کرائم شو کی شوقین خاتون جس نے ’تجسّس کے مارے‘ ایک اجنبی پر چاقو سے 100 وار کر دیے
،تصویر کا ذریعہBUSAN POLICE
- مصنف, فرانسس ماؤ
- عہدہ, بی بی سی نیوز
اصلی جرم پر مبنی دستاویزی فلمیں اور شوز کے مداح تو بہت ہیں لیکن شاید ایسا پہلی بار ہوا ہو گا کہ ایک مداح نے شوز سے متاثر ہو کر کسی کو قتل کر دیا۔ جنوبی کوریا میں ایسی ہی ایک قاتلہ کو عدالت نے عمر قید کی سزا سنا دی ہے۔
پولیس کا کہنا ہے کہ 23 سال کی جُنگ یو جنگ کرائم شوز اور ناولوں کی دیوانی ہیں اور نفسیاتی ٹیسٹ میں بھی ان کے اچھے نمبر ہیں۔
وہ قتل کرنے کا تجربہ کرنا چاہتی تھیں، انھوں نے ایک آن لائن ایپ کی مدد سے انگریزی زبان کی ٹیچر سے بات چیت شروع کی پھر ان سے ملاقات کر کے مئی میں انھی کے گھر میں انھیں چاقو کے وار کر کے قتل کر دیا۔
اس بے دردی سے مارنے کی واردات نے جنوبی کوریا میں لوگوں کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔
استغاثہ نے مجرم کو سزائے موت دینے کی درخواست کی تھی۔ کوریا میں یہ سزا عموماً سنگین جرام میں ملوث افراد کو دی جاتی ہے۔
انھوں نے عدالت کو بتایا کہ جُنگ بے روزگار ہیں اور اکیلی اپنے دادا کے ساتھ رہتی تھیں۔ وہ کئی مہینوں سے ٹیوٹرز کی ایپ کے ذریعے اپنے شکار کی تلاش میں تھیں۔ انھوں نے 50 سے زیادہ لوگوں سے رابطہ کیا اور ان سے پوچھا کہ آیا وہ گھر میں پڑھاتی ہیں۔ جُنگ خواتین اساتزہ کو ترجیح دے رہی تھیں۔
مئی میں انھوں نے ایک ہائی سکول کے طالب علم کی والدہ ہونے کا جھوٹ بول کر 26 سال کی مقتولہ سے رابطہ کیا۔ وہ جنوب مشرقی شہر بوسان کی رہائشی تھیں۔ پولیس کی طرف سے ان کی شناخت کے متعلق مزید تفصیلات عام نہیں کی گئیں۔
استغاثہ نے بتایا کہ ابتدائی رابطہ کرنے کے بعد انھوں نے انٹرنیٹ سے سکول یونیفام خریدا اور اسے پہن کر وہ مقتولہ کے گھر پہنچ گئیں۔
ٹیچر کے گھر داخل ہونے کے بعد انھوں نے یکے بعد دیگرے 100 سے زیادہ مرتبہ چاقو کے وار کرتے ہوئے ان کو بیہیمانہ طریقے سے قتل کر دیا۔ مقتولہ ہلاک ہو چکی تھیں لیکن جنگ نے ان کی لاش پر وار کرنا نہیں روکا۔
اس کے بعد انھوں نے لاش کے ٹکرے کیے اور کچھ اعضا کو ٹیکسی لے کر بوسان شہر کے شمال کے دور دراز علاقے میں ندی کے قریب گھنے درختوں میں پھینک دیا۔
لیکن ٹیکسی ڈرائیور نے خون سے لت پت سوٹ کیس دیکھ لیا اور پولیس کو اس کے بارے میں اطلاع دے دی جس کے بعد جُنگ کو گرفتار کر لیا گیا۔
پولیس نے بتایا کے جُنگ نے کئی مہینے انٹرنیٹ پر قتل کرنے اور لاش کو ٹھکانے لگانے کی تحقیق کی۔
پولیس کا کہنا ہے کہ اس کے باوجود انھوں نے لاپرواہی کا مظاہرہ کیا۔ انھوں نے سی سی ٹی وی کیمروں سے بچنے کی بالکل کوشش نہیں کی جن پر انھیں متعدد بار مقتولہ کے گھر میں داخل اور نکلتے ہوئے دیکھا گیا۔
جمعے کو بوسان ڈسٹرکٹ کورٹ میں انھیں سزا سناتے ہوئے جج نے کہا کہ اس قتل نے ’معشرے میں خوف پھیلا دیا ہے کہ کوئی بھی بلا وجہ قتل ہو سکتا ہے۔‘ اور اس واردات نے لوگوں کے درمیان ’عدم اعتماد کو ہوا دی ہے۔‘
جُنگ نے اپنے جرم کا اقرار کرتے ہوئے یہ استدا کی کہ انھیں سخت سزا نہ دی جائے کیوںکہ واردات کے وقت وہ دیگر نفسیاتی بیماروں کے ساتھ ساتھ ہذیان میں مبتلا تھیں یعنی وہ ایک خیالی دنیا میں تھیں جہاں وہ حقیقت اور وہم میں تفریق نہیں کر پا رہی تھیں۔
لیکن عدالت نے اس دلیل کو مسترد کر دیا کیونکہ اس قتل کی ’محتاط طریقے سے منصوبہ بندی اور عمل درآمد کیا گیا اور ان کے ذہنی اور نفسیاتی بیماری کے دعوے کو ماننا مشکل ہے۔‘
عدالت نے یہ بھی کہا کہ جُنگ نے متعدد دفعہ پولیس کو دیا گیا بیان تبدیل کیا۔ ابتدا میں جُنگ نے کہا تھا کہ مقتولہ کو کسی اور نے قتل کیا اور انھوں نے صرف لاش کو ٹھکانے لگایا۔ بعد میں انھوں نے کہا کہ قتل سخت الفاظ کے تبادلے کے نتیجے میں ہوا۔
آخر میں انھوں نے اعتراف کیا کہ کرائم شوز اور ٹی وی پروگراموں کی وجہ سے ان میں قتل کی واردات کرنے میں دلچسپی پیدا ہوئی۔
جنوبی کوریا میں سزائے موت ابھی بھی رائج ہے لیکن 1997 سے اس پر عمل درآمد نہیں ہوا۔
Comments are closed.