بدھ14؍شوال المکرم 1442ھ26؍مئی 2021ء

کرس الیگزینڈر: پاکستان پر پابندیوں کا مطالبہ کرنے والے کینیڈا کے سابق وزیر

کرس الیگزینڈر: پاکستان پر پابندیوں کا مطالبہ کرنے والے کینیڈا کے سابق وزیر

کرس الیگزینڈر

،تصویر کا ذریعہ@calxandr

جوں جوں افغانستان میں صورتحال مسلسل خراب ہوتی جا رہی ہے، اس مسئلے پر الزام تراشی کا ماحول بن رہا ہے یعنی مسئلے کا حل دکھائی نہیں دے رہا مگر ذمہ داران کی تلاش جاری ہے۔

طالبان اور افغان فوج کی لڑائی کے پس منظر میں سوشل میڈیا پر تبصرے کیے جا رہے ہیں۔ کوئی امریکہ کی حکمت عملی پر سوال اٹھا رہا ہے تو کوئی طالبان اور افغان فوج سے فوری جنگ بندی کا مطالبہ کر رہا ہے تاکہ معصوم لوگوں کی جانیں بچائی جا سکیں۔

ایسے میں سوشل میڈیا پر ’سینکشن پاکستان‘ یعنی پاکستانی پر پابندی کا ہیش ٹیگ بھی وقتاً فوقتاً ٹرینڈ کر رہا ہے۔

اس ہیش ٹیگ سے یہ تاثر دینے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ افغانستان کے مسئلے کا ذمہ دار پاکستان ہے جو طالبان کی پشت پناہی کر رہا ہے تاہم پاکستانی حکام بارہا اس الزام کو مسترد کر چکے ہیں۔

جب ہم نے یہ جاننے کی کوشش کی کہ اس ہیش ٹیگ کو افغانستان کے پس منظر میں پاکستان کے خلاف کس نے سب سے پہلے استعمال کیا تو اس کے نتائج غیر معمولی تھے۔

یہ ہیش ٹیگ کسی انڈین یا افغان شہری کا شروع کردہ نہیں بلکہ کینیڈا میں بیٹھے ایک سابق کینیڈین وزیر کرس الیگزینڈر کا تھا۔

ٹویٹ

،تصویر کا ذریعہTwitter/@calxandr

گذشتہ دو ماہ سے وہ ٹوئٹر پر پاکستان کے خلاف ایسے بیانات جاری کر رہے ہیں جنھیں افغان اور انڈین میڈیا میں پذیرائی مل رہی ہے جبکہ پاکستان کے دفتر خارجہ نے ان کے رویے کی مذمت بھی کی ہے۔

انھوں نے افغان فوج اور طالبان کے درمیان جنگ کو ’پاکستان کی پراکسی وار‘ کہا تھا اور پاکستانی حکام پر افغانستان میں طالبان کے ذریعے مداخلت کرنے کا الزام لگایا۔

اس کے جواب میں پاکستان کے دفتر خارجہ نے اس کی مذمت کرتے ہوئے کہا تھا کہ کرس الیگزینڈر نے پاکستان کے خلاف جھوٹے الزامات لگائے ہیں جبکہ پاکستان نے امن کے عمل میں اہم کردار ادا کیا ہے۔

دفتر خارجہ نے کہا تھا کہ انھوں نے یہ معاملہ کینیڈین حکام کے سامنے اٹھایا ہے۔

یہ بھی پڑھیے

کرس الیگزینڈر کون ہیں؟

کرس الیگزینڈرکی اپنی ویب سائٹ کے مطابق وہ سنہ 1991 میں کینیڈا کے دفتر خارجہ میں بطور فارن سروس آفیسر تعینات ہوئے اور انھوں نے ابتدائی طور پر ماسکو میں چھ سال گزارے۔

نائن الیون اور افغانستان میں امریکی مداخلت کے بعد سنہ 2003 سے 2005 تک وہ کابل میں کینیڈا کے سفیر رہے۔

ان کی اہلیہ ہیڈوگ کرسٹین ڈنمارک کی فوج کا حصہ رہ چکی ہیں اور انھوں نے غیر ملکی افواج کے ساتھ افغانستان میں بھی وقت گزارا۔

کرس سنہ 2005 سے 2009 تک افغانستان میں اقوام متحدہ کے خصوصی نائب نمائندے رہے۔ اس دوران انھوں نے افغانستان کے سیاسی و عسکری معاملات کے علاوہ افغان حکومت کے ساتھ عالمی تعاون میں کردار ادا کیا۔

کرس الیگزینڈر

،تصویر کا ذریعہSocial Media

سنہ 2009 میں ان کی مدت ملازمت ختم ہونے کے بعد وہ اپنے خاندان کو لے کر واپس کینیڈا چلے گئے۔

افغانستان میں اپنی چھ سال کی سروس پر انھوں نے ایک کتاب بھی لکھی ہے جس کا نام ’دی لانگ وے بیک‘ ہے۔

کینیڈا کی فارن سروس میں قریب 18 سال گزارنے کے بعد وہ سیاست میں آ گئے اور کنزرویٹو پارٹی میں شمولیت اختیار کر لی۔

سنہ 2013 میں انھیں کینیڈا میں شہریت اور امیگریشن کا وزیر بنایا گیا تھا۔

اپنے دور کے آخری سال میں ایک تنازعے پر ان پر کافی تنقید ہوئی تھی جب کینیڈا میں ان کی انتخابی مہم کے دوران شام سے یونان جانے کی کوشش میں آلان کردی نامی بچہ ڈوب کر ہلاک ہو گیا۔ اس بچے کے تصویر سنہ 2015 میں وائرل ہوئی تھی۔

کینیڈا پر یہ الزام لگایا گیا کہ اس نے شام میں پناہ گزینوں کے مسئلے کو حل کرنے میں کوتاہی برتی تھی جس کی وجہ سے ایسے واقعات پیش آئے۔

سیاسی مخالفین نے کرس سے استعفے کا مطالبہ کیا تھا مگر کرس نے اپنے حریف امیدواروں پر الزام لگایا تھا کہ انھوں نے غلط انداز میں اس تصویر کو استعمال کرتے ہوئے انھیں ’بچے کا قاتل‘ قرار دیا۔

انھوں نے شامی پناہ گزینوں پر اپنی پالیسی کے دفاع میں کہا تھا کہ اس پر ہونے والے خرچ اور لوگوں کے لیے حفاظتی اقدامات بھی ضروری ہیں۔

کرس الیگزینڈر پر تنقید کرنے والوں میں کینیڈا کے موجودہ وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو بھی شامل تھے۔

کرس الیگزینڈر پر اس وقت بھی تنقید کی گئی تھی جب انھوں نے اپنی انتخابی مہم کے دوران کہا تھا کہ تقریب حلف برداری میں ’نقاب، حجاب، برقعے‘ کی کوئی جگہ نہیں۔

ان کے پاس یہ عہدہ نومبر 2015 تک رہا اور اس کے بعد سے وہ مختلف موضوعات پر سفارتی تعلقات کے ماہر کے طور پر جانے جاتے ہیں۔

اور اب افغانستان کے مسئلے پر اپنے پاکستان مخالف بیانات کی وجہ سے انھیں افغانستان میں بعض حلقے سراہتے نظر آ رہے ہیں۔ کابل میں ان کی تصویر کے بِل بورڈ بھی لگائے گئے ہیں اور ان کا شکریہ ادا کیا گیا ہے۔

BBCUrdu.com بشکریہ
You might also like

Comments are closed.