کروڑوں کے گھر بیچنے والے پراپرٹی ایجنٹس: ’میں ارب پتی افراد کو گھر فروخت کرتا ہوں لیکن خود اپنے والدین کے گھر میں رہتا ہوں‘

کرش

لگژری سٹیٹ ایجنٹس بھاری کمیشن حاصل کر سکتے ہیں لیکن پراپرٹی فروخت کرنے کا دباؤ کچھ نوجوانوں کو اس صنعت سے باہر دھکیل سکتا ہے۔

’میرے نصیب میں بہت پیسہ ہے، جو میری زندگی بدل دے گا مگر یہ کب آنے والا ہے یہ کوئی نہیں جانتا۔‘

کئی ملین پاؤنڈ کی جائیداد کی دنیا میں کام کرنے والی ایک نوجوان سٹیٹ ایجنٹ وینیسا ٹونووا کے لیے یہ کافی مشکل صورتحال تھی۔

وینیسا اور کرش پراپرٹی کی مارکیٹ میں ایسے دو ’بروکرز‘ ہیں جنھوں نے اس شعبے میں کامیاب ہونے کی کوشش کی اور ان دونوں نے بی بی سی کے ’کریزی رچ ایجنٹس: سیلنگ ڈریم ہومز‘ میں حصہ لیا۔

اگرچہ باہر سے دیکھنے والے کو یہ انڈسٹری بہت ہی دلکش لگتی ہو مگر حقائق ذرا مختلف ہیں۔ ’سیلنگ سن سیٹ‘ اور ’ملین ڈالر لسٹنگ‘ ٹی وی شوز دلکش ضرور لگتے ہیں مگر بروکرز کے لیے حقیقت کی دنیا میں امیر ترین لوگوں پر اپنا جادو چلانا کہیں مشکل کام ہے۔

ایک بین الاقوامی سٹیٹ ایجنٹ فرم کی لندن برانچ کے لیے کام کرتے ہوئے ان دونوں نے تنخواہ کی فکر سے آزاد ہو کر پراپرٹی کے اس کاروبار میں قدم رکھا، جس میں جب کوئی چیز بکتی ہے تو ہی پیسہ ملتا ہے۔

23 سالہ کرش کا کہنا ہے اس کام میں بہت زیادہ ’خطرہ مگر بہترین انعام‘ ہے۔

مواد پر جائیں

ڈرامہ کوئین

ڈرامہ کوئین

’ڈرامہ کوئین‘ پوڈکاسٹ میں سنیے وہ باتیں جنہیں کسی کے ساتھ بانٹنے نہیں دیا جاتا

قسطیں

مواد پر جائیں

تاہم ان کے مطابق ’میرے لیے، آٹھ یا دس ملین پاؤنڈ کے گھر میں جا کر یہ دیکھنا دلچسپی کا حامل ہے کہ وہاں لوگ زندگی کیسے گزارتے ہیں۔ لگژری رئیل اسٹیٹ کی یہ پوری دنیا، یہ آپ کو تھوڑا حیران کر دیتی ہے۔‘

وینیسا اور کرش کے لیے بہت بڑے کمیشن کمانے کا امکان کہیں زیادہ ہے۔ وہ ایک ڈیل میں اتنے پیسے کما سکتے ہیں جو کچھ لوگ سال میں کماتے ہوں گے۔ یہ ان کے لیے بہت بڑا عنصر تھا جس نے انھیں اس کام کی طرف مائل کیا۔ کچھ ایجنٹس کو تو پہلی ڈیل کرنے میں سال لگ سکتے ہیں۔

لندن میں رہنے والی 25 سالہ سابق ماڈل وینیسا کا کہنا ہے کہ ہر ایک کی طرح جو اس شعبے میں ہے ’ظاہر ہے کہ یہ رقم میرے لیے ایک بڑا محرک تھی۔ جو بھی ایسے لوگ ہیں جو ایسی ہدف اور کارکردگی کی بنیاد پر چلنے والا کام کرتے ہیں، ہمارے لیے پیسہ ایک بڑی چیز ہے۔‘

کرش کے لیے یہ اتنے پیسے کمانے کا موقع تھا جس سے وہ اپنے والدین کے گزر بسر میں مالی مدد کر سکتے تھے، اس بات نے انھیں اس شعبے میں آنے پر مائل کیا۔

ان کا کہنا ہے کہ ’میرے والدین نے بہت قربانیاں دیں اور وہ اس سے کہیں زیادہ کے مستحق ہیں جو ان کے پاس ہے۔‘

لیکن کروڑ پتیوں اور ارب پتیوں کو گھر بیچنے کے باوجود کرش اب بھی اپنے والدین کے ساتھ رہتے ہیں۔

ان کے مطابق ’وہ فی الحال اپنے لیے گھر نہیں خرید سکتے کیونکہ مکان کی قیمتیں حیرت انگیز طور پر بہت زیادہ ہیں۔‘

ان کے مطابق ’ایک چیز جو میں نے ان تمام ارب پتیوں سے سیکھی ہے، وہ یہ کہ آپ کو یہ دیکھنا ہوگا کہ آپ کس طرح ممکنہ طور پر کسی گھر کی قدر میں اضافہ کر سکتے ہیں اور اس وقت جہاں میں رہتا ہوں، مجھے بہت ساری پراپرٹیز میں یہ قدر نہیں نظر آرہی۔‘

کرش کے مطابق ’یہ عجیب سی بات ہے کہ آپ گھر تو فروخت کرتے ہیں مگر پھر بھی اپنے لیے آپ ایک گھر نہیں خرید سکتے۔ کیا میں مستقبل قریب میں اپنا گھر چاہتا ہوں؟ بالکل۔۔۔‘

 وینیسا ٹونووا

’کوئی گارنٹی نہیں کہ آپ کچھ فروخت بھی کر سکیں گے‘

وینیسا اور کرش دونوں اس بات پر متفق ہیں کہ بہت دلکش لگنے والی یہ پراپرٹی کی صنعت بہت سفاک بھی ہو سکتی ہے۔

کرش کا کہنا ہے کہ ’لوگ اس کے پیچھے ہونے والی محنت کو نہیں دیکھتے ہیں۔‘

وینیسا نے کمیشن کی اس صنعت میں کامیابی حاصل کرنے کی کوشش میں ایک سال گزارا۔ انھوں نے مالی مدد کے لیے اپنی ماں پر انحصار کیا اور فارغ وقت میں بچوں کی دیکھ بھال کے ساتھ اپنی آمدنی میں اضافہ کیا۔

وہ کامیابی کے ساتھ اعلی درجے کے بڑے گھروں کی فہرستیں لے کر آئیں اور ان جائیددوں کی فروخت کے لیے سر دھڑ کی بازی لگا دی۔

ان کے مطابق ’یہ سب آپ کے نیٹ ورک سے ممکن ہے، لہٰذا آپ کو نہ صرف بیچنے والے بلکہ پھر خریداروں کو تلاش کرنے کے لیے بہت محنت کرنی ہوتی ہے اور دس ملین یا 15 ملین پاؤنڈ کے گھروں کے لیے خریدار تلاش کرنا کوئی آسان کام نہیں۔ یہ بہت ہی زیادہ مشکل کام ہے۔‘

ان کے مطابق ’آپ کا ہر وقت گھر سے باہر رہنا ضروری ہے، لوگوں سے بات کرنا ضروری ہوتا ہے، آپ کو ان خریداروں تک پہنچنے یا بیچنے والے تک پہنچنے کے لیے تخلیقی طریقے تلاش کرنے کی ضرورت پڑتی ہے، جو کہ ایک مشکل کام ہے۔‘

وہ یہ دلیل دیتی ہیں کہ ایک ایجنٹ کے طور پر اعلیٰ درجے کی لگژری مارکیٹ میں قدم رکھتے وقت آپ کو مکمل طور پر تیار رہنے اور مالی طور پر مضبوط ہونا ضروری ہوتا ہے۔

وہ کہتی ہیں اگر آپ ایسا نہیں کریں گے تو آپ اس شعبے میں ٹک نہیں سکیں گے ’اور اس بات کی کوئی گارنٹی نہیں ہے کہ آپ چیز فروخت بھی کر سکیں گے۔‘

ان کے مطابق آپ کے پاس مناسب پیسہ جمع پونجی میں ضرور ہونی چاہیے۔

پراپرٹی فروخت کرنے کی جدوجہد وینیسا کی پریشانی میں اضافے کا باعث بھی بنی مگر انھوں نے ممکنہ خریداروں اور فروخت کنندگان کے سامنے اپنی پریشانی کا اظہار نہیں کیا۔

وہ کہتی ہیں کہ اگر آپ دباؤ میں ہیں تو ایسے میں اتنے امیر ترین لوگ شاید آپ کے ساتھ کام نہیں کرنا چاہیں گے۔ ان کے مطابق ’آپ کو ہر وقت بہترین کارکردگی دکھانی ہوتی ہے۔‘

آخر میں جب ان کی ماں نے انھیں ایک ڈیڈ لائن دی تو، وینیسا نے ساؤتھ کینسنگٹن میں واقع ایک کارپوریٹ پراپرٹی ایجنسی میں نوکری حاصل کرنے کا فیصلہ کیا، جس نے کمیشن کے ساتھ باقاعدہ تنخواہ کی پیشکش کی۔

ہوم

،تصویر کا ذریعہHPGL

’کسی کے پیسے سے نہیں ڈرا‘

پراپرٹی مارک کے چیف ایگزیکٹو ناتھن ایمرسن کا کہنا ہے کہ حالیہ برسوں میں کمیشن پر مبنی کام کرنے والے ماڈلز زیادہ عام ہو گئے ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ کمیشن کے لیے کام کرنا ایجنٹوں کو ایک اضافی محرک یا جذبہ فراہم کرتا ہے تاہم جو ایجنسیاں معاوضے کا نظام وضع کرتی ہیں تو اس سے ان کے کاروبار میں اضافہ ممکن ہے۔

کرش جو اس وقت لندن کے چیلسی ہاربر میں چھ ملین پاؤنڈ سے زیادہ کے اپارٹمنٹس فروخت کرنے والوں کی فہرست میں ہیں، کا کہنا ہے کہ وہ بہت امیر ترین لوگوں کے ساتھ کام کرتے ہوئے گھبرائے نہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ ’میں حقیقت میں کسی کے پیسے سے نہیں ڈرتا۔‘

ان کے مطابق ’مجھے واقعی اس کی پرواہ نہیں کہ آیا ان کے گھر کے باہر دروازے ہیں یا وہ ایک بڑی حویلی میں رہتے ہیں۔‘

BBCUrdu.com بشکریہ