوئے کہتی ہیں: ’ہیلو، میں چیکی کیکی ہوں۔‘کیکی نائجیریا سے برطانیہ تعلیم حاصل کرنے آئی تھیں اور پھر ملازمت کے لیے بھی یہیں رُک گئیں۔ وہ ایک نرس ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ ’میرا کام آسان نہیں، آپ کو دماغی طور پر متوازن ہونا پڑتا ہے، ہر مریض کے لیے دل میں ہمدردی رکھنی پڑتی ہے۔‘طالب علم اور ہیلتھ ورکرز ان دو تہائی افراد کی اکثریت میں شامل ہیں جنھیں گذشتہ برس برطانوی ویزے جاری کیے گئے۔آکسفورڈ یونیورسٹی کی مائیگریشن آبزرویٹری کے مطابق برطانیہ آنے والوں کی تعداد میں 2010 کی دہائی کے بعد جو اضافہ دیکھا گیا ہے اس کا سبب یہاں آنے والے طالب علم اور ہیلتھ کیئر ورکرز ہی ہیں۔برطانیہ کی آبادی میں اضافہ اور تارکینِ وطن کی یہاں بڑی تعداد میں آمد حکومت کے پالیسی فیصلوں کے سبب ہی ہوئی ہے۔ تو آخر یہاں ہو کیا رہا ہے؟سچ یہ ہے کہ تمام حکومتیں اس نتیجے پر پہنچی تھیں کہ برطانیہ کو تارکین وطن کی ضرورت ہے۔ غیرملکی طالب علم فیسوں کی مد میں بھاری رقوم ادا کرتے ہیں جس کے سبب مقامی طالب علموں کی تعلیم سستی ہوجاتی ہے۔اگر غیرملکی طالب علموں کی تعداد کو کم کرنا ہے تو برطانوی طالب علموں کو فیس کی مد میں زیادہ رقم ادا کرنا پڑے گی یا پھر حکومت کو ان کی تعلیم کے لیے فنڈز بڑھانے ہوں گے۔ ان میں سے کوئی بھی آپشن ایسا نہیں جو کہ مقبول ہو۔اس کے علاوہ برطانیہ کی معیشت خصوصاً صحت اور سوشل کیئر کے سیکٹرز کو ملازمین کی شدید کمی کا سامنا ہے۔ برطانیہ کی نیشنل ہیلتھ سروس میں کام کرنے والے 15 لاکھ لوگوں میں سے ہر پانچ افراد میں سے ایک فرد غیر ملکی ہے۔لیکن تارکینِ وطن کی تعداد میں اضافے کے باوجود بھی گذشتہ برس برطانیہ کے صحت کے شعبے میں تقریباً ڈیڑھ لاکھ آسامیاں خالی تھیں۔
بریگزٹ کے اثرات
اگرچہ یورپی یونین کو چھوڑنے سے حیران کن طور پر یہاں امیگریشن میں تو اضافہ ہوا ہے، تاہم بریگزٹ نے ایک گروپ کی تعداد کو کم کر دیا ہے۔جون 2023 سے 12 مہینوں کے اعداد و شمار کے مطابق یورپی یونین سے 86,000 افراد نے برطانیہ کو چھوڑا یعنی یورپی یونین کے برطانیہ چھوڑنے والے افراد کی تعداد یہاں آنے والوں سے زیادہ رہی۔ تاہم دوسری جانب ان کا خلا باقی دنیا سے برطانیہ آنے والے لوگوں نے پر کر دیا ہے۔ تقریباً ڈھائی لاکھ افراد انڈیا سے جبکہ ڈیڑھ لاکھ کے قریب نائجیریا سے آئے۔ ان کے بعد برطانیہ منتقل ہونے والوں میں چین، پاکستان اور زمبابوے سے آنے والے شامل تھے۔
’کشتیاں روک دو‘
ان تمام حقائق کے باوجود یہ غیر قانونی آمد ہی ہے جو برطانیہ کے سیاسی مباحثے پر حاوی ہے۔ انتخابات کے دوران ’کشتیاں روک دو‘(Stop the Boats) کے نعرہ کی گونج سنائی دیتی رہی۔ موجودہ وزیر اعظم رشی سنک نے اسے اپنی پانچ ترجیحات میں شامل کر لیا ہے۔اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے انھوں نے غیر قانونی طور پر پہنچنے والے بعض پناہ گزینوں کو روانڈا بھیجنے کا منصوبہ بنایا۔ لیکن حزب اختلاف کی لیبر پارٹی نے اس منصوبے کے خاتمے کا دعویٰ کیا ہے اور کہا ہے کہ اس کے بجائے وہ ایک نئی بارڈر اینڈ سیکیورٹی کمانڈ قائم کریں گے جس سے پناہ کی تلاش میں غیر قانونی طور سے آنے والوں تارکین وطن کا راستہ روکنے میں مدد ملے گی۔ حال ہی میں وجود میں آنے والی جماعت ریفارم پارٹی نے انسانی حقوق کے یورپی کنونشن کو چھوڑنے سمیت برداشت نہ کیے جانے والی ’زیرو ٹالرینس اپروچ‘ کا وعدہ کیا ہے۔
کیا برطانیہ میں دوسرے ممالک کے مقابلے زیادہ تارکین وطن آتے ہیں؟
جب تارکین وطن کی بات آتی ہے تو برطانیہ کا شمار بھی بڑے پیمانے پر دوسرے زیادہ آمدنی والے ممالک کے برابر آتا ہے۔ 2022 میں برطانیہ میں رہنے والے 14فیصد لوگوں کی تعریف ’بیرون ملک پیدا ہونے والوں‘ کے طور پر کی گئی تھی جیسا کہ امریکہ اور ہالینڈ جیسے ممالک کی آبادی میں بھی یکساں تناسب ہے۔لیکن جب کینیڈا، نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا جیسے ممالک کو دیکھا جائے تو ہمیں ایک مختلف تصویر ابھرتی ہوئی نظر آتی ہے۔مثال کے طور پر آسٹریلیا میں غیر ملکیوں کی آبادی برطانیہ کی آبادی کے غیر ملکیوں کی شرح سے تقریباً دوگنا ہے۔
BBCUrdu.com بشکریہ
body a {display:none;}
Comments are closed.