کراچی سے مدینہ تک: مسجدِ نبوی کے پاکستانی خطاط جن پر ایک عربی شیخ کی نظر پڑی اور ان کی زندگی بدل گئی
- مصنف, محمد زبیر
- عہدہ, صحافی
- ایک گھنٹہ قبل
آج سے تقریباً چار دہائی قبل کراچی میں خطاطی اور پینٹنگ کا کام کرنے والے شفیق الزمان ایک ہورڈنگ بورڈ پر کام کر رہے تھے جب ایک عربی شیخ کی نظر ان پر پڑی اور پھر جیسے ان کی زندگی ہی بدل گئی۔اس وقت اخبارات چھپائی کا کام، اشتہارات، ہورڈنگ بورڈ سب کچھ تقریباً ہاتھ سے کیا جاتا تھا اور شفیق اس ہنر میں مہارت رکھتے تھے۔شفیق الزماں نے یہ کام کسی سے براہِ راست نہیں سیکھا تھا لیکن خطاطی کے ماہر سمجھے جانے والے ترک خطاط حامد الامدی سے وہ بہت متاثر تھے اور آج بھی انھیں اپنا روحانی استاد مانتے ہیں۔یہ علم اور ترک طرزِ خطاطی سے لگاؤ ان کے لیے کتنی اہمیت اختیار کر جائے گا یہ اس وقت وہ خود بھی نہیں جانتے تھے۔
تو پھر ہوا کچھ یوں کہ جب ایک عربی شیخ کراچی کی اس سڑک سے گزرے، جہاں وہ ہورڈنگ بورڈ پر کام کر رہے تھے تو انھوں نے شفیق الزماں کو سعودی عرب آنے کی دعوت دی۔یہ 1990 کی دہائی کے آغاز کی بات ہے اور مسجد نبوی کے نگران ادارے کو ایک خطاط کی ضرورت تھی۔ مسجد میں ترک دور کے گنبدوں اور اس پر کی جانے والی خطاطی خراب ہو چکی تھی یا ماند پڑ چکی تھی۔شفیق الزماں بتاتے ہیں کہ فیصلہ ہوا کہ خطاط کے انتخاب کے لیے مقابلہ کروایا جائے اور اس کے لیے پوری دنیا سے 400 خطاط نے شرکت کی تھی۔وہ بتاتے ہیں کہ ترکوں میں اس زمانے میں بھی اور ابھی تک خطاطی کا فن بڑا مشہور ہے اور ان کے پاس بڑے ماہر خطاط موجود تھے۔ اسی طرح عرب دنیا، مصر اور دیگر اسلامی ممالک میں بھی ماہر خطاط اس مقابلے میں شریک ہوئے۔’میں نے بھی اس مقابلے میں حصہ لیا اور اللہ کا کرنا ایسا ہوا کہ مجھے اس کام کے لیے منتخب کر لیا گیا۔‘،تصویر کا ذریعہCourtesy Shafiq uz Zamanاس مقابلے کے بعد تقریباً گذشتہ 35 سال سے مسجد نبوی میں خطاطی کا یہ کام شفیق الزماں سر انجام دے رہے ہیں۔حالیہ برسوں میں ان کے ساتھ فیصل آباد کے مبین احمد بھی یہ کام جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے کر رہے ہیں۔شفیق بتاتے ہیں کہ ’کبھی کوئی وقت ہوتا تھا کہ میں کراچی میں بیٹھ کر سوچا کرتا تھا اور خواہش کرتا تھا کہ میری خطاطی کے کام کا ایک کتبہ مسجد نبوی میں لگ جائے اور اب ایک ایسا وقت آ چکا تھا کہ پوری مسجد نبوی میں، میں ہی خطاطی کر رہا ہوں۔‘’اس وقت بس میری آنکھوں میں آنسو تھے اور اپنے اللہ کا شکر ادا کر رہا تھا کہ مجھے بھی یہ سعادت نصیب ہوئی۔ شاید یہ میری قسمت میں تھا اور میری چاہت تھی کہ میں مدینہ پہنچ کر مسجد نبوی کی خدمت کروں اور ایک ایسا تاریخی کام انجام دوں جو ہمیشہ یاد رکھا جائے۔ یہ سعادت میرے اور پاکستان کے حصے میں آنا تھی۔‘،تصویر کا ذریعہCourtesy Shafiq uz Zaman
’گنبدوں کا کام نوے فیصد ہو چکا ہے‘
شفیق الزمان کے مطابق مسجد نبوی میں خطاطی کے کام کا آغاز پرانے حرم، جس میں سلطنت عثمانیہ کے گنبد تھے وہاں سے ہوا تھا۔ان کے مطابق ’ڈیڑھ سو کے قریب گنبدوں پر خطاطی خراب ہو چکی تھی یا ماند پڑ چکی تھی جس کو اچھا اور بہتر کرنا تھا اور اس طرح کرنا تھا کہ آئندہ کئی سال تک اسے فرق نہ پڑے۔ اس کام کے دوران ہی یہ فیصلہ کیا گیا کہ میں ہی حرم میں باقی خطاطی کا کام بھی انجام دوں گا۔‘ان کا کہنا تھا کہ ’اس میں اب حرم کی جو توسیع ہوئی، وہ کام بھی اس میں شامل ہو چکا ہے۔‘وہ بتاتے ہیں کہ ’مجھ سے پہلے بھی ان گبندوں پر کوشش کی گئی تھی کہ کسی طرح اس خطاطی کو بہتر کیا جائے جس کے لیے اس پر اسی طرح کچھ پینٹ وغیرہ کروایا گیا تھا جس سے بہتری نہیں ہوئی تھی۔‘ان کا کہنا تھا کہ ’یہ بہت محنت طلب کام ہے اس میں جلدی نہیں کی جا سکتی۔ ایک ایک فن پارہ تیار کرتے ہوئے مجھے زیادہ سے زیادہ چھ ماہ اور کم سے کم تین ماہ بھی لگے ہیں۔ کئی گھنٹوں کی محنت کے بعد ایک یا دو میٹر خطاطی ہی ممکن ہو سکتی ہے۔‘،تصویر کا ذریعہCourtesy Shafiq uz Zamanشفیق الزماں کا کہنا تھا کہ ترک دور کے گنبدوں میں سارا کام ثلث میں ہوا۔ یہ تقریباً ویسا ہی کام ہے جو ترک دور کے اندر تقریباً تین سو سال پہلے کروایا گیا تھا۔ اس میں بس ایک فرق ہے کہ اس دور میں یہ کام املائی انداز میں ہوا تھا جبکہ اب رسم عثمانی میں کیا جا رہا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ ’فن خطاطی میں خط ثلث کو تمام خطوں میں سب سے بہتر بلکہ بادشاہ سمجھا جاتا ہے۔‘’یہ اصل عراق سے چلا اور پھر ترکوں نے اس پر بہت کام کیا۔ دنیا کی بیشتر مساجد میں خطاطی کے لیے خط ثلث کا استعمال کیا جاتا ہے۔‘،تصویر کا ذریعہCourtesy Shafiq uz Zaman
’روضہ رسول پر کام ہو رہا ہے‘
شفیق الزماں کے مطابق اس کے ساتھ ساتھ اب وہ روضہ رسول پر بھی کام کر رہے ہیں۔ یہ کام گنبد پر کیے جانے والے کام سے مختلف ہے۔ گنبد پر سارا کام ہاتھ سے کیا جاتا ہے جبکہ ’مسجد نبوی کے اندر کا کچھ کام ہاتھ سے مکمل کرتا ہوں اور کچھ کام مشین سے مکمل کرواتا ہوں۔‘شفیق الزماں بتاتے ہیں کہ مسجد نبوی کے دروازوں کے نام اور مختلف دفاتر کے بورڈز پر بھی انھوں نے ہاتھ سے کام کیا۔
وہ کہتے ہیں کہ ’جب میں روضہ رسول پر حاضری دے کر کام کر رہا ہوتا ہوں تو اپنے نصیب اور مقدر پر یقین نہیں آتا اور آنسو تھمتے ہی نہیں۔ یہ بڑا اعزاز ہے، جو مجھے ملا اور پاکستان کے حصے میں آیا۔‘ان کا کہنا تھا کہ ’کافی سارا کام ابھرا ہوا ہوتا ہے۔ جس کے لیے میں یہاں سے خطاطی کر کے پاکستان بھجواتا ہوں۔ وہاں پر اس پر مشین سے حروف سٹیل اور میٹل میں تیار ہوتے ہیں۔‘’مسجد نبوی کی پہلی دیوار جس کو دیوار قبلہ بھی کہا جاتا ہے اس پر جو خطاطی ہے اس پر الفاظ ابھرے ہوئے ہیں۔ یہ اور اس طرح کا دیگر کام جہاں الفاظ ابھرے ہوئے ہوتے ہیں اس کام کو پاکستان میں فیصل آباد سے کرواتا ہوں۔‘شفیق الزماں کے مطابق انھوں نے فیصل آباد میں مبین احمد کا انتخاب سوشل میڈیا پر ان کا کام دیکھ کر کیا تھا۔،تصویر کا ذریعہCourtesy Shafiq uz zaman
شفیق الزماں کے شاگرد مبین احمد
مبین احمد فیصل آباد کے رہائشی ہیں اور انھوں نے فائن آرٹس میں ڈگری حاصل کر رکھی ہے۔ وہ پاکستان میں مختلف مساجد کے لیے بھی کام کر رہے ہیں۔مبین احمد کہتے ہیں کہ فن خطاطی کا بچپن ہی سے شوق تھا۔ میں نے استاد شفیق الزماں کا نام سن رکھا تھا اور میں ان کا بہت بڑا فین ہوں۔مبین احمد کہتے ہیں کہ ’فن خطاطی سے شوق کی بنا پر طالب علمی سے فارغ ہونے کے بعد میں نے فیصل آباد میں کمپنی قائم کی اور مختلف مساجد میں کام کرنے لگا۔‘ان کا کہنا تھا کہ ’ہم 2017 سے مسجد نبوی کے لیے کام کروا کر بھج رہے ہیں۔ ہمیں وہاں سے استاد شفیق الزماں اپنا کام بھیجتے ہیں۔ جس کے بعد ہمارا کام شروع ہوتا ہے۔‘’یہ بہت نازک کام ہوتا ہے۔ ہمارے کام کی سب سے پہلی شرط یہ ہوتی ہے کہ جو کچھ استاد شفیق الزماں نے جس طرح سے خطاطی کر کے بھیجا، اس میں ایک رتی برابر بھی فرق نہیں آنا چاہیے۔‘،تصویر کا ذریعہCourtesy Mubeenمبین احمد کا کہنا تھا کہ ’اس کے لیے ہم نے دو ورکشاپس قائم کر رکھی ہیں۔ ایک ان ہاوس ورکشاپ ہے جہاں پر ہم پتھر کا کام کرتے ہیں اور دوسری کمپیوٹر نومیریکل کنٹرول ہے۔ ہم ان دونون کی مدد سے کام کرتے ہیں۔‘مبین احمد کہتے ہیں کہ ’روضہ رسول پر جو لگی ہوئی جالیوں پر ﷺ لکھا ہوا ہے اس میں 32 الفاظ ہیں جو کہ تین انچ بنتے ہیں۔ ان الفاظ کی ہم نے کھدائی کی اور پھر انھیں کندہ کیا گیا تھا۔‘ان کا کہنا تھا کہ ’ممبر رسول کا دروازے پر جو کلمہ لکھا ہوا ہے اس کی خطاطی استاد شفیق الزماں نے کی۔ ہم نے اس پر سونے کا پانی چڑھایا، الفاظ پیتل سے بنائے اور اس کی بنیاد ٹھوس فائبر کی ہے۔‘دوسری جانب شفیق الزماں کہتے ہیں انھیں توقع ہے کہ ان کا یہ کام کئی سو سال تک خراب نہیں ہو گا۔ ’ہاتھ سے خطاطی کا کام بھی اس طرح کر رہے ہیں جبکہ جو کام کندہ اور دیگر پاکستان سے ہو رہا ہے وہ بھی بہت پائیدار ہے۔‘
BBCUrdu.com بشکریہ
body a {display:none;}
Comments are closed.