زمانہ قدیم میں جب کاغذ اور پوسٹیج کی قیمت بہت زیادہ تھی تو لوگوں نے اس وقت ایک ایسا طریقہ کار اختیار کیا جس میں چھوٹے سے کاغذ پر زیادہ سے زیادہ اطلاعات کی منتقلی ممکن ہوتی تھی۔ اس مقصد کے لیے وہ کاغذ پر کئی سمتوں سے تحریر کرتے تھے۔
لیکن موجودہ دور کے لوگ بڑے خوش قسمت ہیں کہ اس دور میں کاغذ، لکھنے والی چیزیں اور پوسٹیج فیس عمومی طور پر سستی اور قابل برداشت ہے اور ہم ان کا اس طرح استعمال کرتے ہیں کہ جیسے یہ سب کچھ مفت ہو، لیکن ایسا ہمیشہ سے نہیں تھا۔
امریکی خانہ جنگی کے دور سے 19ویں صدی تک جس کاغذ پر خط تحریر کیے جاتے تھے، پوسٹیج اخراجات زیادہ ہونے کی وجہ سے لوگ کاغذ کے ایک ٹکڑے پر کئی سمتوں میں لکھتے تھے تاکہ رقم بچائی جاسکے۔
اس تکنیک کو کراس رائٹنگ یا کراس ہیچنگ کہتے تھے، اس کے باوجود کہ بظاہر پڑھنے میں کافی مشکل ہوتی تھی، لیکن لوگ کیونکہ اس کے عادی ہوتے تھے لہٰذا وہ باآسانی اسے پڑھ سکتے تھے۔
اس دور میں کراس رائٹنگ اس قدر وسیع پیمانے پر استعمال ہوا کرتا تھا کہ مشہور مصنف اور دانشور جیسے کہ ہنری جیمز، جین آسٹن اور چارلس ڈارون شامل ہیں وہ اس طریقہ کو استعمال کرتے تھے تاکہ کاغذ اور رقم بچا سکیں۔
لیکن ہم آج ایک ایسے عہد میں رہتے ہیں کہ اب اس قدر پچیدہ تکنیک کی ضرورت نہیں رہی۔ تاہم اس کے باوجود کراس لیٹرز کی قدامت اور دلکشی اپنی جگہ قائم ہے۔
Comments are closed.