- مصنف, جورن میڈسلین
- عہدہ, بی بی سی، اوسلو
- 2 گھنٹے قبل
پاکستان سمیت دنیا کے کئی ممالک میں جہاں مہنگائی نے لوگوں کو پریشان کر رکھا ہے وہیں ایک ایسا ملک بھی ہے جہاں لوگ اپنی آمدن کو لے کر احساس ندامت میں مبتلا ہیں۔ناروے کی اوسلو یونیورسٹی کی ایک پروفیسر کا کہنا ہے کہ ملک کے زیادہ تر شہری اپنی آسائشوں سے بھری زندگی پر افسوس کرتے ہیں کیونکہ انھیں لگتا ہے کہ وہ اس طرح محنت نہیں کر رہے جیسے باقی دنیا میں اور لوگ کر رہے ہیں، خاص طور پر وہ لوگ جن کا ملک معاشی بحران کا شکار ہے۔پروفیسر الزبتھ اوکسفیلٹ بتاتی ہیں کہ ’اپنی مراعات یافتہ زندگی کو لے کر لوگوں میں بہت احساس ندامت پیدا ہو رہا ہے۔ انھیں یہ سوچ کر برا لگتا ہے کہ وہ ایسی دنیا میں آرام سے رہ رہے ہیں جس میں بہت سے لوگ پریشان ہیں۔‘اپنے تیل کے ذخائر کی وجہ سے ناروے کا شمار دنیا کے امیر ممالک میں ہوتا ہے۔ روس کے بعد یورپ میں ناروے وہ دوسرا ملک ہے جہاں تیل کے بڑے ذخائر ہیں۔
آبادی کے تناسب سے ناروے کی معیشت برطانیہ سے بہتر اور اس کی مجموعی قومی پیداوار امریکہ سے بھی بہتر ہے۔ ناروے کا بجٹ خسارے میں نہیں بلکہ سرپلس میں جاتا ہے یعنی اس کی آمدن اخراجات سے زیادہ ہے۔یہ برطانیہ سمیت دیگر ممالک کے بالکل برعکس ہے جنھیں اپنے بجٹ خسارے کو پورا کرنے کے لیے قرض لینا پڑتا ہے۔،تصویر کا ذریعہGetty Imagesپروفیسر الزبتھ اوکسفیلٹ اوسلو یونیورسٹی میں سکینڈینیوین لٹریچر پڑھاتی ہیں۔ مقامی کتابوں، فلموں اور ٹی وی ڈراموں میں موجودہ دور کے حوالے سے کیا موضوع سامنے آتے ہیں، وہ اس کی ماہر ہیں۔اپنی تحقیق کے بعد انھوں نے ایک نئی اصطلاح ایجاد کی ہے جسے وہ ’سکین گِلٹ‘ (Scan Guilt) کہتی ہیں، یعنی سکینڈینیوین ممالک میں رہنے والوں میں موجود احساسِ ندامت۔پروفیسر الیزبتھ اوکسفیلٹ کہتی ہیں کہ ناروے کے ادب میں ایسا مواد آنا شروع ہو گیا ہے جسے پڑھ کر یا دیکھ کر پتا چلتا ہے کہ لوگ اپنی آسائشوں کی وجہ سے شرمندگی محسوس کرتے ہیں۔’حالیہ ادبی مواد، فلمیں اور ٹی وی سیریز دیکھ کر میں نے غور کیا کہ وہ کردار جن کی زندگی خوشحال ہوتی ہے، انھیں ’دوسروں‘ کی تکالیف دیکھ کر بے چینی ہوتی ہے۔ ہر کسی کو یہ احساس ندامت نہیں لیکن اکثر کو ہے۔‘انھوں نے بتایا کہ ’حالیہ ڈراموں کی کہانی ان لوگوں کے اردگرد گھومتی ہے جو تارکین وطن سے اپنے کام کرواتے ہیں اور یہ لوگ ان کے گھروں کے تہہ خانوں میں رہتے ہیں۔ کہانیوں میں خواتین کو احساس ہوتا ہے کہ وہ اپنے کیریئر میں ترقی اس لیے کر رہی ہیں کیونکہ انھوں نے بچّے سنبھالنے کے لیے ایک آیا رکھی ہوئی ہے۔ آیا کا تعلق کسی غریب ملک سے ہوتا ہے اور ان کو بہت کم تنخواہ مل رہی ہوتی ہے۔‘یاد رہے کہ اسی سال مارچ میں نارویجن حکومت نے ایسے لوگوں کو کام کرنے کے اجازت نامے دینا بند کر دیے جو ملک میں گھریلو ملازمہ کا کام کرنے آتے تھے۔ ناروے میں مرد بھی گھریلو ملازم کا کام کر سکتے ہیں۔ ناروے کے اخبار نے اس عمل کو ’مغرب میں غلامی کا خاتمہ‘ قرار دیا تھا۔
ناروے کے شہریوں کی خوشحال زندگی پر احساس ندامت کو دیکھ کر لوگوں اور تنظیموں نے یہ سوال اٹھایا کہ آیا ناروے کے اثاثے اس کے اخلاقی اقدار پر مبنی ہیں یا نہیں؟جنوری 2024 میں اخبار ’دی فنانشل ٹائمز‘ میں ایک خصوصی رپورٹ شائع ہوئی جس کا موضوع تھا کہ ناروے میں سالمن مچھلی کی فارمنگ سے افریقی ملک موریطانیہ کو نقصان پہنچ رہا ہے۔فارمنگ کے لیے مچھلی کا تیل درکار ہوتا ہے جو موریطانیہ کے ساحل سے پکڑی جانے والی سالمن سے بنتا ہے۔ یورپ میں ناروے کی سالمن مچھلی کی بہت مانگ ہے۔رپورٹ میں لکھا تھا کہ ناروے کی سالمن فارمنگ کی وجہ سے ’مغربی افریقہ میں غذائی تحفظ کو نقصان پہنچ رہا ہے۔‘ جبکہ ’فیڈبیک گلوبل‘ نامی ماحولیاتی تحفظ کی تنظیم نے اس بات پر زور دیا کہ ’ناروے کی سالمن انڈسٹری کی وجہ سے مغربی افریقہ میں بے روزگاری میں اضافہ اور غذائیت میں کمی ہو رہی ہے۔‘نارویجن حکومت نے اپنے ردعمل میں کہا کہ حکومت ’غذا کی پیداوار کو پائیدار بنانا چاہتی ہے‘ اور کوشش کر رہی ہے کہ زیادہ سے زیادہ ’مقامی خام مال کا استعمال کیا جائے۔‘ناروے کا کہنا ہے کہ وہ ’گرین اکانومی‘ کی طرف جانا چاہتا ہے۔ اس کے تحت مچھلیوں کی فارمنگ کو ماحول دوست بنانا مقصود ہے جبکہ پیٹرولیم کے شعبے میں پیداوار کو بھی اسی لیے روکا گیا تاہم ناروے کی منافع بخش پیٹرولیم صنعت کے ناقدین کو خاموش کرانے کے لیے یہ ناکافی ہو گا۔ ماحولیاتی کارکن تیل اور گیس کے لیے ڈرلنگ کی مخالفت کرتے ہیں۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ ناروے اپنی تیل کی آمدن پر حد سے زیادہ انحصار کرتا ہے۔تیل اور گیس کی آمدن کے باعث ناروے میں کام کرنے کے اوقات دیگر ترقی یافتہ ممالک کے مقابلے کم ہیں۔ یہاں مزدور کے پاس زیادہ حقوق ہیں اور خوشحالی کا نظام شہریوں کی بے پناہ حمایت کرتا ہے۔یہ حیرانی کن بات نہیں کہ ناروے کا شمار دنیا کے خوشحال ممالک میں ہوتا ہے اور ایسے ممالک کی فہرست میں اس کا ساتواں نمبر ہے۔سرمایہ کار بور ٹاسٹرڈ کہتے ہیں کہ ناروے کے تیل کی آمدن پر انحصار سے حکومتی بجٹ کا حجم ضرورت سے زیادہ بڑھ گیا ہے، یہاں بہت زیادہ سرکاری محکمے ہیں اور مزدوروں کی قلت ہے جس سے نجی شعبے کی ترقی رُکی ہوئی ہے۔1960 کی دہائی میں تیل اور گیس کی دریافت نے ناروے کی قسمت پلٹ دی تھی۔ ناروے کی تیل کی آمدن کو اس کے مرکزی بینک نے عالمی سطح پر سرمایہ کاری کے لیے استعمال کیا۔ ملک کے سرکاری پینشن فنڈ جسے ’دی آئل فنڈ‘ بھی کہا جاتا ہے، کے پاس 1.7 کھرب ڈالر مالیت کے اثاثے ہیں۔یوکرین جنگ کے بعد ناروے کی تیل کی برآمد بڑھی ہے۔ ناقدین کا دعویٰ ہے کہ ناروے جنگ سے فائدہ اٹھا رہا ہے تاہم ملک کے وزیر اعظم ان الزامات کی تردید کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس نے بحران کے وقت میں یورپ کی توانائی کی ضرورت پوری کی۔ ان کے بقول 55 لاکھ آبادی والا یہ ملک یوکرین کی سب سے زیادہ مالی امداد کرنے والے ملکوں میں سے ایک ہے۔ناروے میں بینکوں کے گروپ کے چیف اکنامسٹ یان لڈوگ انڈریسن کہتے ہیں کہ ناروے کے شہری ’ہماری توقعات کے مقابلے میں کئی زیادہ امیر ہو چکے ہیں۔‘تاہم وہ کہتے ہیں کہ سود اور مہنگائی کی زیادہ شرح اور ناروے کی کرنسی کی کم قدر (جس کی وجہ سے درآمد شدہ اشیا اور سروسز مہنگی پڑتی ہیں) کی وجہ سے عام شہری خود کو امیر نہیں سمجھتے۔ناروے عالمی سطح پر انسانی امداد دینے والے بڑے ملکوں میں سے ایک ہے۔ پروفیسر اوکسفیلٹ کے مطابق ’میرا خیال ہے کہ ناروے کے شہری اچھے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں۔‘اس کے باوجود مبصرین کا خیال ہے کہ ناروے میں تیل کی اضافی آمدن یوکرین جنگ کی وجہ سے ممکن ہوئی۔
BBCUrdu.com بشکریہ
body a {display:none;}
Comments are closed.