1969 میں بطور انگریزی نیوز کاسٹر پاکستان ٹیلی وژن سے وابستہ ہونے والی شائستہ زید کا کہنا ہے کہ ایک خاتون نیوز کاسٹر کو دیکھ کر نیوز کاسٹنگ کا شوق پیدا ہوا، تاہم اپنے بحث و مباحثے کے انداز کو چھوڑنے کے لئے کافی محنت کرنی پڑی ، کبھی کسی کا اسٹائل کاپی کرنے کی کوشش نہیں کی۔
حال ہی میں معروف میزبان منیزا ہاشمی نے اپنے یوٹیوب چینل پر مشہور نیوز کاسٹر شائستہ زید کا لیا گیا ایک پرانا اور یادگار انٹرویو شیئر کیا ہے۔
مذکورہ یادگار انٹرویو میں شائستہ زید نے انگریزی نیوز کاسٹر کے طور پر پی ٹی وی میں شمولیت، شعبہ درس و تدریس اور ریڈیو پاکستان سے منسلک ہونے اور پھر کینسر کی تشخیص اور بیماری کے ساتھ اپنی جدوجہد کے بارے میں کھل کر بات کی۔
دوران انٹرویو میزبان کے ایک سوال پر شائستہ زید نے کہا کہ ایک خاتون نیوز کاسٹر کو دیکھ کر نیوز کاسٹنگ کا شوق ہوا تو آڈیشن دے دیا، چونکہ دوران تعلیم ڈیبیٹ کیا کرتی تھی اس لئے مجھ میں وہ بنیادی اعتماد تھا اس لئے منتخب بھی ہوگئی۔
انہوں نے بتایا کہ منتخب ہونے کے بعد ایک ہفتے کی تربیت دی گئی، اس کے بعد انہوں نے صرف خبریں پڑھنا شروع کیں، تاہم انہیں بحث و مباحثے کے انداز سے چھٹکارا پانے میں کافی وقت اور محنت کرنا پڑی۔
انہوں نے اپنے نیوز کاسٹنگ کے تجربے کا ذکر کرتے ہوئے یہ بھی بتایا کہ انہوں نے کبھی کسی کا اسٹائل کاپی کرنے کی کوشش نہیں کی بلکہ انگریزی الفاظ کے تلفظ جاننے کے لئے بی بی سی سے مدد حاصل کی لیکن انہیں کاپی نہیں کیا، جیسا کہ بیشتر لوگ کرتے ہیں۔
ان کے مطابق نیوز کاسٹنگ ہو یا کوئی اور شعبہ ہر ایک کا اپنا اسٹائل ایک مخصوص وقت کے بعد جاکے بنتا ہے، ایسا نہیں ہوتا کہ پہلے دن ہی آپ کا اپنا اسٹائل بن جائے بلکہ جب آپ ایک چیز مسلسل اپنے انداز میں کرتے رہتے ہیں تب جاکے آپ کا اسٹائل بنتا ہے۔
انہوں نے ایک اور سوال کے جواب میں بتایا کہ ایک وقت ایسا بھی آیا جب انہیں کینسر کی تشخیص ہوئی اور بیماری کے بارے میں جان کر پریشان ہوگئیں، انہوں نے کہا کہ پہلے بیماری کا جان کر پریشان ضرور ہوئی لیکن پھر اپنی کامیابیوں اور نعمتوں کے بارے میں سوچا تو جانا کہ اللّہ ہمیشہ سے مجھ پر بہت مہربان رہا ہے اور یہ بیماری وقتی ہے، امتحان ہے اس لئےاس کا سامنا ہمت سے کرنا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ علاج کے دوران نیوز کاسٹنگ سے بریک لیا اور صحت یاب ہونے کے بعد لگا کہ شاید اب نیوز کاسٹنگ نہیں کر سکوں گی لیکن جب اُسی ماحول میں ایک بار پھر گئی تو سب خود بخود ہوگیا لگا ہی نہیں کہ میں اتنے لمبے بریک کے بعد واپس آئی ہوں۔
انہوں نے ایک اور سوال کے جواب میں یہ بھی بتایا کہ وہ شعبہ درس و تدریس سے بھی وابستہ ہیں اور انہیں پڑھا کر خوشی ملتی ہے، اس کے علاوہ گھریلو امور بھی خود ہی سرانجام دیتی ہیں۔
خیال رہے کہ شائستہ زید 4 دہائی تک انگریزی خبروں سے وابستہ رہیں اور 21 جولائی 2012ء کو آخری انگریز بلیٹن پڑھنے کے بعد پی ٹی وی سے ریٹائر ہوئیں، حکومت پاکستان نے انہیں 14 اگست 1988ء کو صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی سے نوازا تھا۔
Comments are closed.