بدھ14؍شوال المکرم 1442ھ26؍مئی 2021ء

کسی بھی جمہوری ملک میں سیلف سینسر شپ کیسے ہو سکتی ہے؟ اسلام آباد ہائیکورٹ

چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے پیکا ترمیمی آرڈنینس کیخلاف دائر درخواستوں پر سماعت کے دوران ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ کسی بھی جمہوری ملک میں سیلف سینسر شپ کیسے ہو سکتی ہے؟ آرڈیننس لانے میں کیا عجلت تھی؟ کیوں نا آرڈیننس کو کالعدم قرار دیا جائے؟

اسلام آباد ہائیکورٹ میں چیف جسٹس اطہر من اللّٰہ نے پیکا ترمیمی آرڈنینس کیخلاف صحافتی تنظیموں، وکلاء اور دیگر کی درخواستوں کو یکجا کر کے سماعت کی۔

ایڈیشنل اٹارنی جنرل قاسم ودود اور ڈپٹی اٹارنی جنرل سید محمد طیب شاہ عدالت میں پیش ہوئے، ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت عالیہ کو بتایا کہ اٹارنی جنرل سپریم کورٹ میں مصروف ہیں۔

چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ جسٹس اطہر من اللّٰہ نے سماعت کے آغاز میں کہا کہ یہاں تین سوالات ہیں، آرڈیننس بظاہر آئین کے آرٹیکل 89 کی خلاف ورزی میں جاری ہوا، پیکا سیکشن 20کا غلط استعمال ہو رہا ہے، پولیٹیکل مباحثے ختم کرنے کیلئے یہ اختیار مسلسل غلط استعمال کیا جا رہا ہے۔

جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کہا کہ تہمت لگانے کیلئے قانون پہلے سے ہے، پاکستان پینل کوڈ (پی پی سی) میں تہمت لگانے کے جرم کی سزا موجود ہے۔

جسٹس اطہر من اللّٰہ نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل سے کہا کہ بتائیں نا اس کے لیے کون سا قانون موجود ہے؟ اس پر قاسم ودود نے جواب دیا کہ پی پی سی کی سیکشن 496 سی اس متعلق موجود ہے۔

چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے کہا کہ اس جرم کی سزا 5 سال ہے جسکا اطلاق سوشل میڈیا پر تہمت لگانے والے پر بھی ہوگا،پبلک آفس ہولڈر کے لیے تو معیارات مختلف ہیں،پبلک آفس ہولڈر تو خود کو پبلک سروس کے لیے پیش کرتا ہے۔

جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کہا کہ ایف آئی اے نے جو رپورٹس دیں وہ تو انٹرنیٹ پر صحافیوں کی سرویلنس کر رہے ہیں؟، کسی بھی جمہوری ملک میں سیلف سینسر شپ کیسے ہو سکتی ہے؟آرڈ یننس لانے میں کیا عجلت تھی؟ کیوں نا آرڈیننس کو کالعدم قرار دیا جائے؟

چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے اس موقع پر کہا کہ دلائل شروع کریں، ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہاکہ اٹارنی جنرل نے دلائل دینا تھے مگر ابھی انہوں نے صدارتی ریفرنس پر دلائل دینے ہیں۔

جسٹس اطہر من اللّٰہ نے ریمارکس دیئے کہ ملک میں جمہوریت اور آئین ہے، پبلک آفس ہولڈر سوشل میڈیا سے پریشان کیوں ہیں؟ آپ کو بین الاقوامی اسٹینڈرڈز بھی دیکھنے ہیں،ہم اکیسویں صدی میں ہیں، ملک کو پیچھے تو نہیں لے کر جانا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ترمیمی آرڈیننس پر عملدرآمد رکا ہوا ہے،ہم یہی تو پوچھ رہے ہیں کہ آرڈیننس لانےمیں جلدی کیا تھی؟ صرف اسی ایک نکتےپر آرڈیننس کاالعدم قرار دیے جانے کے قابل ہے۔

چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے کہا کہ آرٹیکل 89 کے تحت صدر کا آرڈیننس جاری کرنے کا اختیار پڑھیں، منیر اے ملک نے نہایت اہم نکتہ اٹھایا ہے،جس دن آرڈیننس جاری ہوا اس دن قومی اسمبلی کا اجلاس بلایا گیا تھا۔

سوشل میڈیا سے کس کو خطرہ ہے؟ اسے مورد الزام کیوں ٹھہرایا جائے؟ کرنل انعام الرحیم نے کہا کہ ایک وجہ یہ بھی ہے کہ پاکستان گرے لسٹ میں ہے، ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ گرے لسٹ کا اس معاملے سے کوئی تعلق نہیں۔

چیف جسٹس اسلام آباد نے کہا کہ فریڈم آف پریس انڈیکس میں کون سے ممالک اوپر ہیں؟ کیا وہاں تہمتیں لگتی ہیں؟ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ اسی لیے تو وہاں ان قوانین کی ضرورت نہیں۔

چیف جسٹس نے کہا اگر سوسائٹی کی ویلیوز خراب ہیں تو کیا آئین ختم کر دیں؟ سیاسی جماعتوں اور لیڈرز کی ذمہ داری ہے ، وہاں کی لیڈرشپ نے اخلاقی معیار قائم کر رکھے ہیں۔

اسلام آباد ہائیکورٹ نے کہا کہ صدر نے پارلیمنٹ کو نظرانداز کر کے آرڈیننس جاری کیا ، آپ نے ایف آئی اے کو ہتک عزت کیس میں براہ راست گرفتاری کا اختیار دے دیا۔

ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہاکہ آئین کے آرٹیکل 89کے حوالے سے دلائل کے لیے مہلت چاہیے، اس معاملےپر عدالت کو مطمئن کرنے کے لیے کچھ حقائق دیکھنے پڑیں گے،صرف صدر مملکت کا ٹوئٹ کافی نہیں کہ اجلاس بلایا گیا تھا،یہ بھی دیکھنا ہو گا کہ ایجنڈا پر کیا چیزیں تھیں۔

جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کہا کہ آپ کو آخری موقع دے رہے ہیں، پیر کو دلائل دیں، بتائیں کہ ہتک عزت کو فوجداری کیوں بنایا جائے؟ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ مجھے دو تین ورکنگ ڈیز دیں تاکہ کچھ معلومات اور ہدایات لے سکوں۔

عثمان وڑائچ ایڈووکیٹ نے بتایا کہ ایک اور جرنلسٹ کو بذریعہ واٹس ایپ نوٹس جاری کیا گیا ہے، چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ اُس جرنلسٹ نے کیا کیا ہے؟ وکیل نے بتایا کہ نوٹس میں اس متعلق کچھ نہیں بتایا گیا، چیف جسٹس نے کہاکہ یہ توطے ہوچکا کہ نوٹس میں وجوہات بتا کر باضابطہ تعمیل کرائی جائے گی۔

ایڈووکیٹ عثمان وڑائچ نے کہا کہ ہم نے نوٹس کو چیلنج کر دیا، ابھی اس کی تاریخ سماعت مقرر نہیں ہوئی، ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ فریڈم آف پریس میں ہمارے ہاں پچھلے دس پندرہ سال میں بہتری آئی، چیف جسٹس اسلام آباد اطہر من اللّٰہ نے کہاکہ بہتری نہیں آئی، ہم واپس پیچھے جا رہے ہیں،۔

اس موقع پر عدالت نے پیکا ترمیمی آرڈیننس کے خلاف درخواستوں پر سماعت 30 مارچ تک کیلئے ملتوی کردی۔

بشکریہ جنگ
You might also like

Comments are closed.