- مصنف, کیرولین ہاولے اور جوش پیری
- عہدہ, بی بی سی نیوز
- 9 منٹ قبل
برطانوی میکسیکن شخص مینویل گریرو اوینا قطر میں اپنے گھر میں موجود تھے جب ان سے ’جیو‘ نامی ایک شخص نے ہم جنس پرستوں کے لیے بنائی گئی ڈیٹنگ ایپ ’گرینڈر‘ پر رابطہ کیا اور دونوں نے ملاقات کے لیے وقت طے کر لیا لیکن مینویل کے خاندان کے مطابق جب وہ ’جیو‘ سے ملنے پہنچے تو وہاں قطر کے پولیس اہلکار ان کا انتظار کر رہے تھے۔مینویل کے بھائی اینریک نے دعویٰ کیا ہے کہ پولیس نے ان کے بھائی کو منشیات رکھنے کے جھوٹے الزام میں گرفتار کیا۔ ان کے خاندان کا دعویٰ ہے کہ قطری پولیس نے مینویل کو گرفتار کرنے کے لیے ’ہنی ٹریپ‘ کا استعمال کیا۔مینویل کے خاندان نے برطانوی حکومت سے اپیل کی ہے کہ وہ مینویل کو قطر سے واپس برطانیہ لائیں۔ایمنسیٹی انٹرنیشنل نے حراست میں مینیویل کے ساتھ رواں رکھے گئے سلوک کو ’بد ترین‘ قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ ان کے خلاف قطر میں جاری عدالتی کارروائی ’خلاف ورزیوں سے بھری پڑی ہے۔‘
انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے کام کرنے والی دیگر تنظیمیں بھی ایمنیسٹی انٹرنیشل کے تحفظات سے اتفاق کرتی ہیں۔دوسری جانب قطری حکام کا کہنا ہے کہ مینیویل کے ساتھ ’عزت اور احترام‘ کے ساتھ پیش آیا جا رہا ہے۔
’جیو‘ تھا کون اور اس نے مینیویل کو کیسے پھنسایا؟
گرینڈر پر’جیو‘ کی پروفائل دیکھنے میں بالکل ویسی ہی نظر آتی ہے جیسے دنیا بھر میں ڈیپٹنگ ایپس پر موجود ہزاروں افراد کی ہوتی ہے۔بی بی سی نے ’جیو‘ کی گرینڈر پر موجود پروفائل دیکھی اور یہاں ان کی ڈھیر ساری جِم میں لی گئی سیلفیاں موجود ہیں جن میں ان کا نیم برہنہ جسم دیکھا جا سکتا ہے۔اس ہی شخص کی پروفائل ایک اور ڈیٹنگ ایپ ٹنڈر پر بھی مائیک کے نام سے موجود ہے۔ اینریک کہتے ہیں کہ ان کے بھائی مینیویل نے ’جیو‘ سے اپنے رابطہ نمبروں کا بھی تبادلہ کیا اور انھیں دوحا میں واقع اپنے اپارٹمنٹ پر آنے کی دعو ت دی لیکن جب مینویل اپنی بلڈنگ کی لابی میں ’جیو‘ سے ملنے پہنچے تو وہاں قطری پولیس اہلکار موجود تھے۔ انرینک کہتے ہیں کہ پولیس نے ان کے بھائی کو فوراً ہتھکڑیاں لگا دیں اور گرفتار کر لیا۔قطر میں ہم جنس پرستی ایک قابلِ سزا جرم ہے۔ مینویل ایک ایئرلائن میں کام کرتے ہیں اور ان کے خاندان کا کہنا ہے کہ وہ پچھلے سات برس سے ایک ’نارمل زندگی‘ گزار رہے ہیں اور انھیں اس سے قبل حکام نے کبھی کچھ نہیں کہا۔قطری حکام کا اصرار ہے کہ 44 سالہ مینویل کو اس لیے گرفتار کیا گیا کیونکہ ان کے پاس سے منشیات برآمد ہوئی تھی اور اس کے علاوہ ان کی گرفتاری کے پیچھے کوئی دوسری وجہ نہیں۔،تصویر کا ذریعہFamily Handout
ہم جنس پرستوں کو پھانسنے کے لیے ڈیٹنگ ایپ کا استعمال؟
بی بی سی کو سب سے پہلے مینویل کے کیس کے حوالے سے ’فیئر سکوائر‘ نامی تنظیم نے مطلع کیا تھا۔ اس تنظیم کے ڈائریکٹر جیمز لنچ ایک سابق برطانوی ڈپلومیٹ ہیں۔وہ کہتے ہیں کہ ’مینویل ایک ایل جی بی ٹی (ہم جنس پرست) شخص ہیں اور انھیں ایک ڈیٹنگ ایپ کے ذریعے نشانہ بنایا گیا۔‘مینویل کے خاندان کے دعوؤں کی سچائی کو جانچنے کے لیے بی بی سی نے انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے کام کرنے والی دیگر شخصیات سے بھی بات چیت کی۔ہیومن رائٹس واچ نے 2022 میں ایک رپورٹ کی تیاری کے سلسلے میں چھ افراد کے انٹرویوز کیے تھے اور ان افراد کے مطابق قطری حکام نے ان پر بھی دباؤ ڈالا تھا کہ وہ دیگر ہم جنس پرستوں کے بارے میں معلومات مہیا کریں۔ہیومن رائٹس واچ کی ڈپٹی ڈائریکٹر راشا یونس کا کہنا ہے کہ قطری سکیورٹی اہلکار ہم جنس پرست افراد کو صرف ان کی شناخت کی وجہ سے گرفتار کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ان افراد کو جسمانی اور ذہنی تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔خیال رہے 2022 میں فُٹبال ورلڈ کپ کے دوران بھی قطر کا ہم جنس پرستوں کے خلاف رویہ خبروں میں رہا تھا۔ہم جنس پرستوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والے ڈاکٹر ناس محمد کہتے ہیں کہ ورلڈ کپ کے دوران قطری حکام نے کہا تھا کہ ’ہم ہر شخص کو خوش آمدید کہتے ہیں‘ لیکن اس موقع پر بھی ہم جنس پرستوں کے خلاف کارروائیوں کی اطلاعات میڈیا میں گردش کر رہی تھیں۔وہ کہتے ہیں کہ ’مجھے نہیں معلوم کے مینویل نے منشیات کا استعمال کیا یا نہیں لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ان سے ہم جنس پرست ہونے پر سوال کیے جا رہے ہیں اور انھیں گرینڈر پر پھنسایا گیا تھا۔‘مینویل کے کیس کے منظرِعام پر آنے کے بعد گرینڈر ایپ قطر میں موجود اپنے صارفین کو خبردار کر رہی ہے کہ ’پولیس اس ایپ پر موجود ہے اور گرفتاریاں کر رہی ہے۔‘قطر میں اپنے بھائی سے ملاقات کا ذکر کرتے ہوئے اینریک کہتے ہیں کہ ’جب میں جیل میں اپنے بھائی سے ملا اور سُنا کہ اسے وہاں کیا کیا سہنا پڑا، تو مجھے لگا جیسے کہ میں کسی بیتی ہوئی صدی کے مقدمے کے بارے میں سُن رہا ہوں۔‘وہ کہتے ہیں کہ ان کا بھائی برطانیہ میں اپنے گھر واپس آنا چاہتا ہے۔
BBCUrdu.com بشکریہ
body a {display:none;}
Comments are closed.