’کاش اس سال رمضان نہ آتا۔۔۔‘ غزہ میں چھ بچیوں کی ماں جو ’ایک ٹماٹر بھی نہیں خرید سکتیں‘

  • مصنف, ایثار شلبی
  • عہدہ, بی بی سی نیوز عربی
  • ایک گھنٹہ قبل

مصر کے ساتھ جنوبی سرحد سے چند کلومیٹر کے فاصلے پر سہام حسین اپنے خیمے کے سامنے پریشان بیٹھی ہیں اور کسی بھی سوال کا جواب دینے سے قاصر ہیں۔ غزہ کی رہائشی چھ بچیوں کی ماں سے سوال پوچھا گیا کہ ’آپ اس سال رمضان کی تیاری کیسے کر رہی ہیں؟‘تقریباً ایک منٹ کی خاموشی کے بعد انھوں نے مختصر جواب دیا کہ ’کاش اس سال غزہ میں رمضان نہ آتا۔‘سہام نے کچھ دیر سانس روکی، پھر گفتگو جاری رکھتے ہوئے کہا: ’رمضان کیسے آ سکتا ہے جب ہم اس حالت میں ہیں اور ہم کھا، پی بھی نہیں سکتے؟‘

سہام کی دو بچیاں ذہنی عارضے کا شکار ہیں۔ انھوں نے اپنی ان دو بچیوں کو اداس نظروں سے دیکھا اور پھر اداس لہجے میں کہا: ’جو کچھ ہو رہا ہے اس کے لیے ان بچیوں کو قصوروار نہیں قرار دیا جا سکتا ہے۔ انھیں جنگ یا دیگر حالات کے بارے میں کچھ پتا نہیں، انھیں بس کھانے پینے کی چیزوں سے غرض ہے۔‘سہام کے پاس اتنی رقم نہیں ہے کہ وہ اپنی بیٹیوں کی بنیادی ضروریات پوری کر سکیں۔ ’رمضان سپلائی‘ تو اہل غزہ والوں کا مطالبہ ضرور ہو سکتا ہے مگر سہام کا کہنا ہے کہ ان کے پاس تو اپنی بچیوں کے لیے ایک ٹماٹر تک خـریدنے کے وسائل نہیں ہیں۔

’ہمارے پاس رمضان کے لوازمات تک پورے نہیں‘

سہام کی طرح رفح کے دیگر بے گھر افراد بھی رمضان سے قبل عجیب کشمکشن سے دوچار ہیں۔ ابو شدی العشر دس افراد کے خاندان کے واحد کفیل ہیں۔ وہ رفح میں ایک سادہ سے خیمے میں اپنے گھر والوں کے ساتھ رہتے ہیں اور ان کا گزر بسر ڈبے والے کھانوں پر ہے جو عطیہ کیے جاتے ہیں۔ جنگ شروع ہونے کے چند دن بعد ابو شدی اپنے اہل خانہ کے ساتھ غزہ کے مختلف مقامات کی طرف نقل مکانی کر گئے۔ رفح اب تک ان کی تیسری منزل ہے۔ان کا کہنا ہے کہ اس سال رمضان المبارک کی روایتی تیاریاں نہیں کر پا رہے ہیں۔ ان کے مطابق ’ہمارے پاس رمضان کے لیے ہر چیز کی کمی ہے اور ہم صرف صبر کے ساتھ مقدس مہینے کا استقبال کر سکتے ہیں۔‘اس سال غزہ کے لوگوں کی اکثریت کے لیے رمضان استقبال، روایتی خوشیوں اور اس ماہ کی شایان شان تیاریوں کے بغیر ہی گزرے گا۔اس بار غزہ میں افطاریوں پر دستر خوان غزہ کے معروف کھانوں اور مٹھائیوں سے نہیں سجائے جا سکیں گے اور بہت سے خاندانوں کے لیے یہ دسترخوان ادھورے بھی رہیں گے۔ ان خاندانوں کے بہت سے افراد غزہ میں جاری جنگ میں مارے گئے ہیں اور ان میں سے کچھ نقل مکانی کے دوران اپنے پیاروں سے بچھڑ گئے۔53 برس کے الاشقر کو یاد ہے کہ حالیہ برسوں میں رمضان کی آمد پر کس طرح کا ماحول اور تیاریاں کی جاتی تھیں۔ان کے مطابق ’ہم سجاوٹ کرتے اور جشن مناتے تھے، لیکن اس سال ایسا ممکن نہیں رہا، اس سال رمضان کے کوئی آثار نظر نہیں آرہے ہیں، اور تاجروں کے پاس ڈبوں میں بند سامان کے علاوہ کچھ ہے ہے بھی نہیں، اگر سب کچھ دستیاب بھی ہوتا تو ہمارے پاس اتنے پیسے نہیں کہ کچھ خرید سکتے۔‘

’رمضان سے پہلے جنگ بندی کی امید ہے‘

الاشقر اور رفح کے دیگر بے گھر افراد کو یہ امید ہے کہ ماہِ صیام کا چاند اس وقت تک طلوع نہیں ہو گا جب تک کہ کسی عارضی جنگ بندی کا اعلان نہ ہو جائے۔ ممکنہ جنگی بندی کی خبریں گذشتہ چند دنوں سے گردش کر رہی ہیں۔خبر رساں ادارے روئٹرز نے مصری ذرائع کے حوالے سے بتایا تھا کہ قطر جنگ بندی کے معاہدے تک پہنچنے کے لیے اسرائیل اور حماس کے درمیان نئے مذاکرات کی میزبانی کرنا چاہتا ہے۔ذرائع نے عندیہ دیا ہے کہ متحارب فریقین کے درمیان حتمی معاہدے کو مکمل کرنے کے لیے آئندہ چند روز میں قطر میں ایک میٹنگ منعقد کرنے پر اتفاق کیا گیا ہے۔ اس سے پہلے مصر میں جنگ بندی کو حتمی شکل دینے سے متعلق دوبارہ ملاقات بھی طے کی گئی۔

’ہم روزے کے لیے سحری کیسے کریں؟‘

رمضان کے مہینے میں رفح میں بے گھر افراد کے لیے سب سے بڑی خوشخبری یہ ہوسکتی ہے کہ جنگ بندی کا اعلان ہوجائے اور انھیں اپنے گھر واپسی کی اجازت مل جائے۔ غزہ میں اپنے گھر سے تقریباً سات بار بے گھر ہونے والی سات بہنوں کے ساٹھ برس کے والد ایاد بکر کا کہنا ہے کہ ان دنوں ان کی واحد امید یہ ہے کہ وہ صبح اٹھ کر پہلی خبر یہ سنیں کہ ’جنگ بندی کا اطلاق ہو چکا ہے۔‘’رمضان کے استقبال کے لیے ایمان اور دعا کے علاوہ کوئی اجزا موجود نہیں ہیں۔ اب ہم کسی بھی طرح سے مقدس مہینے کی تیاری نہیں کر سکتے۔‘ایاد کے مطابق اس وقت غزہ میں صرف ڈبوں میں بند کھانے ہی دستیاب ہیں۔ انھوں نے یہ سوال کیا کہ ’ہم کس طرح روزہ رکھ سکتے ہیں یا سحری کر سکتے ہیں؟ کیا رمضان میں ڈبہ بند چیزیں ہماری طاقت بن سکتی ہیں؟ مجھے نہیں معلوم کہ ہم رمضان میں کیسے اس صورتحال کے عادی ہو سکتے ہیں؟ غزہ کے شیخ رضوان محلے کے رہائشی راشد مطر نے اس رائے کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ غزہ میں جاری جنگ میں غیریقینی صورتحال کی وجہ سے رمضان کی تیاری نہیں کر سکتے اور نہ ہی آنے والے وقت میں کوئی منصوبہ تیار کر سکتے ہیں۔ایک زرعی انجینیئر اور تین بچوں کے والد راشد مطر کا کہنا ہے کہ ’میرا کوئی پلان نہیں ہے، میں اس صورت حال میں کوئی پلان نہیں بنا سکتا۔ یہاں تک کہ اگر میں نے غزہ سے باہر مصراور وہاں سے دوسرے ممالک کا سفر کرنے کے بارے میں سوچا تو یہ بہت مہنگا پڑے گا، کیونکہ اس کے لیے میرے خاندان کے ہر فرد کے لیے تقریباً پانچ ہزار ڈالر درکار ہوں گے، اور ہم پانچ لوگ ہیں۔‘وہ بتاتے ہیں کہ اس سال اسے سب سے زیادہ دُکھ کی بات یہ ہے کہ ناشتے کی میز ان کے خاندان کے کچھ افراد کی عدم موجودگی کی وجہ سے نامکمل رہے گی، جو جنگ کے حالات کی وجہ سے الگ ہو گئے تھے۔’میرے والد اور والدہ ابھی بھی شمال میں ہیں، اور یہ پہلا موقع ہے کہ میں رمضان کے دوران ایک ہی میز پر ان سے نہیں مل سکوں گا۔‘جہاں تک یوسف شعبان کا تعلق ہے تو وہ بھی تقریباً ایک ہفتے کی جنگ کے بعد شیخ رضوان کے علاقے سے رفح کے علاقے تال السلطان کی طرف منتقل ہو گئے تھے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس سال ان کے لیے رمضان کا ماحول ’بے حد مشکل‘ ہے کیونکہ اس پٹی میں نایاب ہو جانے والی اشیائے خوردونوش کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں۔‘ان کے مطابق ’ہم اسرائیلیوں اور یہاں کے تاجروں کے ساتھ جنگ ​​لڑ رہے ہیں۔ جب میں بازار جاتا ہوں تو بغیر کچھ خریدے صرف چیزوں کو دیکھتا ہوں۔ اس سال رمضان کی کوئی تیاریاں نہیں ہیں، اس لیے سب اللہ پر چھوڑ دیا۔‘
BBCUrdu.com بشکریہ

body a {display:none;}