سندھ ہائی کورٹ نے کراچی میں غیر قانونی پارکنگ کی الاٹمنٹ اور پارکنگ فیس کو غیر قانونی قرار دے دیا، عدالت نے ریمارکس دیئے کہ کس قانون کے تحت پارکنگ فیس وصول کی جا رہی ہے، چارجڈ پارکنگ کے نام پر بھتہ خوری بند کی جائے۔
سندھ ہائی کورٹ نے پارکنگ فیس وصولی پر ڈی آئی جی ٹریفک، کمشنر اور بلدیاتی اداروں پر اظہارِ برہمی کرتے ہوئے سوال کیا کہ کس قانون کے تحت پارکنگ فیس وصول کی جا رہی ہے۔
جسٹس محمد اقبال نے کہا کہ پارکنگ فیس کے نام پر شہریوں کی بے عزتی کی جاتی ہے اور پارکنگ والے فیس نہ دینے پر بدتمیزی کرتے ہیں۔
عدالت نے متعلقہ حکام سے سوال کیا کہ کس نے جگہ جگہ پارکنگ کی اجازت دی؟ غیر قانونی پارکنگ سے شہر میں ٹریفک جام رہتا ہے۔
جسٹس اقبال نے کہا کہ پارکنگ والے طے شدہ فیس ہی نہیں بلکہ کوئی 20 اور کوئی 30 روپے فیس وصول کرتا ہے۔
عدالت نے کہا کہ کسی نے آدھے گھنٹے بعد دوبارہ وہیں گاڑی پارک کرنی ہے تو پھر فیس لی جاتی ہے۔
جسٹس محمد اقبال کلہوڑو نے سوال کیا کہ کوئی تو قانون ہو گا جس کے تحت پارکنگ فیس وصول کی جارہی ہے؟
جس پر نمائندہ کمشنر آفس کا کہنا تھا کہ پارکنگ فیس وصول کرنے کا کوئی قانون نہیں، فیس سڑکوں کی مرمت کے لیے وصول کی جاتی ہے۔
جج محمد اقبال نے سوال کیا کہ کونسی سڑکوں کی مرمت ہو رہی ہے؟ سڑکوں کا حال دیکھا ہے؟ عدالت نے غیر قانونی پارکنگ پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ تشویش ہے کہ کل کو گھر کے باہر بھی کھڑی گاڑی پر پارکنگ فیس وصول کرنا شروع نہ ہو جائے اور ایسا ہوا تو عزت دار لوگ عزت بچانے کےلیے 20 سے 30 روپے دے دیں گے۔
سندھ ہائی کورٹ نے کہا کہ پارکنگ کی جگہ پر بورڈ کیوں نہیں لگا دیئے جاتے؟
فاضل جج نے کہا کہ کراچی کی سڑکوں کو پارکنگ کے لیے ٹھیکے پر دے دیا گیا ہے، ہم کارروائی کریں گے اور پارکنگ فیس کے نام پر بھتہ نہیں لینے دیں گے۔
سندھ ہائی کورٹ نے فریقین سے 29 اکتوبر کو تفصیلی جواب طلب کر لیا۔
Comments are closed.