- مصنف, فلورا ڈریری
- عہدہ, بی بی سی نیوز
- 37 منٹ قبل
جاپان میں ایک قریب المرگ شخص نے گذشتہ دنوں یہ دعویٰ کیا تھا کہ وہ ملک (جاپان) کے انتہائی مطلوب مُجرموں میں سے ایک ہیں، اور اب ان کا یہ دعویٰ سچ ثابت ہوا ہے۔ان کا یہ دعویٰ اس وقت سچا ثابت ہوا جب ان کا ڈی این اے ٹیسٹ کروایا گیا جس کے بعد حکام پر یہ انکشاف ہوا اپنی زندگی کے آخری لمحات میں موجود وہ شخص سچ بول رہا ہے۔ستوشی کریشیما نامی شخص نے رواں برس جنوری میں اپنے سنگین جرائم کا اعتراف کرتے ہوئے پولیس کو بتایا کہ وہ اپنی اصلیت کا راز اس لیے کھول رہے ہیں کیونکہ وہ ’اپنی اصل شناخت اور نام کے ساتھ موت کو گلے لگانا چاہتے ہیں۔‘جاپان کے دارالحکومت ٹوکیو کے قریب ایک ہسپتال میں داخل ہونے والے ایک 70 برس مریض نے دعویٰ کیا تھا کہ ہی جاپان میں حکام کو انتہائی مطلوب ستوشی کریشیما ہیں۔ انھوں نے پولیس کو بتایا کہ وہ اُس عسکری گروہ کے رُکن ہیں جس نے 1970 کی دہائی میں ملک میں متعدد بم دھماکے کیے تھے جن میں جانی نقصان بھی ہوا تھا۔
پولیس اب تک اس بات کا پتا نہیں چلا سکی ہے کہ زندہ ہونے کے باوجود وہ گذشتہ کئی دہائیوں کے دوران پولیس کو چکما دینے میں کیسے کامیاب رہے، اِس کے باوجود کہ پورے جاپان میں اُن کے چہرے کے خاکے دیواروں پر چسپان کیے گئے تھے اور لوگوں سے ان کی گرفتاری میں مدد دینے کی اپیلیں کی گئی تھیں۔مقامی میڈیا کے مطابق، ستوشی پر الزام ہے کہ انھوں نے 18 اپریل 1974 کو ٹوکیو کے ضلع گینزا میں گھر میں تیار کردہ ایک بم کو ایک عمارت میں نصب کرنے اور اسے پھاڑنے میں مدد کی تھی۔ اس حملے میں بلڈنگ کا ایک حصہ تباہ ہو گیا تھا۔ستوشی کا تعلق عسکری گروہ ایسٹ ایشیا اینٹی جاپان آرمڈ فرنٹ سے تھا۔ یہ بائیں بازو سے تعلق رکھنے والا ایک عسکری گروہ تھا جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس کے شدت پسندوں نے 1972 سے 1975 کے درمیان جاپانی دارالحکومت ٹوکیو میں متعدد کمپنیوں کو بم دھماکوں کا نشانہ بنایا تھا۔ جن کمپنیوں کو انھوں نے نشانہ بنایا اُن میں گاڑیاں بنانے والی معروف کمپنی مٹسوبیشی کی عمارت بھی شامل تھی۔ یہاں ہونے والے بم دھماکے کے نتیجے میں آٹھ افراد ہلاک جبکہ 160 سے زائد افراد زخمی ہوئے تھے۔ستوشی پر الزام ہے کہ وہ اسی گرہ کی جانب سے کیے جانے والے چار دیگر حملوں میں بھی ملوث تھے۔ ان حملوں میں ملوث ان کے دیگر دو ساتھیوں کو ماضی میں سزائے موت دے دی گئی تھی۔جاپان کے شہروں میں اُن کے پوسٹرز لگنے اور ان کی تصاویر کی بڑے پیمانے پر تشہیر ہونے کے باوجود گذشتہ ماہ جب انھوں نے خود اپنی شناخت ظاہر کی تو یہ اُن کے گرد موجود لوگوں، خاص طور پر اُن کے پڑوسیوں کے لیے، حیران کر دینے والی بات تھی کہ وہ ایک مطلوب مُجرم ہیں۔ ،تصویر کا ذریعہNational Police Agencyاُن کے پڑوسیوں میں سے ایک نے تو انھیں ایک ’سنجیدہ اور معصوم‘ شخص کے طور پر بیان کیا۔ انھوں نے یہ بھی بتایا کہ ستوشی اپنے کمرے میں شراب نوشی کے بعد گٹار بجانے کے عادی تھے۔ستوشی، ہیروشی اچیڈا کے نام سے مبینہ طور پر ٹوکیو کے مغربی کنارے پر واقع فوجیساوا شہر میں تقریباً 40 سال سے مقیم تھے۔جاپان کے ایک اخبار نے رپورٹ کیا کہ ستوشی نے پولیس کو بتایا کہ انھوں نے ایک تعمیراتی کمپنی میں کام کرنے کے علاوہ دیہاڑی دار مزدور کے طور پر بھی کام کیا۔ براڈکاسٹر ’این کے ایچ‘ کے مطابق انھیں ان کے کام کی اُجرت نقدی کی صورت میں کی جاتی تھی اور ان کے پاس کوئی موبائل فون بھی نہیں تھا کہ ان کی کسی بھی طرح نگرانی کی جاتی یا ان پر کسی طرح نظر رکھی جاتی کہ وہ کہاں جاتے ہیں اور اُن کا ٹھکانہ کہاں ہے۔بتایا گیا ہے کہ گذشتہ دنوں جب وہ ٹرمینل کینسر کے علاج کی غرض سے ہسپتال میں داخل ہوئے تو اُن کے شناخت کے لیے اُن کے پاس نہ تو کوئی ڈرائیونگ لائسنس تھا اور نہ ہی کوئی ہیلتھ انشورنس کارڈ۔اور یہ وہی وقت تھا کہ جب انھوں نے ہسپتال کے عملے کے سامنے اپنی اصل شناخت ظاہر کی، جس کے بعد پولیس کو اطلاع دی گئی۔پولیس کا کہنا ہے کہ وہ اپنے خاندان اور مشرقی ایشیا اینٹی جاپان آرمڈ فرنٹ دونوں کے بارے میں تفصیلات بتانے کے قابل تھے۔ انھوں نے یہ سب باتیں 29 جنوری کو اپنی موت سے چند دن پہلے ایک انٹرویو میں بتائیں۔ ایک ذریعے نے کیوڈو نیوز ایجنسی کو بتایا کہ انھوں نے اپنے اُوپر لگنے والے کچھ الزامات کی تردید بھی کی۔ٹوکیو پولیس کے ایک ترجمان نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو تصدیق کی کہ ڈی این اے ٹیسٹ نے اب ستوشی کے اپنے متعلق کیے گئے دعوؤں کی تائید کر دی ہے۔ اس تائید کے بعد ستوشی سے متعلق کیسوں کی فائلیں ٹوکیو ڈسٹرکٹ پبلک پراسیکیوٹر آفس کو بھیج دی گئی ہیں۔تاہم، کیوڈو نیوز کے مطابق، پولیس اس بات کی بھی تفتیش جاری رکھے گی کہ آیا کسی نے ستوشی کو اس تمام عرصے تک نامعلوم رہنے میں مدد کی یا نہیں۔
BBCUrdu.com بشکریہ
body a {display:none;}
Comments are closed.