کانسا کریس: ترکی کی دین دار مسلمان خاتون جنھیں قتل کر دیا گیا کیونکہ وہ ’انتہائی لبرل‘ تھیں

Turkey
،تصویر کا کیپشن

پانچ بچوں کی ماں، کانسا کریس نے 1990 کی دہائی میں اسلام کے بارے میں اپنے آزاد خیال خیالات سے شہرت حاصل کی

  • مصنف, چاہل کساپولو
  • عہدہ, بی بی سی ورلڈ سروس

جب ملک بھر میں تہہ خانوں سے سینکڑوں لاشیں اور انسانی باقیات کھود کر نکالی گئیں تو ترکی میں 1990 کی دہائی میں تشدد کی انتہائی چونکا دینے والی خبریں میڈیا کی زینت بننا شروع ہوئیں۔

لاشیں عام طور پر برہنہ حالت میں ہوتی تھیں اور مرنے والوں کے ہاتھ اور پاؤں آپس میں بندھے ہوئے تھے۔ ان میں سے کچھ افراد کو تو زندہ دفن کیا گیا جبکہ کچھ کی ہڈیاں توڑ کر انھیں بے یارومددگار مرنے کے لیے پھینک دیا گیا۔

یہ تمام افراد ترکی کے ایک کرد انتہا پسند اسلامی گروپ کی کارروائیوں کا نشانہ بنے۔ یہ گروپ ترکی کے حزب اللہ کے نام سے مشہور تھا تاہم اس گروپ کا لبنانی حزب اللہ گروپ سے کوئی تعلق نہیں تھا۔

اس مصیبت والی دہائی میں اغوا، تشدد اور قتل کے ہزاروں واقعات کے ذمہ دار اسلامی عسکریت پسند گروپ کے بارے میں شبہ ظاہر کیا جاتا ہے کہ اسے ترکی کی ریاست کی طرف سے بائیں بازو کے خیالات کی حامل تنظیم کردستان ورکرز پارٹی ’پی کے کے‘ کو کچلنے کے لیے کی جانے والی ان کارروائیوں میں حمایت حاصل تھی۔

ترکی کا حزب اللہ گروہ نہ صرف ’پی کے کے‘ کو نشانہ بنا رہا تھا بلکہ اسلام کے بارے میں زیادہ لبرل خیالات رکھنے والے مسلم مفکرین، سیاست دانوں اور مصنفین بھی اس کے نشانے پر تھے۔

1990 کی دہائی میں ترکی کے حزب اللہ گروپ کے ہاتھوں بے دردی سے مارے جانے والوں میں کونسا کوریس بھی شامل تھیں، جو اب ترکی کے صدر رجب طیب اردوغان کی قدامت پسند حکومت کے خلاف مزاحمت کی ایک نئی علامت بن چکی ہیں۔

واضح رہے کہ حالیہ دنوں میں جب صدر اردوغان نے ایک کرد اسلام پسند سیاسی جماعت کی کھل کر حمایت کی جس پر ترکی کی حزب اللہ کا سیاسی ونگ ہونے کا الزام ہے تو پھر ایسے میں کونسا کوریس خبروں کی زینت بن گئیں۔

سنہ 2012 میں قائم ہونے والی ’فری کاز پارٹی‘ صدر اردوغان اور ان کی جماعت کی حمایت کی وجہ سے ترکی کے حالیہ انتخابات میں پارلیمنٹ میں چار نشستیں حاصل کرنے میں بھی کامیاب ہوئی ہے۔

یہ جماعت 14 مئی کے عام انتخابات میں ترکی کی حکمران جماعت جسٹس اینڈ ڈیولپمنٹ پارٹی (اے کے پی) کی اہم اتحادی بن کر سامنے آئی ہے۔

ترکی میں اپوزیشن، جو فری کاز پارٹی پر ترکی کے عسکری گروپ حزب اللہ سے روابط کا الزام عائد کرتی ہے، اب صدر اردوغان پر اس پارٹی کو پارلیمان کا حصہ بنانے میں مدد فراہم کرنے اور اسے اتحادی بنانے پر تنقید کر رہی ہے۔ اپوزیشن اس فری کاز پارٹی کو کانسا کریس کا قاتل کہہ رہی ہے۔

فری کاز پارٹی کے عہدیدار ان الزامات کی سختی سے تردید کرتے ہیں کہ ان کی ’جماعت کا کسی دہشتگرد تنظیم سے کوئی تعلق ہے‘ لیکن پارٹی کے کچھ ارکان پر حزب اللہ کی سرگرمیوں کے سلسلے میں مقدمہ چلایا گیا تھا، انھیں جیل بھیجا گیا تھا اور بعد میں رہا کر دیا گیا۔

آئیے جانتے ہیں کہ کونسا کریس کون ہیں اور ان کا ذکر اس موقعے پر کیوں کیا جا رہا ہے؟

Huda Par

،تصویر کا کیپشن

’فری کاز پارٹی‘ صدر اردوغان اور ان کی جماعت کی حمایت کی وجہ سے ترکی کے حالیہ انتخابات میں پارلیمنٹ میں چار نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی

’بہادر اور مضبوط‘

یہ سنہ 1998 کا موسم گرما تھا جب کانسا کریس لاپتہ ہو گئیں تھیں۔ ترکی کے ’ملت‘ نامی اخبار کے ایک مضمون کے مطابق کانسا کریس اور ان کے شوہر 16 جولائی کی رات ٹیکسٹائل مل سے بھاگ نکلے اور منی بس میں اپنے گھر کی طرف گئے۔

اخبار کے مطابق ’جب وہ صبح ایک بجے کے قریب اپنے گھر کا دروازہ کھولنے والے تھے تو وہاں چھپے ہوئے تین مسلح افراد باہر آئے اور کونسا کریس کے شوہر اورہان کریس کو دبوچ کر انھیں زمین پر لٹا دیا اور ان سے منی بس کی چابی لے لی۔‘

اس کے بعد انھوں نے کونسا کریس کو زبردستی منی بس میں دھکیل دیا اور جلدی سے جائے وقوعہ سے فرار ہو گئے۔

اس کے بعد ایک سال سے زائد عرصے تک کسی نے کانسا کریس سے متعلق کچھ نہیں سنا۔ ان کے اہلخانہ اور دوستوں نے انھیں ہر جگہ ڈھونڈا مگر کوئی کامیابی نہیں ملی۔ دوسری طرف سیاستدانوں نے حزب اللہ پر شبہ کرنا شروع کر دیا کیونکہ زیادہ سے زیادہ لبرل مصنفین اور سیاست دانوں کو اس گروپ نے اغوا کر لیا تھا اور پھر بعد میں ان کی لاشیں ملی تھیں۔

کانسا کریس کے آبائی شہر مرسن سے ان کے اغوا کے 555 دن بعد ان کی ہاتھوں اور پاؤں سے بندھی ہوئی لاش ایک تہہ خانے سے ملی۔ مرنے سے پہلے انھیں 35 دن تک تشدد کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ تشدد کرنے والوں نے اس عمل کی ویڈیو بھی بنائی۔ یہ ویڈیو ریکارڈنگ پولیس کو ملی اور پھر میڈیا کے ساتھ بھی اسے شیئر کیا گیا۔

بعد میں ترکی کے حزب اللہ گروپ نے ایک بیان میں ان کے اغوا اور موت کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے انھیں ’اسلام دشمن‘ قرار دیا۔

پانچ بچوں کی ماں، کانسا کریس نے 1990 کی دہائی میں اسلام کے بارے میں اپنے آزاد خیال خیالات سے شہرت حاصل کی۔ وہ ایک فیمنسٹ تھیں جو حجاب میں رہتی تھیں مگر انھوں نے اسلامی تصورات کی لبرل انداز میں تشریح کی۔

وہ حزب اللہ اور اسلام پسند پدرانہ نظام پر تنقید کرتی تھیں، مردوں اور عورتوں کے درمیان مساوات کی حامی تھیں اور قرآن کے پڑھنے اور سمجھنے کے لیے عقلیت پسندانہ نقطہ نظر کی تبلیغ کرتی تھیں۔

اسلامی حقوق نسواں کی ایک ممتاز مصنفہ بیرین سونمیز کہتی ہیں کہ ’وہ ایک بہادر اور مضبوط خاتون تھیں، جو اپنے خیالات کا اظہار کرنے میں ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتی تھیں لیکن انھوں نے بہت واضح اور بے دھڑک انداز میں ان خیالات کا اظہار بھی کیا اور ان امور پر سب کی توجہ مبذول کرائی۔‘

کانسا کریس کی کوئی رسمی مذہبی تعلیم نہیں تھی مگر وہ ایک متجسس روح تھیں۔ انھوں نے اسلام اور قرآن کو سمجھنے کے لیے مختلف مذہبی گروہوں میں شمولیت اختیار کی۔

بیرین سونمیز کے مطابق وہ ابتدائی طور پر ترکی کے حزب اللہ گروپ کی طرف بھی مائل ہوئیں مگر جلد ہی ان سے دوری اختیار کر لی کیونکہ انھوں نے اس گروپ کو ’بہت زیادہ شدت پسند‘ پایا۔

Turkey

،تصویر کا کیپشن

بیرین سونمیز کے مطابق کانسا کریس ابتدائی طور پر ترکی کے حزب اللہ گروپ کی طرف بھی مائل ہوئیں مگر جلد ہی ان سے دوری اختیار کر لی

خواتین کے حقوق کی جنگ

’سب سے پہلے میں ایک عورت کے طور پر اپنے حقوق چاہتی ہوں۔ آج میں قرآن کے تراجم میں ہونے والی غلطیوں کی شکایت کرتی ہوں اور میں انھیں مذہبی تحریف کے طور پر دیکھتی ہوں۔ قرآن کا اب تک ترجمہ اور تشریح صرف مردوں نے کیا، جو پدرانہ نظام کی حمایت کرتے ہیں۔‘

یہ الفاظ سنہ 2000 میں شائع ہونے والے ایک پیزارتیسی نامی میگزین میں کانسا کریس سے منسوب کیے گئے ہیں۔

کانسا کریس نے روایتی اسلام پسندوں کی اس تشریح کو بھی چیلنج کیا، جس میں انھوں نے حیض والی خواتین کو صوم و صلوات، قرآن پڑھنے، جمعہ یا نماز جنازہ میں شرکت سے منع کیا گیا۔

ان کا یہ بھی ماننا تھا کہ اسلام میں عورتوں کو سر یا جسم ڈھانپنے کی ضرورت نہیں۔

کانسا کریس کی خاندانی دوست، آئشے سیویلائی ان کے فکری ارتقا پر بات کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ ’پہلے انھوں نے اسلام کی ایک زیادہ بنیاد پرست شکل میں دلچسپی لینا شروع کی اور وہ پورے پردے میں ہوا کرتی تھیں، پھر انھوں نے پتلون پہننی اور سر پر سکارف لینا شروع کر دیا۔

ان کے مطابق کانسا کریس نے میرے مذہب پسند شوہر سے پوچھا کہ کیا خواتین کو سکارف پہننے پر مجبور کیا جانا چاہیے یا نہیں۔ اس وقت انھوں نے اپنا سکارف اتارنے کی ہمت نہیں کی تھی۔‘

آئشے سیویلائی کے مطابق وہ خواتین کے حقوق کے لیے سرگرم کارکن بھی تھیں۔

’وہ مردوں کو سکھا رہی تھیں کہ ہمارے ساتھ احترام کے ساتھ کیسے برتاؤ کیا جائے، ہم پر کیسے ظلم نہ کیا جائے، گھریلو کاموں میں ہماری مدد کیسے کی جائے۔ وہ ہماری آنکھیں اور دماغ کھول رہی تھیں۔‘

Turkey

دھمکی آمیز پیغامات

کانسا کریس کا اثر و رسوخ مرسن میں ان کی مقامی کمیونٹی سے لے کر ملک بھر میں پھیل رہا تھا کیونکہ انھوں نے ٹیلی ویژن پروگراموں میں بھی شرکت شروع کر دی تھی۔

یہ وہ وقت تھا جب انھیں ترکی کی حزب اللہ کی طرف سے جان سے مارنے کی دھمکیاں ملنا شروع ہوئیں اور انھیں ’اسلام دشمن‘ قرار دیا گیا۔

ان کے قریبی دوستوں اور ساتھیوں نے انھیں محتاط رہنے کا مشورہ دیا لیکن کانسا کریس نے ان دھمکیوں کو خاطر میں نہیں لایا اور اپنا نقطہ نظر کھل کر بیان کرنا جاری رکھا۔

سنہ 2000 میں ملت اخبار سے بات کرتے ہوئے ان کے سسر عبداللہ کوریس نے دعویٰ کیا کہ کانسا کریس نے حزب اللہ کے خلاف سخت لہجہ اختیار کیا کیونکہ وہ اسلام اور خواتین کے بارے میں ایک کانفرنس میں شرکت کے لیے ایران جانے کے بعد اسلام کی اس گروپ کی طرف سے کی جانے والی تشریح پر تنقید کرنے لگی تھیں۔

عبداللہ کریس کے مطابق ’میں نے انھیں خبردار کیا تھا کہ وہ ایران نہ جائیں لیکن انھوں نے میری بات نہیں سنی۔ میں نے ان سے کہا تھا کہ وہ حزب اللہ پر اپنی تحقیق روک دیں کیونکہ مجھے خدشہ تھا کہ ان کے ساتھ کچھ ہو جائے گا۔ لیکن وہ کہتی تھیں ’اگر میں مروں گی تو اسلام کی راہ میں مروں گی۔‘

کریس کی لاش جنوری 2000 میں ایک تہہ خانے سے ملی تھی۔

بیرین سونمیز کہتی ہیں کہ ’ان کے مارے جانے کی ایک اہم وجہ یہ تھی کہ وہ حزب اللہ کمیونٹی کو اندر سے جانتی تھیں۔ دوسرا یہ کہ وہ بڑی تعداد میں لوگوں کو اپنے نظریات کے قریب لے آئی تھیں۔‘

فری کاز پارٹی، جس پر حزب اللہ کا سیاسی ونگ ہونے کا الزام ہے، اس کے پاس اب پارلیمنٹ میں چار نشستیں ہیں، اور وہ سخت گیر اسلامی اقدار کے ساتھ ایک نئے آئین کو فروغ دے رہی ہے، جس میں خواتین کو کچھ حقوق دیے گئے ہیں۔

اپوزیشن پارلیمانی بحث میں پہلے موقع پر کانسا کریس کا نام سامنے لائے گی۔

BBCUrdu.com بشکریہ