gina valentina melissa moore hookup hotshot dog screening hookup to laptop farm girl hookup casusl hookup review

بدھ14؍شوال المکرم 1442ھ26؍مئی 2021ء

’کابل سے انخلا کے وقت سیاست اول ترجیح تھی، یہ ناقابل معافی ہے‘، سینیئر برطانوی عہدیدار

کابل سے برطانوی انخلا ’افراتفری‘ کا شکار: ’ہزاروں افغان شہریوں اور اراکین پارلیمنٹ کے مدد کے پیغامات پڑھے ہی نہیں گئے‘

  • جیمز لینڈیل
  • نامہ نگار برائے سفارتی امور

انخلا

،تصویر کا ذریعہGetty Images

‘عام طور پر ایک دن میں کسی بھی وقت تقریباً پانچ ہزار مدد کی درخواست کی ایسی ای میلز ان باکس میں موجود ہوتی تھیں اور ان میں سے ہزاروں تو کبھی پڑھی ہی نہیں گئیں جن میں افغان رکن پارلیمنٹ کے پیغامات بھی شامل تھے۔’

کابل سے ہنگامی انخلا کے دوران کس افغان شہری کو نکالا جائے اور کس کو نہیں، یہ فیصلہ کسی سسٹم کے تحت نہیں بلکہ اپنی من مانی سے کیا گیا اور ہزاروں افغان شہریوں کی جانب سے مدد کی درخواست کی ای میلز کو پڑھا ہی نہیں گیا۔

دفتر خارجہ کے فارن، کامن ویلتھ، ڈویلیپمنٹ آفس کے سابق سینیئر افسر رافائیل مارشل نے دفتر خارجہ کی کمیٹی کو فراہم کیے جانے والے تحریری شواہد میں بتایا ہے کہ افغانستان میں طالبان کی حکومت آنے کے بعد برطانوی دفتر خارجہ کی انخلا کی حکمت عملی غیر فعال اور افراتفری کا شکار تھی۔

رافائیل مارشل کے مطابق اس دوران اس وقت کے برطانوی سیکرٹری خارجہ ڈومینیک روب کی فیصلہ سازی سست روی کا شکار رہی۔

ان الزامات کے ردعمل میں حکومتی ترجمان کا کہنا ہے کہ حکومتی عملے نے اپنی نوعیت کے سب سے بڑے مشن کے دوران انتھک محنت کی۔

دوسری جانب سابق سیکرٹری خارجہ ڈومینیک روب کے قریبی ذرائع نے بی بی سی کو بتایا کہ افغانستان سے ہنگامی انخلا کے دوران اصل مسئلہ تیز رفتار فیصلہ سازی نہیں بلکہ لوگوں کی شناخت کی تصدیق اور ایئرپورٹ تک محفوظ راستے کی فراہمی تھا۔

کابل

،تصویر کا ذریعہGetty Images

‘پیچھے رہ جانے والوں کو طالبان قتل کر رہے ہیں’

واضح رہے کہ کابل پر طالبان کے کنٹرول کے بعد افغانستان سے ہنگامی انخلا کے دوران برطانوی حکومت نے تقریبا پندرہ ہزار افراد کو فضائی راستے سے ملک سے باہر نکالنے میں مدد دی۔ ان میں پانچ ہزار برطانوی شہری، آٹھ ہزار افغان شہری اور دو ہزار بچے شامل تھے۔

لیکن رافائیل مارشل کی جانب سے دی جانے والی تحریری شہادت کے مطابق برطانوی حکومت کے ساتھ کام کرنے والےافغان شہری جنہوں نے انخلا کی درخواست کی ان کی تعداد تقریبا ڈیڑھ لاکھ تھی۔ رافائیل کے مطابق ان افغان شہریوں کی جان کو برطانوی حکومت کے ساتھ کام کرنے کی وجہ سے خطرہ لاحق تھا لیکن ان میں سے پانچ فیصد سے بھی کم کی درخواست قبول ہو سکی۔

رافائیل نے دعوی کیا ہے کہ ‘اب یہ واضح ہو چکا ہے کہ ان میں سے بہت سے افراد جنہیں پیچھے چھوڑ دیا گیا اب طالبان کے ہاتھوں قتل ہو رہے ہیں۔’

‘سٹاف، اہلیت اور رابطوں کا فقدان تھا’

رافائیل مارشل کے مطابق انخلا کے دوران محکمہ خارجہ کے ہنگامی سینٹر پر ناصرف سٹاف کی شدید کمی تھی بلکہ اہلیت اور وزارت دفاع کے ساتھ رابطوں کا بھی فقدان تھا۔

ان کے مطابق اس دوران سیکرٹری خارجہ ڈومینیک روب نے ہنگامی انخلا سینٹر کی جانب سے بھیجے جانے والے پیغامات کا جواب دینے میں گھنٹوں لگائے اور انہیں مکمل طور پر اصل صورت حال کی سمجھ نہیں تھی۔

کابل

،تصویر کا ذریعہGetty Images

برطانوی انخلا کے راز افشا کرنے والے سابق افسر کے الزامات کیا ہیں؟

  • انخلا کی درخواستوں سے نمٹنے والے سٹاف میں سے کسی نے افغانستان میں کام نہیں کیا تھا اور نہ ہی ان کو وہاں کے حالات کا زیادہ علم تھا
  • ہنگامی انخلا سینٹر میں موجود سٹاف کو کوئی افغان زبان نہیں آتی تھی جس کی وجہ سے افغان درخواست گزاروں سے انگریزی زبان میں بات کی جاتی تھی
  • انخلا کے دوران کس افغان شہری کی مدد کی جائے گی، یہ فیصلہ اپنی من مانی سے کیا گیا، اور ہزاروں درخواست گزاروں کی ای میلز پڑھی ہی نہیں گئیں
  • ہنگامی انخلا سینٹر کا آئی ٹی کا نظام بھی غیر فعال تھا، حتی کہ ایک کمپیوٹر کوممد کے لیے لائے جانے والے آٹھ فوجی استعمال کر رہے تھے
  • سیکرٹری خارجہ ڈومینیک روب کی فیصلہ سازی سست روی کا شکار رہی کیوں کہ وہ اصل صورت حال کو سمجھ نہیں پائے

ایئر پورٹ

،تصویر کا ذریعہGetty Images

‘کئی افغان اراکین پارلیمنٹ کے مدد کے پیغامات بھی نہیں دیکھے گئے’

واضح رہے کہ اگست میں کابل پر طالبان کی پیش قدمی کے وقت برطانوی حکومت نے انخلا کی دو سکیمز متعارف کروا رکھی تھیں۔ ان میں سے ایک کے تحت ایسے افغان شہریوں کو نکالنا تھا کو براہ راست برطانوی حکومت کے ساتھ کام کر رہے تھے جب کہ دوسری سکیم کے تحت ایسے افغان شہریوں کی شناخت اور انخلا میں مدد کرنا تھی جن کی زندگی کو برطانوی حکومت کے ساتھ تعاون کی وجہ سے خطرہ لاحق ہو سکتا تھا۔

رافائیل مارشل ایک ایسی ٹیم کے ساتھ کام کر رہے تھے جنہیں افغان سپیشل کیسز سونپے گئے تھے۔ اس گروپ میں افغان فوجی، سیاست دان، صحافی، بیوروکریٹس، سماجی کارکن، جج اور نجی محافظ شامل تھے جو بلا واسطہ برطانوی حکومت کے لیئے ذیلی ٹھیکیداروں کے ذریعے کام کر چکے تھے۔

رافائیل مارشل کے مطابق جیسے ہی طالبان نے کابل پر پیش قدمی شروع کی، ان افغان شہریوں کی جانب سے ملک سے فرار میں مدد کے پیغامات کا تانتا بندھ گیا۔

‘عام طور پر ایک دن میں کسی بھی وقت تقریبا مدد کی درخواست کی ایسی پانچ ہزار ای میلز ان باکس میں موجود ہوتی تھیں اور ان میں سے ہزاروں تو کبھی پڑھی ہی نہیں گئیں جن میں افغان رکن پارلیمنٹ کے پیغامات بھی شامل تھے۔’

ان کا کہنا ہے کہ ‘جس عمل کے تحت ان درخواستوں میں ترجیحی بنیاد طے کرنا تھی وہ غیر فعال تھا کیوں کہ حکومت کی جانب سے طے کیا جانے والا معیار غیر مدد گار اور مبہم تھا جس نے کافی الجھن پیدا کی۔’

یہ بھی پڑھیے

‘نظام افرا تفری کا شکار تھا’

رافائیل مارشل کہتے ہیں کہ ہنگامی انخلا سینٹر میں موجود عملہ جو پہلے محکمہ برائے بین الاقوامی ترقی کے لیے کام کرتا تھا فارن، کامن ویلتھ، ڈویلیپمنٹ آفس کے کمپیوٹرز تک ہی رسائی نہیں حاصل کر سکا کیوں کہ آئی ٹی سسٹم کا نظام مربوط نہیں تھا۔

ان کے مطابق جب فوجیوں کو مدد کے لیے سینٹر لایا گیا تو ان میں سے کئی نے پہلے کمپیوٹر سسٹم استعمال ہی نہیں کیا ہوا تھا جس کے باعث بہت غلطیاں ہوئیں۔ ‘ایک وقت میں آٹھ فوجی ایک ہی کمپیوٹر استعمال کر رہے تھے۔’

کابل

،تصویر کا ذریعہEPA

‘کسی کو افغان زبان نہیں آتی تھی’

رافائیل مارشل کی شہادت کے مطابق افغان انخلا سینٹر میں موجود عملہ کسی بھی افغان زبان کے علم سے نابلد تھا جس کی وجہ سے درخواست گزار افغان شہریوں سے صرف انگریزی زبان میں ہی بات کی جاتی تھی۔ ‘ان میں سے کسی کو پشتو یا دری زبان نہیں آتی تھی۔’

‘میں نہیں سمجھتا کہ اس خصوصی افغان انخلا ٹیم میں سے کسی نے بھی کبھی افغانستان میں کام کیا تھا یا اسے افغانستان کی تفصیلی معلومات تھیں۔ ایسے میں جب آپ کو کہا جائے کہ آپ کسی کی زندگی اور موت کا فیصلہ کریں جس سے متعلق آپ کو کچھ پتہ ہی نہیں تو یہ کافی خوفزدہ کرنے والا عمل تھا۔’

رافائیل کے مطابق ہنگامی سینٹر میں موجود عملے کو کابل ایئرپورٹ پر اصل صورت حال کا بھی درست علم نہیں تھا اور نا ہی وہ جانتے تھے کہ انخلا میں جلد بازی کی اہمیت کیا ہے۔

اس رپورٹ میں یہ بھی لکھا ہے کہ ہنگامی سینٹر کی جانب سے سیکرٹری خارجہ ڈومینیک روب کو مشکل کیسز پر فیصلوں کے لیے کئی پیغامات بھیجے گئے لیکن ان پر جواب دینے میں گھنٹوں لگائے گئے کیوں کہ ‘سیکرٹری کے مطابق جب تک وہ تمام کیسز ایک بہتر طور پر مرتب ٹیبل پر نہیں دیکھ لیتے وہ انفرادی کیس پر فیصلہ نہیں کر سکتے۔’

رافائیل مارشل کہتے ہیں کہ سیکرٹری خارجہ کی جانب سے ایسے بیان کا یہی مطلب ہے کہ انہیں اصل صورت حال اور زمینی حقائق کی سمجھ ہی نہیں تھی۔

‘اصل مسئلہ شناخت کی تصدیق تھی، نا کہ تیز رفتار فیصلہ سازی’

ان الزامات کے جواب میں ڈومینیک روب کے قریبی ذرائع نے بی بی سی کو بتایا کہ ‘ہم نے تقریبا پانچ سو خصوصی کیسز کو نکالنے میں مدد دی جن میں صحافی اور خواتین سماجی کارکن شامل تھے۔’

کابل

،تصویر کا ذریعہMOD VIA PA MEDIA

‘اس وقت اصل مسئلہ فیصلہ سازی کی رفتار نہیں تھی بلکہ انخلا کے دوران افغان شہریوں کی شناخت کی تصدیق اور انہیں ایئرپورٹ تک محفوظ راستہ فراہم کرنا تھا۔ اس تمام عمل کے دوران ہمارا فوکس صرف اور صرف انسانی زندگیاں بچانے پر تھا۔’

برطانوی کمیٹی برائے خارجہ امور کے چیئرمین ٹام ٹگنڈھاٹ کے مطابق اب تک موصول ہونے والی شہادت ‘عدم دلچسپی اور انسانیت پر نوکر شاہی کو ترجیح دینے کی پالیسی کی نشان دہی کے ساتھ ساتھ دفتر خارجہ کی قیادت پر سنگین سوالات اٹھاتے ہیں۔’

برطانوی حکومت کے ترجمان نے ان الزامات کے جواب میں کہا ہے کہ دفتر خارجہ اور فارن، کامن ویلتھ، ڈویلیپمنٹ آفس کے تقریبا ایک ہزار عملے نے انتھک محنت سے دو ہفتے کے دوران افغانستان سے پندرہ ہزار افراد کے انخلا کو ممکن بنایا۔

‘ہمیں افسوس ہے کہ ہم ان تمام افراد کے انخلا کو یقینی نہیں بنا سکے جن کی ہم مدد کرنا چاہتے تھے لیکن ان کے ساتھ کلیا جانے والا وعدہ ابھی بھی قائم ہے۔’

حکومتی ترجمان کے مطابق برطانیہ اب بھی کئی افغان شہریوں کے انخلا میں مدد دینے کے لیے سرگرم ہے اور تین ہزار سے زیادہ افراد کو افغانستان سے نکلنے میں مدد فراہم کر چکا ہے۔

BBCUrdu.com بشکریہ
You might also like

Comments are closed.